مذہبی منافرت کی تازہ لہر کس کا برین چائلڈ ہے؟ – محمد عامر حسینی
پاکستان کے ایک حساس ادارے کے افسر کی مبینہ گفتگو کی ٹیپ وٹس ایپ پہ بنے ایک گروپ میں لیک کی گئی ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ٹیپ سوشل میڈیا پہ وائرل ہوگئی۔اس لیک ٹیپ میں حساس ادارے کا افسر کسی کو ثاقب کہہ کر مخاطب کرتا ہے اور اس کے بعد یہ انکشاف کرتا ہے کہ دھرنے سے پہلے پنجاب ہاؤس میں میاں نواز شریف کی موجودگی میں مسلم لیگ نواز کے انتہائی مخصوص لوگوں کو نواز شریف کے داماد،ممبر قومی اسمبلی کیپٹن(ر) محمد صفدر نے بتایا کہ تحریک لبیک اور سنّی تحریک والوں کا دھرنا منصوبے کے مطابق شروع ہوگا۔ان کے تمام اخراجات کی ادائیگی کا وعدہ کیا گیا ہے۔اور پھر یہی مبینہ حساس ادارے کا افسر بتاتا ہے کہ ایک اور اجلاس میں دھرنے والوں کی جانب سے 50 کروڑ کے اخراجات کا بل بنانے پہ اظہار ناراضگی کیا گیا۔اور پانچ کروڑ ادا کرنے کی پیشکش کی گئی۔حساس ادارے کا یہ مبینہ افسر اس ٹیپ میں کہتا نظر آتا ہے کہ حکومت نے جان بوجھ کر دھرنے کو طویل کیا ہے،مقصد فوج کو استعمال کرنا، ان سے دھرنے والوں کے خلاف کاروائی کروانا اور حالات خراب کرنا تھا۔
اس مبینہ لیک ٹیپ کے بعد جب حکومت نے فوج کو بلوانے کے لئے سمری بھجوائی اور اس پہ آرمی چیف نے حکومت کو مذاکرات سے مسائل حل کرنے کا مشورہ دیا۔جبکہ کئی ایک ٹی وی چینلز پہ پاکستان کی افواج کے سربراہ سے منسوب یہ بیان چلوایا گیا کہ ‘فوج اپنے لوگوں پہ گولی نہیں چلاسکتی’ تو اس کے بعد سے ابتک نواز شریف کا حامی سوشل و مین سٹریم میڈیا پہ حامی جہاں ‘دھرنے’ کو اسٹبلشمنٹ/فوج کی سازش بتلارہا ہے۔
پاکستان میں نواز شریف حکومت سے مراعات اور نوازشات لوٹنے والا لبرل صحافیوں اور سول سوسائٹی کا ایک اشراف سیکشن مسلم لیگ نواز کے بحرانوں میں گھر جانے کے خلاف ،اسٹبلشمنٹ کی سازش’ کے راگ الاپ رہا ہے۔
یہ کمرشل لبرل مافیا خادم رضوی کی تحریک کے دھرنے سے لیکر پنجاب سمیت ملک بھر میں آنے والی مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کی لہر کو ملٹری اسٹبلشمنٹ کی جانب سے جمہوریت کو گرانے کا ایک ہتھکنڈا بناکر پیش کررہا ہے۔اور ایسا کرتے ہوئے کمرشل لبرل مافیا کئی سامنے کی حقیقتوں کو سرے سے نظر انداز کردیتا ہے۔اور یہ کمرشل لبرل مافیا کئی ایک پیدا سوالوں کے جواب سرے سے گول کرجاتا ہے۔
کیا پنجاب سمیت پورے ملک میں اچانک سے اینٹی احمدی مذہبی منافرت کی لہر پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی پیدا کردہ ہے؟اور کیا اس لہر کے پس پردہ ملٹری اسٹبلشمنٹ موجودہ پارلیمنٹ اور پارلیمانی جمہوریت پہ حملہ آور ہورہی ہے؟
پاکستان میں ‘ختم نبوت ‘ کے ایشو پہ پیدا ہونے والی بے چینی اور بحران کی پیدائش کس نے کی ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے پاکستان کا لبرل کمرشل صحافتی و این جی او مافیا سازش ،سازش کا راگ الاپتا ہے۔
