تاریخ کی خالی جگہیں فکشن سے بھری جاتی ہیں – عامر حسینی
صفدر نوید زیدی ہالینڈ کے شہر ہیگ میں رہتے ہیں۔میری ان سے فیس بک دوستی کو کئی سال ہوگئے تھے اور اس مرتبہ وہ ہیگ سے پاکستان آنے کا جب سے منصوبہ بنائے بیٹھے تھے تب سے مجھے کہہ رہے تھے کہ وہ مجھ سے ملنے آئیں گے۔وہ اپنے تیسرے ناول بارے مجھ سے روبرو گفتگو کرنا چاہتے تھے۔یہ ناول جب بھی سامنے آئے لیکن یہ شاید بہت سے کلیشوں کو توڑنے کا سبب بنے گا۔وہ کہتے ہیں کہ ان کو لگتا ہے کہ ان کا یہ پاکستان کا آخری دورہ ثابت ہوگا۔اور یہ ناول جب چھپ کر آئے گا تو اس کے بعد ان کے پاکستان آنے کے امکانات شاید ہمیشہ کے لئے ختم ہوکر رہ جائیں۔
صفدر نوید زیدی مظفرنگر اترپردیش ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنے والوں کی اولاد ہیں۔ممبئی میں رہنے والی،ستیہ جیت رے کی فلم شطرنج کے مکالمے جاوید صدیقی کے ساتھ ملکر لکھنے والی اور اس فلم کے لئے درکار کاسٹیوم تیار کرنے والی شمع زیدی ان کی رشتے دار ہیں۔اور برلن مین مقیم مایہ ناز آرٹسٹ محسن زیدی بھی ان کے کزن ہیں۔اور محسن زیدی نے ان کے دوسرے ناول “بھاگ بھری” کا کور ٹائٹل تیار کیا ہے۔اور ان کا تیسرا ناول جو آرہا ہے اس کے ہر ایک باب کے لئے ایک تشبیہ بھی محسن زیدی تیار کررہے ہیں۔
صفدر خود پیشہ کے اعتبار سے ایگری کلچر انجینئر ہیں اور وہ پلے رائٹر ہیں۔انھوں نے ” چینی جو میٹھی نہ تھی” ناول لکھا بقول ان کے پہلے یہ ایک پلے تھا اور اسے پڑھنے والوں نے اسے بڑھا کر ناول لکھنے کا مشورہ دیا۔اور وہ ناول لکھنے کی طرف آگئے۔
صفدر نوید زیدی خانپور اور اچ شریف سے ہوتے ہوئے ملتان آئے تھے۔خانپور میں میری درخواست پہ مرزا حبیب ،مجاہد جتوئی اور ان کے صاحبزادے سردار معظم جتوئی نے ان کی میزبانی کے فرائض سرانجام دئے اور وہ ان کے ساتھ اچ شریف بھی گئے۔صفدر کہتے ہیں کہ یہ ان کی زندگی کے بہت ہی شاندار لمحات تھے۔میں اب تک مرزا حبیب،مجاہد جتوئی اور سردار معظم جتوئی سے نہیں مل سکا ہوں۔اور اب تو اپنی کم نصیبی پہ اور ملال ہورہا ہے۔
ملتان میں کامریڈ آصف سیال نے ہمیں پیشکش کی کہ ان کو میزبانی کا شرف دیا جائے۔اور صفدر،راشد علی رحمانی اور میں اس کے ہاں ٹھہرے۔اور اس دوران ہم نے جمعہ کی صبح سے شام تک جتنا ملتان اور اس کے گردو نواح دیکھے جاسکتے تھے دیکھے۔اس دوران میں شمیم عارف قریشی،رفعت عباس ، شاکر حسین شاکر سے رابطے کی کوشش کرتا رہا۔ان سے بوجہ رابطہ نہ ہوسکا-شکیل کو بلاول بھٹو کا جلسہ کور کرنا تھا تو وہ بھی ہمارے ساتھ شریک نہ ہوسکا۔قاضی عابد بھی میسر نہ آسکے جبکہ ڈاکٹر فاروق زین جو آج کل زیرعتاب ہیں ان کی سسٹر کی طبعیت خراب تھی جس کے سبب وہ بھی شریک محفل نہ ہوسکے۔لیکن اس دوران آصف سیال اور ان کے دوست رانجھا نے ملتان بارے صفدر کی پیاس بجھانے کا کافی حد تک سامان کردیا۔
