پاکستان کا لبرل کمرشل مافیا آج کل شعلے چبائے کیوں بیٹھا ہے؟ – پیجا مستری
ایمان مزاری ان خدادا صلاحیتوں کے مالک چند افراد میں سے ایک ہیں جن کو میں سوشل میڈیا پہ گزشتہ چند سالوں سے فالو کررہا ہوں۔نواز شریف کے لانگ مارچ میں جب چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے نواز شریف کو کال کرکے افتحار چودھری کی بطور چیف جسٹس بحالی کا یقین دلایا تھا تو ایمان مزاری گل بخاری، ماروی سرمد(جسے ابھی جیو نیوز نے نوکری نہیں دی تھی) جیسے کرئیرسٹ لبرل میں شامل تھی جو سوشل میڈیا پہ بہت فعال تھے اور اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور زرداری کو پاکستان کو مارشل لاء کے دھانے پہ لاکھڑا کرنے کا الزام دیکر ان کی مذمت کررہے تھےتو انہوں نے کیانی کا شکریہ ادا کیا تھا کہ اس نے پاکستان کو انارکی کے گڑھے میں گرنے سے بچالیا۔جیسے ان دنوں ہی میں سیرل المیڈا نے ایک مضمون ڈان میں ‘زرداری کا ذہن’ میں لکھ کر ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔
https://www.dawn.com/news/659174
سیرل المیڈا کا مضمون
https://pakistanblogzine.wordpress.com/…/cyril-almeidas-in…/
سیرل المیڈا کے مضمون پہ ایک قابل پڑھت مضمون
http://www.qalamkar.pk/muhammad-aamir-hussaini-37/
پاکستانی لبرل کمرشل مافیا کی صحافت کا تنقیدی جائزہ۔عامر حسینی
http://www.qalamkar.pk/aamir-hussaini-3/
پاکستانی لبرل کی جعل سازیاں /عامر حسینی
ایمان مزاری کی وڈیو
گزشہ عشرے میں پاکستان کے اندر بہت سے دہشت گردانہ حملے ہوئے۔ان حملوں میں ہزاروں لوگ(ایک اندازے کے مطابق 70 ہزار کے قریب) مارے گئے۔ان بدترین دہشت گردی کے حملوں میں سے ایک حملہ آرمی پبلک اسکول پشاور پہ تھا،جو بظاہر پاکستان کی عسکری ہئیت مقتدرہ کے اندر موجود جنگجو انتہا پسند دھڑوں کی باہمی کشاکش کا نتیجہ بتایا گیا۔یہ واحد ایک ایسا حملہ تھا جس نے کمرشل لبرل مافیا کے اندر حقیقی غم اور دکھ پیدا کیا۔لیکن کمرشل لبرل مافیا نے جب کبھی اے پی ایس بارے بات کی تو اس نے اپنا غصّہ اور اشتعال اس انداز میں نہیں عساکر پاکستان کے جرنیلوں کے بارے میں ظاہر نہیں کیا تھا جتنا گزشہ تین دنوں میں ہر ایک کمرشل لبرل ایمان مزاری جیسی نوجوان شخصیتوں سے لیکر اس مافیا کی آہنی عورت عاصمہ جہانگیر نے دکھایآ۔
بظاہر یہ اچانک، خود بخود اٹھنے والا غصّہ اور پاگل پن لگتا ہے۔لیکن مجھے آپ کو یہاں یہ بتانا ہے،اس پاگل پن کے پیچھے ایک باقاعدہ طریقہ کار/میتھڈ ہے۔یہ جو انتہائی سطح کا غصّہ اور برافروختگی کمرشل لبرل مافیا ایک کورس کی شکل میں دکھارہا ہے یہ بہت ہی چالاکی سے تیار کی گئی ایک سٹریٹجی کا حصّہ ہے۔ان کمرشل لبرل مافیا کا ہر چھوٹے بڑے کے پھٹ پڑنے جیسی کیفیت میں جن خیالات کی بھرمار ہورہی ہے،ان میں ایک مشترک مرکزی خیال خادم رضوی اور ملّا فضل اللہ جیسے دہشت گردوں کا باہمی موازانہ ہے۔