سرزمین حجاز میں یزید عصر کا ظہور: سعودی شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان کیا چاہتا ہے؟ – پروفیسر محمد ایوب

یہ 60 ہجری /680 عیسوی کا واقعہ ہے، جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کو 50 سال ہی ہوئے تھے،33 سالہ اموی بادشاہ یزید نے حضرت امام حسین کی قیادت میں اس کی حکمرانی کے جواز کو چیلنچ کرنے والے 72 ساتھیوں کے خلاف قریب قریب 30 ہزار افواج کو تعینات کیا تھا۔اس فوج نے دریائے فرات کے کنارے، کربلاء میں موجودہ عراق کے اندر امام حسین اور ان کے ساتھیوں سب لوگ ہی شہید کردئے۔اس لڑائی کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خانوادے کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بناکر اموی سلطنت کے دارالخلافہ دمشق لیجایا گیا۔

تاریخ کے اس فیصلہ کن واقعہ نے مسلم تاریخ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے حامی سیاسی کیمپ کو اور ٹھوس اور واضح شکل دے ڈالی۔اور یہ کیمپ صرف آج کے شیعہ اسلام کے حامیوں کا ہی نہیں تھا بلکہ ایسے لوگوں کا بھی تھا جنھیں آج سنّی کہا جاتا ہے اور وہ اسلام کے اندر ملوکیت کو سرے سے جائز خیال نہیں کرتے۔جبکہ ان کے مد مقابل امویوں کا کیمپ تھا۔

آج اموی بادشاہ یزید کا سیاسی وارث سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ہے۔اور کیا اتفاق ہے کہ اس کی عمر بھی 33 سال ہے۔یہ بھی یزید کی طرح مڈل ایسٹ میں اہل بیت سے محبت کرنے والوں کو ختم کرنے کی لڑائی کی سرپرستی کررہا ہے، جیسے یزید نے کی تھی۔خطے میں اس وقت طاقت کے توازن کو مد نظر رکھتے ہوئے اس نے اپنا سب سے پہلا ہدف حزب اللہ کو بنایا ہے۔وہ کربلاء کی تاریخ دوھرانا چاہتا ہے، کیونکہ سعودی عرب کی بدمست ہاتھی کی طاقت کے مقابلے میں حزب اللہ چیونٹی کی طاقت رکھتی ہے۔

محمد بن سلام نے سعد حریری کے ساتھ جو کیا وہ اسی کا شاخسانہ ہے۔حریری کا سب سے بڑا حرم محمد بن سلمان کی نظر میں حزب اللہ کو قومی حکومت میں شامل کرنا تھا۔حریری نے یہ کام لبنان میں فرقہ وارانہ کشاکش کو کم کرنے کے لئے کیا تھا جو ایک بار پھر بڑھ رہی تھی کیونکہ سعودی عرب، امریکہ اور اس کے اتحادی ہمسایہ ملک شام میں خانہ جنگی کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگ چکے تھے اور سلفی-دیوبندی تکفیری فاشسٹوں کے اجتماعی حملے کے سبب حزب اللہ کو شام کی حکومت کے ساتھ ملکر اس جنگ میں شامل ہونا پڑا تھا۔سعودی عرب لبنان میں حزب اللہ کو نشانہ بنانا چاہتا ہے اور اس کے لئے وہ سعد حریری سے جو توقع کرتا تھا وہ پوری نہیں ہوئی۔

لیکن حزب اللہ تو ایک قربانی کا بکرا ہے۔اصل ہدف اور دشمن تو سعودی حکومت کا ایران ہے۔جس کے ساتھ اس کے سینگھ پھنسے ہوئے ہیں۔یہ خلیج فارس پہ غلبہ کی لڑائی ہے۔محمد بن سلمان کا حقیقی مقصد ایران کے اثر کو اسقدر کم کرنا ہے کہ یہ خلیج فارس میں سعودی تسلط اور تغلب کو مان لے۔جیسے یزید کی اتھارٹی کو امام حسین کی جانب سے چیلنج کئے جانے کو اس کی مذہبی و سیاسی جواز کو ساتویں صدی عیسوی میں چیلنج کرنے کا عمل سمجھا گیا تھا، آج کا وہابی آل سعود ایران کے مڈل ایسٹ میں اثر ورسوخ میں اضافے اور علاقائی و عالمی سطح پہ اس کے ابھار کو اپننے مذہبی جواز کے خلاف چیلنج تصور کرتا ہے۔کیونکہ ایران خود بھی ریاست کا ایک اسلامی ماڈل رکھتا ہے، وہ خلیج فارس میں سعودی عرب کو چیلنج کرتا ہے اور امت مسلمہ کی قیادت کے سعودی دعوے کی نفی کرتا ہے۔جیسے ساتویں صدی میں ہوا تھا بالکل ویسے ہی سیاسی اقتدار سے جڑے مسائل اور مذہبی جواز دونوں سیعودی-ایران کشاکش اور جھگڑے میں باہم مل گئے ہیں۔