ہم جمعے کے روز جب شاہ شمس سبزواری کے مزار پہ پہنچے تو وہاں ایک سرائیکی ذاکر مصائب پڑھ رہا تھا۔اس دوران صفدر نے مصائب کے دوران ذاکر کی فسانہ طرازی اور اس کی جانب سے منظر نگاری کی ڈرامائی مہارتوں پہ اتنی خوبصورت گفتگو کی کہ مجھے قلق ہوا کہ اس موقعہ پہ کوئی ڈکٹا مائیکرو فون ہوتا تو یہ گفتگو ریکارڈ کرلی جاتی۔ہم موسی کاظم اور شاہ یوسف گردیز کے مزارات پہ گئے۔ان مزارات پہ جاکر صفدر نے کچھ جملے ایسے بولے جو ساکت کردینے والے تھے
“یہ صوفی /سادھو/بھگت/ملامتی تو انسانوں کو آزاد کرانے آئے تھے اور یہاں لوگوں کو ان کے مجاور اور سجادے غلامی کا ہی درس ہی دئے چلے جاتے ہیں۔یہ لوگوں کی روحوں کو آزاد نہیں ہونے دیتے۔”
“شاہ یوسف گردیز کی جو مسجد ہے اس کے اندر بہت ہی زبردست چھت پہ پرانے طرز کے شتہیر لگے ہیں اور یہ آرٹ کا نمونہ ہے۔یہاں کنکریٹ کا جنگل نظر نہیں آتا ہے۔در و دیوار سے اداسی،سوگ اور غم ٹپکتا ہے۔یہ کم از کم ہمیں کربلاء اور اہل بیت کے ساتھ ہونے والی ٹریجڈی کا احساس دلاتا ہے۔کچھ ایسا ہی احساس موسی کاظم کے مزار، اس سے ملحق مسجد کو دیکھ کر ہوا۔”
“دہلی گیٹ،پاک گیٹ ،حرم گیٹ اور بوہڑ گیٹ کے اندر تنگ و تاریک گلیوں میں قتل ہوجانے والے،لٹ جانے والوں اور جلاکر راکھ کردئے جانے والوں کی روحیں اب بھی بھٹک رہی ہیں۔یہ ہمیں واپس موہن جوداڑو،ہڑپہ اور اس سے بھی پہلے سے مدرسری سماجوں میں لیکر چلی جاتی ہیں جب عدم تشدد کی روح اس سماج میں ہر طرف مجسم تھی۔”
” حلقہ ارباب ذوق کراچی میں فہیم شناس کاظمی کہہ رہے تھے کہ “کوفہ” کتاب کمال کی ہے۔عامر نے کئی کلیشے توڑ ڈالے۔میں اپنے ناول کو اسی کی توسیع خیال کرتا ہوں۔”
صفدر نے مجھے ہڑپہ میں تہذیب کے کھنڈرات میں سے ایک ویران سے مقام پہ کہا کہ وہ میری زبانی حجاج بن یوسف اور اس کے زمانے کا احوال سننا چاہتے ہیں۔انھوں نے کہا :
“عطیہ اوفی کی کہانی نے ان کو بے حد متاثر کیا ہے۔حجاج کی اہل بیت سے دشمنی کا بہت سارے لوگوں کو پتا تھا لیکن محمد بن قاسم کے فارس صوبے کی گورنری کے دوران اس دشمنی کا قصّہ پہلی بار اردو میں آپ کے توسط سے عام لوگوں کے سامنے آیا ہے۔اور میری بہن اس پہ کافی حیران تھی۔کہتی تھی اس کتاب نے کوفہ بارے ان کا پورا مائنڈ سیٹ ہی بدل ڈالا ہے۔”
” تاریخ کی خالی جگہیں فکشن ہی سے بھری جاتی ہیں اور میں بھی ناول لکھ کر خالی جگہیں پر کررہا ہوں۔”
اس سے پہلے حسن عباس نے مجھے یہ بتاکر خوشگوار حیرت کا شکار کیا تھا کہ حسین محمد جعفری ان کے ماموں ہیں اور کوفہ پہ میری لکھی کتاب ان کے زیر مطالعہ ہے اور اس پہ وہ مجھے داد دے رہے تھے اور اب زیدیوں کے صاحبان علم کا یہ گھرانہ اس کی تعریف کررہا تھا تو میں خوشی سے واقعی نہال تھا۔مجھے لگا کہ واقعی میری محنت کا صلہ مجھے مل گیا ہے۔
