مال روڈ دھرنا ۔ چند باتیں کچھ سوال – حیدر جاوید سید
آگے بڑھنے سے قبل ایک سوال ہے۔ کیا شریف خاندان کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے 14مقتولین کا خون اس لئے معاف کردیا جائے کہ وہ پنجابی اشرافیہ کا سیاسی چہرہ ہیں؟۔ عجیب بات یہ ہے کہ طاہر القادری کی پیپلزپارٹی کے خلاف چند تُند تقاریر کے ’’ کلپس‘‘ سوشل میڈیا پر ڈال کر جمہوریت کا ’’مچ ‘‘ مارنے والے یہ بتانا پسند کریں گے کہ وہ کونسی نازیبا گالی تھی شریف خاندان اور ان کے پالتوؤں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو ان کی زندگی میں نہیں دی۔ پھر یہ اعتراف بھی کیا کہ بے نظیر بھٹو کے خلاف مقدمات فوج کے کہنے پر بنائے۔
پھر اسی بے نظیر بھٹو سے میثاق جمہوریت کیا اور انہیں قابل احترام بہن قرار دیا۔ نوازشریف کی سیاست میں سب جائز ہے کوئی دوسرا سیاسی عمل میں مخالفت کرے یا سانحہ ماڈل ٹاؤن کے لئے انصاف مانگے وہ عوام اور جمہوریت کا دشمن ہے۔ حیرانی ہوتی ہے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ان بوزونوں پر جو صبح سے چینلوں پر بیٹھے رو رہے ہیں کہ مال روڈ دھرنے سے شہری خوار ہوگئے۔ یہ عقل کے اندھے اس وقت عوام کے درد میں کیوں نہیں بولے جب پورے 4دن تک راولپنڈی سے لاہور تک جی ٹی روڈ پر غیر اعلانیہ کرفیو والی صورتحال تھی صرف نون لیگی اور بلدیاتی اداروں کے وہ ملازمین جنہیں جلوس میں شرکت کے لئے پابند کروایا گیا تھا کو جی ٹی روڈ پر جانے کی اجازت تھی۔ بجا ہے کہ غیر جانبداری نہیں ہوتی لیکن جھوٹ اور پروپیگنڈے کی ناؤ چلانے والے دہلی کے صابن فروش کے میڈیا ہاؤس کو اپنے مالک اور زرداری کی 1970ء کی دہائی میں ہوئے جھگڑے کا حساب کسی اور طرح چکانا چاہئے۔
ایک بات اور عرض کئے دیتا ہوں۔ منگل کی دوپہر تحریک انصاف میں تازہ بھرتی فواد چودھری کی بدزبانی اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے بعض بیانات کے بعد پیپلزپارٹی نے ڈاکٹر طاہر القادری کو با ضابطہ طور پر شام 5 سے 6بجے کے درمیان آگاہ کر دیا تھا کہ بدزبانی کے اس غلیظ مظاہرے کو بعد ہمارے لئے مال روڈ احتجاج میں شرکت ممکن نہیں۔ پیپلزپارٹی نے یہ فیصلہ باہمی مشاورت سے کیا ڈاکٹر قادری کو جونہی پیپلزپارٹی کا پیغام ملا وہ اپنے ساتھیوں سے مشورے کے بعد بلاول ہاؤس پہلے سے طے شدہ ملاقات کے وقت سے قبل پہنچے جہاں آصف زرداری نے انہیں کہا کہ پیپلزپارٹی مظلوموں کو انصاف دلوانے کے لئے پہلے دن سے منہاج القران اور عوامی تحریک کے ساتھ کھڑی ہے مگر اسٹیبلیشمنٹ کا لاڈلہ گروپ اپنے سربراہ سمیت جس بدزبانی میں مصروف ہے وہ ناقابل برداشت ہے۔ پیپلزپارٹی کو کوئی شوق نہیں کہ وہ عمران خان کے ساتھ کھڑی ہو البتہ ہمارا موقف آج بھی یہی ہے کہ 14انسانوں کے قتل کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی لازماً ہونی چاہئے۔
ڈاکٹر قادری اور آصف علی زرداری کی اس ملاقات میں زرداری نے ایک دلچسپ بات بھی کہی ان کا کہنا تھا کہ ہمارے کارکن سوال کرتے ہیں پیپلزپارٹی کیسے طالبان کے سیاسی چہرے عمران کے ساتھ کھڑا ہونے پر آمادہ ہوئی؟۔ بہر طور اس ملاقات کے دوران پیپلزپارٹی نے مال روڈ دھرنے میں عدم شرکت کا فیصلہ یہ کہتے ہوئے واپس لے لیا کہ ہم نہیں چاہتے کہ قاتلوں اور ان کے سرپرستوں کو یہ پیغام جائے کہ اپوزیشن میں پھوٹ پڑگئی ہے۔
یہاں ہم اس امر پر غور کرتے ہیں کہ نون لیگ اور پنجاب حکومت سانحہ ماڈل ٹاؤن کی آزادانہ تحقیقات سے کیوں خوفزدہ ہیں؟۔
کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ آزادانہ تحقیقات میں یہ بات کھل جائے گی کہ پولیس کی وردیوں میں کالعدم لشکر جھنگوئی کے دہشت گرد بھی موجود تھے جنہیں رانا ثناء اللّہ جھنگ سے لایا ہی منہاج القران پر حملے کے لئے تھا۔ کچھ عرصہ قبل اور قبل ازیں جون 2014ء سے تواتر کے ساتھ ان سطور میں منہاج القران پر حملے اور قتل عام کی سازش اس کے پس منظر اور دیگر معاملات پر عرض کرتا چلا آرہا ہوں۔ افسوس ہوتا ہے جب 14انسانی جانوں کے ضیاع پر بات کرنے کی بجائے نون لیگ کے حامی اپنی رام لیلا شروع کردیتے ہیں۔ میری دانست میں اصل مسئلہ یہی ہے کہ جمہوریت کا شور مچا کر قاتلوں اور سرپرستوں کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی ’’ جمہوری حکومت ‘‘ کو یہ حق ہے کہ وہ دن کی روشنی میں پولیس اور دہشت گردوں کے ذریعے 14انسان مار گرائے؟۔ آخر کیوں یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ اصل معاملے پر مٹی پڑ جائے اور شریفین کی سیاسی مظلومیت کا بول بالا ہو؟۔ یہ بجا ہے کہ جمہوریت کا نعم البدل کوئی نہیں لیکن جمہوریت ہے کہاں۔
ایک خاص قسم کی سکھا شاہی پر مبنی نظام جو صرف سرمایہ داروں کی تجوریاں بھر رہا ہو جمہوریت کیسے قرار پائے گا۔ مکرر عرض ہے کہ منہاج القران والے اپنے 14مقتول کارکنوں کو انصاف دلوانا چاہتے ہیں شریف خاندان اور اس کے لاڈلوں کے ہاتھ اور دامن صاف ہیں تو جون 2014ء سے جنوری 2018ء کے درمیانی عرصہ میں انصاف کیوں نہیں ہوا۔کیوں جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر راناثناء اللّہ نے تحقیقات کرنے والے جج کے مسلک کو ہدف بناتے ہوئے گند ڈالا؟۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا14انسانوں کے قاتلوں کو اس لئے کچھ نہ کہاجائے کہ وہ ان دنوں حکومت بھی فرماتے ہیں اور اسٹیبلیشمنٹ کی درشنی مخالفت کا سواد بھی لئے پھر رہے ہیں۔پھر یہ بات بھی اہم ہے کہ 17جنوری کے مال روڈ دھرنے کا اصل مقصد قاتلوں اور سرپرستوں کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔ مکرر عرض کروں کہ اگر نواز لیگ کی حکومت کے خلاف تحریک انصاف کے کسی احتجاج یا تحریک میں پیپلزپارٹی شریک ہو تو اعتراض بنتا ہے کہ ایک پرو اسٹیبلیشمنٹ اور پرو طالبان جماعت ساتھ کیوں چلا جائے۔
یہاں پیپلزپارٹی کی خدمت میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے احتجاج میں شرکت ضرور کرے یہ خالص ایک انسانی معاملہ ہے البتہ اگر اس احتجاج کی تحریک سے مذہبی رنگ کی کسی قسم کی تحریک برآمد کرنے یا اسٹیبلیشمنٹ نوازی کا جادو سر چڑھ کر بولتا دیکھائی دے تو پی پی پی کو اپنا راستہ الگ کرلینا چاہئے۔ مذہبی شدت پسندی اور اسٹیبلیشمنٹ نوازی کا متحمل نہیں ہوا جا سکتا۔ جناب قادری کی خدمت میں بھی یہی عرض کرنا بنتا ہے کہ اپنے مقتول کارکنوں کے لئے انصاف مانگنا آپ کا حق ہے لیکن اس احتجاج کو معرکہ ء کفر و اسلام بنانے سے گریز واجب ہے تاکہ وہ قوتیں جو اس احتجاج کی آڑ میں ایک خاص قسم کی مذہبی شدت پسندی کو ہوا دیکر احتجاج اور تحریک کو ہائی جیک کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں وہ اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
حرف آخر یہ ہے کہ مال روڈ دھرنے کی مولانا فضل الرحمن صرف اس لئے مخالفت فرمارہے ہیں کہ قاتلوں میں ان کی ہم عقیدہ تنظیم لشکر جھنگوئی کے دہشت گرد شامل ہیں۔ سو فضل الرحمن فرقہ فرقہ کھیلنے کی بجائے خاموش ہی رہیں تو زیادہ اچھا ہے البتہ اگر وہ قیمت بڑھانے کے چکر میں ہیں تو اللّہ ان کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