پاکستان کے لبرل انگریزی پریس میں کمرشل ازم کا بڑھتا رجحان – عامر حسینی
پاکستان میں لبرل پریس سیکشن پہ کمرشل ازم کا غلبہ اس قدر زیادہ ہوگیا ہے کہ اب یہ اپنی لبرل اقدار کو بری طرح سے پامال کرتا ہے۔ جنگ-نیوز میڈیا گروپ سے وابستہ اور ایسے ہی فرائیڈے ٹائمز کی نرسری اور ڈان و ہیرالڈ، نیوز ویک، نیویارک ٹائمز سے جڑے لبرل صحافیوں اور ایسے ہی سول سوسائٹی کا ایک سیکشن پاکستان میں نواز شریف اینڈ کمپنی ، امریکی ڈونر ایجنسیوں کی پاسداری میں عجب حماقتوں پہ اتر آیا ہے۔
ایک طرف یہ عالم ہے کہ سپاہ صحابہ پاکستان، پاکستان علماء کونسل ، جامعہ بنوریہ ، دارالعلوم کراچی ، دار العلوم اشرفیہ ، دار العلوم حقانیہ سے ایسے مولویوں کو اعتدال پسند اور ماڈریٹ مولوی بناکر پروجیکٹ کیا جاتا ہے، جن کے کریڈٹ میں جہاد ازم، عسکریت، فرقہ واریت، شیعہ، صوفی سنّی ،احمدی کے خلاف منافرت آمیز فکری و عملی سرگرمیاں کرنے کے شواہد موجود ہیں۔ محمد احمد لدھیانوی جیسے مولوی کو پرائم ٹائم میں بلاکر شیعہ کو کافر کہلوایا جاتا ہے، محرم اور میلاد کے جلوسوں پہ پابندی کے مطالبات کرنے والوں کو وقت دیا جاتا ہے۔ اور فرقہ واریت کے حل میں ان کو امید کی کرن بناکر دکھایا جاتا ہے۔
اور اکر آپ اسے لبرل، سیکولر اور ترقی پسند اقدار کے منافی کہیں تو آپ کو بتایا جاتا ہے کہ یہ لبرل اس کمرشل ازم کو ” مین سٹریمینگ آف ایکسٹرمسٹس ” قرار دیتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
لیکن خادم رضوی، اشرف جلالی اور ان جیسے دیگر لوگوں کے معاملے میں ان کے ہاں لبرل اقدار ایک دم سے ” عملیت پسندی کے صحن سے پھر آئیڈیل ازم کی چھت پہ چڑھ جاتی ہے۔” اور پھر تو “بریلوی درندے” جیسی اصطلاح بھی ٹھیک رہتی ہے۔
لیکن کیا عجب بات ہے کہ پاکستان کے ان مہان لبرل پریس اور سول سوسائٹی کے حصّے کی ” لبرل عملیت پسندی” طاہر القادری اور الیاس قادری” کے باب میں کہیں گم ہوجاتی ہے۔ خاص طور پہ طاہر القادری کے باب میں۔
ان کے ہاں ڈاکٹر طاہر القادری کے سینکڑوں تعلیمی اداروں، تنظیمی نیٹ ورک کی پوری دنیا میں پھیلی شاخوں اور ان کی جہاد ازم ، عسکری سیاسی اسلام ازم، تکفیر ازم ، خارجیت کے خلاف ہزاروں تقریریں ، سینکڑوں کتابیں ، ان کے طالبان، القاعدہ، لشکر جھنگوی اور ان جیسی دیگر تکفیری فاشسٹ جماعتوں کی نظریاتی اور فکری جہتوں پہ سخت علمی حملے اور طاہر القادری کا وسیع المشرب ، صلح کلیت کا رویہ زرا بھی اہمیت نہیں پاتا۔اس بارے ایک لفظ بھی ان کے ہاں کبھی پڑھنے کو نہیں ملتا۔یہاں تک کہ یہ تنقید سے آگے جاکر انتہائی تحقیر اور بدذبانی تک کرتے نظر آتے ہیں۔
کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ طاہر القادری اور اس کے ماننے والے تو گن پوآئنٹ اور دفاتر کا گھیراؤ کرکے زبردستی عزت و احترام حاصل کرنے والے لیڈروں میں سے نہیں ہیں۔