ہر ایک کمرشل لبرل نے پاکستان کے اندر گزشتہ چند ہفتوں میں خادم رضوی اور اس کے پیروکاروں کو ماضی اور حال کے تکفیری دیوبندی انتہا پسندوں کے برابر ٹھہرایا ہے۔وہ لال مسجد، مولوی عبدالعزیز،سوات کی تحریک نفاذ شریعت محمدی، نیک محمد وغیرہ کا حوالہ دیتے ہیں۔اور بیک وقت وہ اے پی ایس پہ حملوں، فوج کے نوجوانوں اور افسروں کے تکفیری دیوبندی انتہا پسندوں کے ہاتھ مارے جانے کا ایک ہی سانس میں ذکر کرڈالتے ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے یہ سارے جرائم خادم رضوی کے قبیلے نے کئے ہیں۔انتہائی احتیاط سے تراش خراش سے بنائی گئی یہ سٹریٹجی تکفیری مولوی کمرشل لبرل مافیا کے ساتھ اپنے تعلقات کے ساتھ روبہ عمل لارہے ہیں۔آپ دیکھ سکتے ہین کہ جج جیسے شوکت عزیز صدیقی سے لیکر ریٹائرڈ جرنیل تک جیو نیوز پہ ہائپر ایکٹو/بہت زیادہ فعال نظر آتے ہیں۔
میرا پختہ یقین ہےکہ پاکستان مشرق وسطی کے عرب ممالک جیسے مصر اور شام کی طرح کی قسمت کا شکار نہیں ہوگا۔میں جانتا ہوں کہ پاکستان میں رہنے والے لوگوں کا ڈی این اے تاریخ انسانی کی سب سے قدیم ترین تہذیب سے ارتقاء پذیر ہوا ہے، ایسا ڈی این اے جو آزادی و خودمختاری اور جمہوری اقدار کا بلیو پرنٹ رکھتا ہے۔
لیکن میرا ہمیشہ جھکاؤ شام میں ماضی قریب میں ہونے والے واقعات کا موازانہ پاکستان میں رونما ہونے والے حالیہ اور مستقبل میں پیش آنے والے واقعات سے کرنے کی طرف رہا ہے۔بہت چند لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان کے درمیانے طبقے کی بالائی پرت جس کا تعلق پاکستان کی شہری آبادی سے بنتا ہے کے اندر بہت سی چیزیں شامی درمیانے طبقے کی بالائی پرت سے ملتی ہیں۔
دوسرے عرب ممالک کے برعکس، شام کا درمیانہ شہری طبقہ مذہبی تناظر میں لبرل اور ماڈرن رہا ہے۔جیسے پاکستان کی اربن مڈل کلاس ہے جو اپنے لبرل اور ڈیموکریٹک امتیازی کردار کا کریڈٹ لیتا ہے۔ایسے ہی شام کے اندر درمیانے طبقے کی بالائی پرت اپنی لبرل اور جمہوری جدوجہد کو فخر سے دیکھتی ہے۔
میں نے مڈل ایسٹ میں رہتے ہوئے شام کی شہری مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے بہت لوگوں کے ساتھ ملکر کام کیا ہے اور میں ہمیشہ ان کے خیالات سنکر حیران ہوا کہ ان کے خیالات پاکستان کے شہری درمیانے طبقے سے بہت ملتے ہين۔
اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے،آئیں داعش کے شام کے علاقوں پھیل جانے سے پہلے کی شام کی تاریخ کا جائزہ لیں۔جب بہار عرب شام تک پہنچی تو شامی معاشرے کے درمیان بالائی مڈل کلاس آمر بشار الاسد کے خلاف کھڑی ہوگئی۔
