پاکستانی میڈیا اعلانیہ بے نظیر کے قاتل طالبان کو چھپارہا ہے۔ ملک ریاض
ایسے طرز سے بات کرنا جس سے توجہ طالبان سے ہٹے اور کنفیوژن پیدا ہو اور پھر اسٹبلشمنٹ بارے بات کرنا ایسے جس سے طالبان اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان رشتوں کی نفی ہو اس کنفیوژن کو اور بڑھانے کی کوشش ہے۔کیا ان دو طرح کے ردعمل میں واقعی کوئی فرق ہے؟
اس طرح کا ایک بھی ردعمل یہ سادہ سی حقیقت بیان نہیں کرتا کہ اپنے دور صدارت میں میں تو زرداری سموسہ کی قیمت کا تعین نہیں کرسکتا تھا، اس پہ بھی سپریم کورٹ سوموٹو لے لیا کرتی تھی،چہ جائیکہ کہ وہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے اہم انوسٹی گیشن کروپاتے۔
پاکستانی میڈیا بھٹو خاندان کے خلاف کس قدر جانبدار اور معاندانہ رائے رکھتا ہے،اس کا جائزہ لینا مشکل ٹاسک ہے۔محض ایک سطح کی بددیانتی اور قبض کا شکار خود پسندی اور تکبر سے لپٹی عادت بد کو برداشت کرنا بہت مشکل بات ہے۔یہ اتنا ہی برا ہے جتنا سی این این اور بی بی سی کے زرا زیادہ پالش کئے گئے پروپیگنڈے کو آرام سے بیٹھ کر برداشت کرلیا جانا۔
گزشتہ رات محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے دس سال مکمل ہونے پہ،ناہید خان کو اپنی بددیانتی اور اپنی کڑواہٹ کو نکالنے کا پورا موقعہ فراہم کیا گیا اور اس موقعہ پہ ان کو کہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔ناہید خان جو کہ بے نظیر بھٹو کی پولیٹکل سیکرٹری رہیں ایک متنازعہ شخصیت ہیں،جنھوں نے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے فوری بعد غداری کرلی۔ان پہ الزام ہے کہ انہوں نے اپنے مقام و مرتبے کا غلط استعمال کرکے اسٹبلشمنٹ کے کہنے پہ پی پی پی کے اندر تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی۔کسی ایک نے ناہید خان کو سنجیدگی سے چیلنج کرنے کی کوشش نہیں کی کل رات جب وہ اپنا بغض ظاہر کررہی تھیں۔ان سے سوال ہونا چاہیے تھا کہ انہوں نے سن روف سے بے نظیر بھٹو سر باہر نکالنے کیوں دیا۔ایسی غیرمصدقہ خبریں موجود ہیں کہ ناہید نے خود بے نظیر بھٹو کو ایسا کرنے کو کہا،جس کا نتیجہ ان کی موت کی صورت نکلا۔بے نظیر اور مخدوم امین فہیم ک ساتھ دوسرے جو لوگ کار میں موجود تھے وہ اب جاچکے،تو کوئی نہیں ہے جو ناہید خان سے سوال کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کے بالغ بچے جو کہ پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں سے کوئی واسطہ رکھنا نہیں چاہتے اور یہی ایک اقدام ناہید خان کی حقیقت ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے۔اور یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے تمام بڑے ٹی وی چینل اس کو بھٹو خاندان اور پی پی پی پہ اپنے حملوں کے لئے ایک آلہ کار کے طور پہ استعمال کرتے ہیں۔
