کیا واقعی سازش ہورہی ہے؟ – محمد عامر حسینی
ماڈل ٹاؤن سانحہ کی رپورٹ پبلک ہونے کے بعد سے پاکستانی سیاست میں ایک نیا بھونچال آگیا ہے۔اور پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں میں سے اکثر نے 365 ایم ماڈل ٹاؤن مرکز منہاج القرآن کی یاترائیں کی ہیں۔ سب سے زیادہ زیر بحث پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چئیرپرسن سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاقات ہے۔جبکہ اس ملاقات کے دور روز بعد پاکستان تحریک انصاف کا ایک اعلی سطحی وفد بھی ڈاکٹر طاہر القادری سے ملا ہے۔
پاکستان کے مین سٹریم میڈیا میں انگریزی اور اردو پرنٹ پریس ہو یا الیکٹرانک میڈیا، اس میں کوئی دو رائے اب نہیں ہیں کہ اس کا ایک بڑا سیکشن’ پوسٹ ماڈل ٹاؤن رپورٹ پبلک دور’ کو اپنی پرانی سازشی تھیوری کے مطابق ہی بیان کرنے کا خواہش مند نظر آتا ہے۔اور اس کام میں پاکستان کے مین سٹریم میڈیا کے اندر لبرل و لبرل لیفٹ ڈیموکریٹس کا ایک بڑا سیکشن پیش پیش ہے۔جسے ہم شریف برادران کا حامی کیمپ کہہ سکتے ہیں۔
اس نواز شریف حامی سیکشن کے خیال میں پاکستان کی غیرمنتخب ہئیت مقتدرہ نے شریف برادران کو مائنس کرنے کے سکرپٹ کا دوسرا حصّہ بھی لاگو کرنا شروع کردیا ہے۔اور وہ اس سکرپٹ کا سب سے بڑا ہدف تین مقاصد کو بتلارہے ہیں:
اول : مسلم لیگ نواز کی حکومت کا مارچ سے پہلے خاتمہ تاکہ سینٹ کے الیکشن کی نوبت نہ آئے
دوم : آئیندہ انتحابات میں تاخیر، اس کے لئے سینٹ میں حلقہ بندیوں کی ترمیم کے بل کو منظور ہونے سے روکنا
سوم: شہباز شریف کا استعفا
تیسرے مقصد بارے انگریزی روزنامہ ڈان میں سیرل المیڈا نے ‘ شہباز شریف خطرے ميں’ کے عنوان سے ایک آرٹیکل لکھا ہے۔ اور اس آرٹیکل میں انہوں نےایک مرتبہ پھر ‘ بوائز’ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے،سانحہ ماڈل ٹاؤن پہ جسٹس باقر نجفی رپورٹ کے پبلک ہوجانے کے بعد شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ جس طرح سے چودہ افراد کے قتل میں ملوث نظر آتے ہیں اور اس آپریشن کے خونین انجام کی ذمہ داری جس طرح سے ان پہ عائد ہوتی نظر آتی ہے،اس تناظر میں ان دونوں حضرات کے استعفا کی مانگ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ کی جانب سے غیر منطقی اور بے وقت کی راگنی نظر نہیں آتی۔ لیکن سیرل المیڈا کو یہ تناظر اپنے پہلے سے قائم کردہ کردہ سازشی مفروضے کے مطابق نہیں لگتا تو انھوں نے شہباز شریف کے خلاف اسے فوجی اسٹبلشمنٹ کی سازش قرار دے ڈالا ہے۔
یہاں پہ دی نیوز انٹرنیشنل میں سنئیر صحافی مظہر عباس کا شایع ہونے والا تجزیہ’ کیا یہ سکرپٹ ٹو ہے؟ کافی حیران کن ہے۔اس تجزیہ میں انھوں نے اول و آخر بہت سے مفروضات کو بنا کسی دلیل اور ثبوت کے آگے بڑھایا ہے۔ جبکہ یہ ان کے اپنے جیو نیوز کے پروگرام ‘رپورٹ کارڈ’ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن رپورٹ کے پبلک ہونے والی بحث کے دوران دئے گئے تجزیہ کے برعکس ہے۔اس پروگرام میں انھوں نے شہباز شریف پہ ماڈل ٹاؤن آپریشن میں 14 افراد کے قتل ہوجانے اور 50 سے زیادہ افراد کے زخمی ہوجانے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور رانا ثناء اللہ کو بھی اس کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔اور اس ذمہ دار ٹھہرانے کے بعد بھی اگر وہ شہباز شریف کے استعفے کی مانگ کو سکرپٹ ٹو کا حصّہ قرار دیتے ہیں و یہ تضاد بیانی کے سوا کچھ نہیں ہے اور ان کی اپنی ساکھ کو بھی اس سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔کیونکہ ابتک انھوں نے خود کو نواز شریف کے معاملے میں کمرشل لبرل مافیا کی لائن میں جاکر کھڑے ہونے سے بچائے رکھا ہے۔
ماڈل ٹاؤن رپورٹ منظرعام پہ آنے کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے سارا فوکس شہباز شریف اور رانا ثناءاللہ پہ ہے۔ڈاکٹر طاہر القادری نے اس کے بعد ابتک جو پریس کانفرنسز کیں،ان میں ان کے ‘ کنٹینر تیار رکھنے’ کے بیان کو پاکستان میں موجودہ سیاسی صورت حال کو اسٹبلشمنٹ کے لکھے سکرپٹ کا نتیجہ بتلانے والے کیمپ نے ‘ ٹیپ کا فقرہ’ بنالیا ہے۔ اور وہ سارے مطالب اسی کی روشنی میں نکالنا چاہتے ہیں۔