صفدر کو میں ڈاکٹر سعید بھٹہ کے شاگرد پنجابی زبان و ادب کے سکالر سلیم رضا سپرا سے بھی ملوایا اور رات انہوں نے سپرا صاحب کے ہاں بسر کی۔میری طبعیت خراب ہوگئی تھی جس کے سبب اس رات کی محفل میں،میں شریک نہ ہوسکا۔لیکن ہڑپہ کے سفر کے دوران انھوں نے بار بار اس رات کے یادگار ہونے کا ذکر کیا۔
ہڑپہ میں ہمارے شہر کے مایہ ناز شاعر جو اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں کمال کی شاعری کرتے ہیں ندیم ناجد بھی شریک ہوگئے۔ایک طرح سے ہڑپہ میوزیم اور اس کے آثار کی سیر کے انتظامات انھوں نے ہی کئے تھے۔انھوں نے چرکین کو کہیں پیچھے چھوڑ جانے والے “ابتذال” کی حدوں کو چھو جانے والی شاعری بھی سنائی،جو کبھی آن دی ریکارڈ نہیں آئے گی مگر اس وقت محفل کو کشت زعفران بنانے میں اس شاعری نے کمال کردیا۔
میں نے صفدر کو اپنے شہر کے ایک کلاسیکل کردار “راؤ اکبر عرف اللہ میاں” کا قصّہ بھی سنایا۔ اور ایک عدالت میں دو ہریانہ کے باشندوں کی پیشی کا احوال ” اجی حجور میری بھی سنیو” سنایا۔
ساقی سب نے دے ریا تھا محفل میں جام بھر بھر کے
مینے کہہ ریا تھا تیں بھار جاکے پی
مظفر نگر جمنا کے دوسری طرف یوپی میں ہے اور جمنا کے ایس طرف آج کل ضلع کوروکیشتر ہے جو کبھی ضلع روہتک اور تحصیل سونی پت کا حصّہ ہوتا ہے،ہے۔زیدی صاحبان اسی مظفرنگر کے ہیں جہاں سے انور احسن صدیقی یکے از بانیان ڈی ایس ایف تھے اور یہ کھڑی بولی والوں کا شہر ہے۔ہم نے کوروکیشتر،مظفرنگر اور اعظم گڑھ کی بہت ساری باتیں دوھرائیں۔اور انڈس ویلی کی گنگا و جمن وادی کے درمیان اور ایسے ہی دریائے سرسوتی جو آج کے ہریانہ کے صحرائی علاقوں سے ہوتا ہوا سرائیکی دھرتی تک آتا تھا اور یہاں آکر ہاکڑا ہوجاتا ہے کے درمیان مشترکات پہ بات کی۔اور ہمیں اس میں شک بھی کوئی نہیں تھا کہ اردو کے نام جیسے ان مشترکہ تہذیبوں اور ثقافتوں کے باہمی اشراک سے جنم لینے والی ہندوی یا ہندوستانی کو معرب و مفرس کیا گیا اس نے ‘صلح کلیت ‘ اور شناختوں کے تنوع کے ساتھ جینے کا تصور ہی غارت کردیا۔اور آج کے پاکستان کے حکمران طبقات کے پاکستانی نیشنلزم اور اس کے یک رخی بیانیہ نے سب کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔
صفدر نوید زیدی کے ساتھ گزرے یہ لمحات بہت یادگار تھے۔ان کو لاہور کی جانب رخصت کرتے وقت میں نے ان کو بتایا کہ سرائیکی لوگ جب کسی دوست سے رخصت ہورہے ہوتے ہیں تو ان کے ہاں یہ کہا جاتا ہے:
” اساں مکلیندے نئيں اسان کٹھے آں”
یعنی یہ وقتی جدائی وقتی ہی ہے اور یہ مکلاوہ نہیں ہے ہم اکٹھے ہیں”