تاہم ساتویں صدی اور آج کی صدی میں حالات کا بڑا فرق ہے۔ایران ایٹمی ہتھیاروں کو بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس نے مڈل ایسٹ میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے مڈل ایسٹ میں اپنے مطلب کی حکومتیں قائم کرنے کے منصوبے کو کافی زک لگائی ہے۔شام میں سعودی عرب کے عزائم ناکام ہوئے۔یمن کی سول وار بھیانک خواب بن گیا ہے،لبنان کا منصوبہ کامیاب ہوتا نظر نہیں آیا۔قطر کو غلام بنانے کا منصوبہ ناکام ہوا۔جبکہ ایران نے اس دوران ترکی اور قطر سے اپنے تعلقات کافی بہتر بنائے ہیں۔

سعودی عرب اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود مڈل ایسٹ پہ اپنا غلبہ برقرار رکھنے اور امت مسلمہ کا بلاشرکت غیرے قائد بننے میں بری طرح سے ناکام ہوگیا ہے۔اور اس خطے میں اسے طویل المدت کے لئے وفادار رہنے والے اتحادی نہیں مل پائے ہیں جو نظریاتی طور پہ اس سے جڑ جائیں یا اس کی سافٹ پاور کے زریعے سے اس کے ساتھ جڑنے پہ مجبور ہوں۔

سعودی عرب نے وہابی آئیڈیالوجی کی ایکسپورٹ کی عالمی سطح پہ جو کوشش کی تھی وہ بیک فائر کرگئی ہے۔اس نے سعودی بادشاہت کو مزید خطرے میں ڈال دیا ہے۔وہابی آئیڈیالوجی کے اندر سے ہی ایک اور مذہبی-سیاسی آئیڈیالوجی کا ظہور ہوا ہے جسے تکفیری وہابیت کہا جاسکتا ہے جس نے القاعدہ،داعش وغیرہ کی بنیاد رکھی ہے۔اور یہ ریاض کی جانی دشمن بن گئی ہے،اس تکفیری آئیڈیالوجی کے ماننے والے آل سعود کو بہت بڑے منافق اور فاسق نام نہاد مسلمان حاکم خیال کرتے ہیں۔سعودی عرب بڑی تعداد میں پیسہ خرچ کرکے عارضی طور پہ تو حمایت خریدنے کے قابل ہوسکتا ہے لیکن اس کی سافٹ پاور اگر مکمل طور غائب نہیں ہوئی تو بہت کمزور ہوگئی ہے۔

سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ جو ایران کے خلاف ایک محاذ بنانے کی کوشش کررہا ہے،یہ بیک فائر کرے گا۔یہ اس کے عربوں کا قائد ہونے کے دعوے کو مزید تباہ کردے گا۔اس کے پہلے آثار تو حال ہی میں سعودی عرب کی قیادت میں 42 ممالک کے فوجی اتحاد کے وزرائے دفاع کے اجلاس کے موقعہ پہ 2003ء میں اسرائیل کے غزہ اور مغربی کنارے پہ قبضے کے خلاف فلسطینی انتفاضہ کو دہشت گردی کے طور پہ دکھانے پہ آنے والے ردعمل سے شروع ہوگیا ہے۔اور اس بار نظر آتا ہے کہ عصر کے یزید اور عصر کے حسنیوں میں جو معرکہ ہوگا اس میں ظاہری نتائج ساتویں صدی عیسوی سے مختلف نکلیں گے۔

محمد ایوب مشی گن سٹیٹ یونیورسٹی امریکہ میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ایمریٹس اور سنٹر فار گلوبل پالیسی کے سنئیر فیلو ہیں۔ترجمہ و تلخیص مستجاب حیدر نقوی نے کی ہے۔یہ مضمون مندرجہ ذیل لنک پہ پڑھا جاسکتا ہے

https://www.yahoo.com/…/saudi-arabia-apos-great-gamble-0206…

Comments

comments