شامی بالائی درمیانہ طبقہ دانشور، سفارت کاروں، ریٹائرجرنیل، بزنس مین اور پروفیسرز صاحبان شامل ہیں۔ان کے امریکہ اور یورپی دارالحکومتوں میں کافی مضبوط بنیادیں ہیں۔پاکستانی لبرل کی طرح شام کی لبرل سیکشن کی اکثریت بھی زیادہ تر ایسے لوگوں پہ مشتمل ہے جن کے آباء زیادہ تر صوفی سنّی تھے لیکن یہاں پہ سعودی فنڈنگ سے پھیلنے والی آئیڈیالوجی کے تحت وہابی ہوگئے اور یہ پہلے وہابی ہوئے اور پھر بعد ازاں یہ لبرل ہوگئے۔بہار عرب جب شام پہنچی جیسے ویکی لیکس نے بہت تفصیل سے شام کے اندر انقلابی ابھار میں امریکہ اور یورپ کی مداخلت اور سعودی عرب کی مداخلت بارے بہت تفصیل سے بتایا ہے تو ایسے شام کا جو لبرل سیکشن تھا اس کی ایک بڑی اکثریت بشار الاسد کے خلاف بہت زیادہ سرگرم ہوگئی۔اس سیکشن کے ایک بڑے حصے کی امریکہ اور یورپ کے اندر جو رسائی تھی اس نے اس سیکشن کی کوششوں سے بشار مخالف اپوزیشن کے گروپوں کے لئے مغرب میں اخلاقی اور سیاسی حمایت اکٹھی کی بلکہ اس نےان گروپوں کے لئے مالی اور فوجی امداد کے حصول کا راستا بھی آسان بنادیا۔
میں نے شام کے لبرل کمرشل مافیا سے تعلق رکھنے والے دو ایسے افراد کی کہانیاں پڑھیں جن کا موازانہ ہم عاصمہ جہانگیر ، شیری رحمان ،رضا ربانی وغیرہ سے کرسکتے ہیں۔لیکن جن شامی لبرل ڈیموکریٹس کی میں نے کتھا پڑھی ان کی جمہوری خدمات بہرحال عاصمہ جہانگیر اور رضا ربانی سے کہیں زیادہ ہیں۔یہاں بتانے کے قابل بات یہ ہے کہ ان دو شامی لبرل ڈیموکریٹس نے اسد کی حکومت گرانے کے لئے داعش کے انتہا پسندوں کے ساتھ کام کرنے سے گریز نہیں کیا۔ان شامی لبرل ڈیموکریٹس نے نہ صرف بشار الاسد کی حکومت گرانے کے مشترکہ مقصد کے لئے یہ اشتراک کیا بلکہ انہوں نے داعش کی طرز پہ لوگوں کے گلے بھی کاٹے۔داعش کے مضبوط حلقوں میں اسلحہ سپلائی کیا، غلام بناکر شہریوں کو بیجنے کی سرگرمیوں میں ملوث رہے۔اور ریپ جیسے مکروہ جرائم بھی کئے۔
اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب اگر ہم فرض کریں کہ ہم اگلے دس سال آگے کے زمانے میں آگئے ہیں۔اور پاکستان میں خدانخواستہ شام جیسے حالات پیدا ہوگئے تو پاکستان کا کمرشل لبرل مافیا کہاں کھڑا ہوگا؟مجھے حیرانگی نہیں ہوگی کہ اس مافیا کے کئی نامی گرامی لوگ ملّا فضل اللہ،ملّا عمر یا سراج الحق کے ساتھ کھڑے ہوجائیں یا محمد احمد لدھیانوی و اورنگ زیب فاروقی جیسوں کو پاکستان میں جمہوریت پسندی ماڈریٹ باغی قرار دے دیں۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ سروں کو قلم کرنے، ریپ کرنے اور غلام بنانے کی منڈی کے سٹیک ہولڈر بن جائیں۔
اس تناظر میں آپ کو حیرانی نہیں ہونی چاہئیے کہ پاکستانی کمرشل لبرل مافیا فوجی جرنیلوں کے خلاف ہی نہیں جنھوں نے دھرنا کے شرکاء میں رقم تقسیم کی اس قدر برافروختہ کیوں ہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ غصّہ اور اشتعال انگیز گفتگو وہ دھرنے کے شرکاء اور ان پولیس والوں کے خلاف کررہے ہیں جنھوں نے فائر کرنے سے انکار کردیا۔
پیجا مستری پاکستان میں متبادل میڈیا کی تعمیر کرنے والے اہم دانشوروں میں شمار ہوتے ہیں۔پاکستانی کمرشل لبرل مافیا پہ ان کی لکھی اسی سلسلے کی ایک اور تحریر اس لنک پہ ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
http://www.qalamkar.pk/peja-mistri/