کیا ڈاکٹر طاہر القادری واقعی اندھادھند اسلام آباد کی جانب روانہ ہونے یا لاہور کے اندر پنجاب اسمبلی کے سامنے یا چیف منسٹر سیکرٹریٹ کے سامنے دھرنا دینے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں؟کیا انہوں نے اسی کو اپنے مطالبات منوانے کا واحد راستا مان لیا ہے؟
خود ڈاکٹر طاہر القادری کے ابتک آنے والے بیانات اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔ڈاکٹر طاہر القادری کے کیا عزائم ہیں؟ اس بارے دی نیوز انٹرنیشنل میں ہی انصار عباسی کی ایک انوسٹی گیشن رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ پاکستان عوامی تحریک کے اہم اور باخبر دو رہنماؤں سے ان کی جو بات چیت ہوئی ہے، اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری انتہائی سوچ سمجھ کر کوئی بھی اقدام اٹھانا چاہتے ہیں۔پاکستان عوامی تحریک کے قائد کے حوالے سے ان رہنماؤں نے اسلام دھرنا آپشن کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے 126 دن کے دھرنے کے دوران جو تجربات طاہر القادری کو ہوئے ان کے بعد سے وہ کافی محتاط ہیں۔وہ کوئی بھی اقدام ایسا نہیں اٹھائیں گے،جس میں ان کے اقدامات سے پی ٹی آئی اور پی پی پی تو سیاسی فائدے حاصل کریں اور اصل معاملہ 14 مقتول افراد کے ورثاء کو انصاف نہ ملے۔ یہ انصاف ہی ان کی اول و آخر ترجیح ہے۔
پاکستان میں نواز شریف کا حامی لبرل پریس سیکشن اور اس کے لئے سوشل میڈیا پہ سرگرم کیمپ ایک طرف تو پاکستان پیپلزپارٹی کی پنجاب کی پارلیمانی سیاست سے مکمل صفائی کے کلیشے کو بیان کرتا ہے تو دوسری جانب وہ پاکستان عوامی تحریک سے ان کے حالیہ اشتراک کو اپنی بقا کی جنگ سے تعبر کرتا ہے۔اسے وہ بے اصولی اور نجانے کیا کچھ گردانتا ہے۔لیکن وہ ایسی باتیں کرکے پی پی پی سے چاہتا کیا ہے؟
اگر ہم مختصر جملوں میں اسے بیان کریں تو وہ چاہتا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی مسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کو ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھا رہنے دے۔ اس کی تابع محض ہوکر اپنے سیاسی فیصلے کرے۔اور سب سے بڑھ کر نواز شریف کی جنگ کو ‘جمہوریت کی بالادستی’ کی جنگ قرار دیکر اپنے کارکنوں کے سینے آگے کردے۔
اس لبرل سیکشن کا ایک بڑا حصّہ پاکستان کے اندر مسلم لیگ نواز کے اندر سنٹر رائٹ رجحانات کے ساتھ ساتھ اس جماعت کے اندر فار رائٹ/تکفیری،جہادی،عسکریت پسندانہ رجحانات اور اس اندرونی رجحانات کے خارجی سنٹر رائٹ اور فار رائٹ رجحانات/ تکفیری و جہادی رجحانات کے ساتھ اتحاد پہ مکمل پردہ ڈالتا ہے۔جبکہ یہ عمران خان کے سنٹر رائٹ اور فار رائٹ رجحانات کے ساتھ اشتراک کو بہت نمایاں کرکے دکھاتا ہے۔اس طرح کی بے اصولی اور بددیانتی کا مقصد اپنے جمہوریت بمقابلہ اسٹبلشمنٹ کے بیانیہ کی زبردستی تائید لیکر آنا ہے۔
پاکستان کی سیاست کا اس وقت سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت نے سیکورٹی و انٹیلی جنس اداروں کے اندر لاقانونیت کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے آگے انسانی حقوق کے کارکنوں،اختلاف کرنے والے سیاسی کارکنوں، ادیبوں ، دانشوروں اور عام آدمیوں کو ڈال دیا ہے۔اور وہ آج تک کوئی ایسا قانون لانے میں کامیاب نہیں ہوئی جو صحافتی، اظہار رائے کی آزادی پہ ہونے والے حملوں کے آگے دیوار قائم کرسکتی۔اس نے سائبر کرائم ایکٹ کے نام پہ، انسداد دہشت گردی ایکٹ کے زریعے سے غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کے سامنے اپنے آپ کو ڈھیر کیا ہے۔
مسلم لیگ کے سربراہ نواز شریف ہوں، چیف منسٹر پنجاب شہباز شریف ہوں، صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ ہوں یا کوئی اور نمایاں لیڈر ہو، سب اپنے سینوں کو رازوں سے بھرا بتاتے ہیں لیکن ایک بھی راز کی بات عوام کو بتانے پہ راضی نہیں ہیں؟ جس سے یہ شبہ یقین میں بدلتا ہے کہ یہ اپنی ہمالیہ جیسی غلطیوں اور اپنے بلنڈرز کا الزام دوسروں پہ ڈالنا چاہتے ہیں اور اس الزام دوسروں پہ ڈالنے کے پروجیکٹ کو کرائے پہ دستیاب بہت سے صحافی، تجزیہ کار، اینکرز، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ بہت ذوق و شوق سے پورا کررہے ہیں۔