کاشف عباسی اور شفقت محمود پی ٹی آئی دونوں نے اس حوالے سے حق نمک اسٹبلشمنٹ کا ادا کیا۔ کاشف کسی ایشو پہ مختلف نکتہ ہائے نظر کو اپنی صحافتی قبض اور خود کو ہی درست سمجھنے والے رویے کے زریعے سے چھپالینے کی مہارت تامہ رکھتا ہے۔گزشتہ رات یہ ایک انتہائی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ٹی وی چینل پہ آنے والا فکسڈ پینل تھا۔شفقت محمود ہر ایک سیاسی پارٹی کی دلالی کرچکا ہے۔محدود مدت کے لئے وہ پی پی پی میں آیا،پھر مسلم لیگ نواز کے ساتھ ہوگیا اور پھر مشرف کے ساتھ اس کی سول سوسائٹی کا چیلا بنا اور اب وہ پی ٹی آئی میں ہے۔ وفاداریاں بدلنے والا ایک گھٹیا کیرئررسٹ۔
اور اس پینل میں مفلوج مرتضی سولنگی تھا۔جس نے اس متعصب پینل کی بددیانتی کو بے نقاب کرنے کی بجائے،روٹین کے پروپیگنڈا پوائنٹس دوہراتے ہوئے اس پینل کے سامنے سرنڈر کردیا۔اور یہ وہ شخص ہے جسے گزشتہ پی پی پی کی حکومت میں اس کی پسند کا سرکاری کا عہدہ دیا گیا تھا۔پاکستان پیپلزپارٹی کی یہ انتہائی نااہلی ہے کہ یہ پی پی پی کو نقصان پہنچانے والوں پہچان نہیں سکی اور ان کا محاسبہ نہیں کرسکی۔
اس پینل کی جانب سے کی جانے والی بحث کا خلاصہ یہ تھا کہ پی پی پی کی گزشتہ حکومت ہی بے نظیر بھٹو کے قتل کا معمہ حل نہ کرنے کی ذمہ دار ہے۔ان میں سے کسی نے بھی زرداری کی جانب سے آزادانہ تحقیق کرانے کے حکم جاری کرنے کا ذکر نہ کیا جس کے نتیجے میں پی پی پی اور زرداری نے سکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ سے رجوع کیا تھا۔
جب بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا،اس وقت ریاست کا سربراہ مشرف تھا جبکہ عدلیہ آئی ایس آئی اور نواز شریف کے زیر اثر تھی۔تو اس صورت حال میں پہلی ترجیح جمہوریت کی بحالی کے پروسس کو مکمل کرنا تھا تاکہ مشرف کا مناسب وقت میں مواخذہ ہوسکے۔پاکستان کی اربن مڈل کلاس کی باتونی پرتوں کے ابہامات کیا ہیں وہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا ذمہ دار پاکستان کی ریاست کو کنٹرول کرنے والوں اور ہزاروں سعودی سپانسرڈ تکفیری دیوبندی دہشت گردوں کو ٹھہرانے کی بجائے پی پی پی اور زرداری کو دیتے ہیں۔
پی پی پی کو غلط طور پہ سابق صدر مشرف کو معافی فراہم کرنے کا الزام دیا جاتا ہے۔لاء کے مطابق وہ کیا کرسکتے تھے؟ بہرحال ان میں سے کوئی بھی اس حقیقت کو بیان کرنے کو تیار نہیں ہے کہ جنرل مشرف کو اصل میں بھاگنے کا راستا ان کے محبوب اینٹی اسٹبلشمنٹ ‘نواز شریف’ نے فراہم کیا تھا ( ویسے ہم یہاں کہہ سکتے ہیں کہ حامد میر وہ واحد صحافی ہے جو نواز شریف کو مشرف کو ملک سے باہر جانے کا ذمہ کہتا ہے)
یہ دوہرے معیار ہیں،جو ان کو استعمال کرتے ہیں،یہ ان کو ہی نقصان پہنچاتے ہیں۔مثال کے طور پہ بے نظیر بھٹو کی مرگ ناگہانی پہ بھی پاکستان کی باتونی پرتوں نے ان کو برا بھلا کہا ،ان کی کردار کشی کی اور ان پہ سب وشتم کیا۔یہ ان لوگوں پہ مشتمل گروہ ہے جو اشرافیہ کے ڈرائنگ روموں میں زیربحث افواہوں اور پاکستانی میڈیا کے بددیانت عناصر کے پروپیگنڈے کو آگے چلاتا ہے۔
تو وہ جو آصف علی زرداری کو’کچھ زیادہ نہ کرنے ‘ کا الزام دیتے ہیں اور اکثر مبہم ،فضول سازشی مفروضوں کو اس پروسس میں بروئے کار لاتے ہیں وہ بے نقاب ہوجاتے ہیں جب وہ مشرف اور طالبان بارے خاموش رہتے ہیں یا ان کے حامی بنکر سامنے آتے ہیں۔