نفسیاتی جنگ – ابوالقاسم فردوسی طوسی
شیکسپیئر کا شہرۂ آفاق قول ہر زمانے میں کیلیے ہے، ”محبت اور جنگ میں سب جائز ہے”۔۔۔
پروپیگنڈا کا پہلا اصول ہوتا ہے جھوٹ اور سچ کو خلط ملط کرکے ایک ایسا بیانیہ تیار کرنا جس سے اصل اور نقل، صحیح اور غلط کا فرق ہی مٹ جائے۔۔۔
دور حاضر میں جنگیں صرف محاز جنگ پر نہیں بلکہ انٹرنیٹ، پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بھی لڑی جاتی ہیں۔۔۔جعلی ویڈیوز تصاویر، فیک خبریں، رپورٹس اور ہر وہ حربہ جو آپکے بیانیے کو مضبوط بناتا ہو وہ استعمال کیا جاتا۔
آپکو یاد ہوگا جب پاکستان کے تمام نیوز چینلز پر سوات میں ایک لڑکی کو سرعام کوڑے مارنے کی ویڈیو چلائی گئی۔۔ جسکے بعد سوات میں فوجی آپریشن کی راہ ہموار اور اس آپریشن کو عوامی حمایت حاصل ہوئی۔۔۔۔ایک ویڈیو نے ساری جنگ کی کایا پلٹ دی۔
اس وقت شام میں گراونڈ ریالٹی کیا ہے کسی کو معلوم نہیں۔۔ ہم تک پہنچنے والا میٹیریل وہی ہے جو سی این این، فاکس نیوز، یا بی بی سی ہمیں دکھاتے ہیں۔
یمن میں مسئلہ یہ ہے کہ وہاں بڑی طاقتوں کے مفادات ایگزسٹ نہیں کرتے لہذا وہاں مکمل میڈیا بلیک آوٹ ہے۔ اور سعودی اتحاد کی بمباری پر تمام فریقین شیر و شکر ہیں۔
الجزیرہ اور العربیہ جیسے عرب نیوز چینلز نے یمن جنگ پر مکمل بلیک آوٹ کیا ہوا ہے۔ مگر شامی جنگ پر مسلسل یکطرفہ رپورٹس جاری کرتے ہیں۔
شام بین الاقوامی طاقتوں کا اسٹریٹجک مفاد آپس ٹکرا رہا ہے۔ پوری دنیا کی توجہ اسوقت شام کی طرف ہے۔۔۔ اور یہیں پروپیگنڈا مشینری سب سے زیادہ فعال بھی ہے۔
شام میں اسوقت ایک درجن سے زائد چھوٹے بڑے مسلح گروہ حکومت کے خلاف لڑرہے ہیں اور آپس میں بھی لڑریے ہیں۔ القاعدہ، داعش، الحرار الشام، جبہتہ النصرہ،، اسلامک موومنٹ آف کردستان وغیرہ و دیگر۔
ہر گروپ کے پیچھے کوئی نہ کوئی بڑی طاقت کھڑی ہے، جو انہیں، عسکری، و مالی مدد فراہم کررہے ہیں۔ وقتاً فوقتاً جنگ کے میدان بدلتے رہتے ہیں اور آپس میں جنگ بندی بھی ہوتی ہے۔ پھر لڑائی بھی۔۔۔ یہ لوگ اس جنگ کو جیتنے اور عالمی سطح پر ہمدردیاں حاصل کرنے کیلیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ عورتوں بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
انکے پاس اپنے رپورٹرز، کیمرہ مین، میک اپ مین ہوتے ہیں۔ جنکا کام ویڈیوز تیار کرنا ایڈٹ کرنا اور پھر انکو سوشل میڈیا پر پھیلانا ہوتا اور چند گھنٹوں میں یہ ویڈیوز اور تصاویر، ہیش ٹیگ لاکھوں بار سوشل میڈیا پر شئیر ہوچکی ہوتی ہیں۔
یہ نہیں ہے کہ شام میں بمباری سے سویلین اور بچے نہیں مررہے۔۔۔ لیکن پچھلے دو دنوں میں انٹرنیٹ اور یوٹیوَب پر سرچنگ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہم جو دیکھتے ہیں وہ ایک illusion ہے۔۔۔ آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ آخر اس طرح میک اپ زدہ تصاویر جعلی ویڈیوز بنانے کا آخر مقصد کیا ہے۔۔۔ کیا اصلی لاشیں وہ کام نہیں کرتیں۔
جی ہاں اصلی لاشیں وہ Expression نہیں دے سکتیں جو پروپیگنڈا کیلئے درکار ہوتا ہے۔۔
اور اسکا مقصد عالمی ہمدردی حاصل کرنا اور اپنے جنگی جرائم پردہ ڈالنا ہے، ایسی ویڈیوز کا مقصد عوام کے دلوں ہمدردیاں پیدا کرنا اور ایک غلط بیانیے کو صحیح ثابت کرنا ہوتا ہے۔
اس سے ان عسکری تنظیموں کو افرادی قوت بھرتی کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ہمدردی مدد پر مجبور کرتی یے اور یہ مدد اخلاقی بھی ہوسکتی مالی بھی اور عسکری بھی۔
بے شک شام میں لڑنے والے مجاہدین نہ صرف اچھے طریقے سے گردن پر چھری چلاتے ہیں۔ بلکہ بہترین اداکار بھی ہیں۔ یقیناً یہ آسکرز ایوارڈ کے مستحق ہیں۔
یہاں پاکستانی بوزنوں کی حالت یہ ہے کہ انہیں اتنا بھی علم نہیں کہ علوی بشار الاسد کی آرمی میں ساٹھ فیصد فوج سنی ہے۔ لیکن یہ مسلسل شیعہ و سنی چورن بیچے جارہے ہیں۔