لبرل پریس کا ایک سیکشن اینٹی طاہر القادری مہم کیوں چلارہا ہے؟
اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف مسلم لیگ نواز کے میڈیا مینجرز ہیں جو پاکستان کے انگریزی، اردو پریس اور سوشل میڈیا کے اندر اپنے خرید کئے گئے لوگوں کے زریعے سے یہ مہم صرف طاہر القادری کے خلاف ہی نہیں بلکہ ہر اس سیاسی و مذہبی لیڈر و ایکٹوسٹ کے خلاف چلاتے ہیں جو ان کو بے نقاب کرتا ہے۔
اہل سنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان کیونکہ نواز لیگ کی اتحادی ہے تو پوری پروجیکشن اسے جنگ-نیوز میڈیا گروپ میں ملتی ہے۔ایسے ہی ڈان۔ہیرالڈ مسلسل سیرل المیڈا کے مضامین اور نیوز اسٹوریز نمایاں کرکے چلا رہا ہے جن کا ایک ہی ایجنڈا ہے اور وہ ہے نواز شریف سے وفاداری۔
پاکستان کا انگریزی پریس اپنے پڑھنے والوں کو یہ تک بتانے سے قاصر ہے کہ نواز شریف کے بریلوی ، دیوبندی ، اہلحدیث سمیت مسلمانوں کے مکاتب فکر میں سب سے بہتر تعلقات ان میں موجود انتہا پسند اور مذہبی جنونی تنظیموں اور افراد ہی سے ہیں۔اور نواز شریف بھی مذہبی انتہا پسندوں اور جنونیوں کو ویسے ہی استعمال کرتا ہے جیسے دگر مقتدر حلقے اسٹبلشمنٹ سے ہوں یا عدالتی مقتدرہ سے ہوں استعمال کرتے ہیں۔
طاہر القادری پہ ڈان-ہیرالڈ کا تازہ مضمون ” ایجی ٹیٹرر ایٹ لارج ” انتہائی غیر متوازن اور جانبداری پہ مبنی مضمون ہے۔اس مضمون میں ماڈل ٹاؤن 17 جون 2014ء کو پنجاب پولیس کی جانب سے ہوئے قتل عام کو فریقین کے درمیان تصادم کا نتیجہ بتلایا گیا ہے۔جبکہ یہ خود ڈان اخبار کے اس موضوع پہ لکھے گئے کئی اداریوں میں ظاہر کی گئی رائے سے بھی یکسر مختلف ہے۔یہ مضمون کسی بھی مصنف کے نام کے بغیر اور صاف ظاہر ہے کہ اس ادارے کی پالیسی کا آئینہ دار ہے۔اور یہ مضمون اس حقیقت کا ذکر تک نہیں کرتا کہ جن چودہ افراد کو سیدھی گولیاں ماری گئیں ان میں دو عورتوں کو تو باقاعدہ نہایت قریب سے گولیاں ماری گئیں تھیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی سالگرہ کے موقعہ پہ ایسے مضامین کا شایع کرنا ایک بار پھر کمرشل ازم کو ظاہر کرتا ہے اور لبرل اقدار کے دعوے داروں کا پول کھولتا ہے۔
اگر پاکستان میں اور پاکستان سے باہر بیٹھے لبرل اقدار کے علمبردار ماڈل ٹاؤن کے چودہ مظلوم مقتولوں کے خون پہ خاموشی اختیار کرتے ہیں اور اس پہ اس لئے آواز نہیں اٹھاتے کہ اس سے نواز شریف و شہباز شریف کو نقصان پہنچتا ہے تو پھر ان کی جانب سے ” شہری آزادی اور انسانی حقوق ” کے نعروںکے ساتھ کچھ مخصوص ایشوز پہ شور و غوغا کا مقصد اور ایجنڈا اور ہی سمجا جائے گا اور اسے انسانی حقوق کی تحریک سمجھنا مشکل ہوگا۔
نوٹ: جس طرح کی کردار کشی ڈاکٹر طاہر القادری کی گئی، اسی پیٹرن پہ بلاول بھٹو زرداری کی بھی کی گئی ۔لنک ملاحظہ ہوں
https://herald.dawn.com/
https://herald.dawn.com/