کیا اس لبرل کمرشل مافیا کے پاس اس بات کا جواب ہے کہ جب ‘ختم نبوت ‘ جیسا حساس ایشو پاکستان کی مین سٹریم سیاست میں کور ایشو تھا ہی نہیں تو اس وقت ملک میں کونسی جماعت کے سربراہ اور سینٹر نے موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باوجوہ کی چیف آف آرمی سٹاف کی نامزدگی سے پہلے ہی، ان کی مذہبی وابستگی احمدی کمیونٹی سے جوڑ تھی؟ اس کا سیدھا سادا جواب تو یہ ہے کہ یہ سینٹر پروفیسر ساجد میر سربراہ جمعیت اہلحدیث اور نواز شریف کے پکّے اتحادی تھے،جنھوں نے یہ درفطنی چھوڑی تھی۔
کیا سازش سازش کرنے والے لبرل کمرشل مافیا کے پاس اس بات کا جواب ہے کہ پنجاب کے اندر ‘ممتاز قادری’ کی پھانسی کے گرد ابھرنے والی ڈاکٹر اشرف جلالی ، خادم رضوی، عرفان مشہدی کی سیاست کو کس نے آرام سے ترقی کرنے دیا؟
اس وقت جن بریلوی سنّی مولویوں کو اسٹبلشمنٹ کے سپاہی اور ہرکارے بتایا جارہا ہے، کیا یہی مولوی پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت اور پھر ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف استعمال نہیں کئے گئے تھے۔انہی مولویوں کو ڈاکٹر طاہر القادری کے صوفی سنّی بریلوی ہونے کے دعوے کو ڈس کریڈٹ کرنے کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔دھرنے کے دوران پی ٹی وی اور جیو نیوز پہ یہ مولوی بھی نمودار ہوئے تھے۔
جس وقت ڈاکٹر طاہر القادری نے سلمان تاثیر کو گستاخ ماننے سے انکار کیا تو اس وقت یہی مولوی خادم رضوی، ڈاکٹر اشرف جلالی، پیر افضل قادری، عرفان مشہدی و دیگر تھے جن سے طاہر القادری کو گالیاں دلوائي گئی تھیں۔اس زمانے میں زعیم قادری سمیت پنجاب حکومت کے زعماء کیسے خادم رضوی کے گھٹنوں کو چھوتے تھے،وہ تصویریں آج سوشل میڈیا پہ گردش کررہی ہیں۔
کیا قومی اسمبلی کے اجلاس میں اچانک سے کیپٹن (ر) محمد صفدر نے اینٹی قادیانی جو خیالات ظاہر کئے تھے،وہ وقتی جوش اور اچانک کسی ابال کا نتیجہ تھے؟ یا پھر یہ ایک باقاعدہ سوچا سمجھا منصوبہ تھا؟
پھر انتخابی حلف نامے میں ترمیم خود مسلم لیگ نواز کی حکومت نے پیش کی اور اس کا ڈرافٹ بھی مسلم لیگ نواز کی اپنی ہی ٹیم نے تیار کیا۔اور اس طرح سے اپنے ہاتھوں سے خود ہی ایک بحران انجینئرڈ کیا گیا اور خود کو مظلوم بنانے کا سامان کیا گیا۔
تحریک لبیک اور پاکستان سنّی تحریک کے دھرنے کے پروگرام کو لاہور ہی میں روکنے کا انتظام پنجاب حکومت نے نہیں کیا۔اور اس دھرنے کو فیض آباد ممکن بھی پنجاب اور وفاق کی وزات ہائے داخلہ نے بنایا۔جنھوں نے اسے روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔اور اس کے بعد دھرنے کے لوگوں سے مذاکرت میں بھی دیر کی گئی۔
حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کی جانب سے دھرنے کو غیر قانونی قرار دینے اور اس حوالے سے دھرنے کے خلاف کاروائی کو عدلیہ اور فوج کے ذمے ڈالنے کی جس طرح سے کوشش کی ،اس سے ایک بار پھر یہ خدشہ سامنے آیا پنجاب کے اندر خاص طور پہ ایک ‘ اینٹی قادیانی پرتشدد تحریک’ کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔
پاکستانی کمرشل لبرل مافیا کا جو ملٹری اسٹبلشمنٹ کی سازش کرنے کا مفروضہ ہے جسے وہ ‘نواز شریف بمقابلہ اسٹبلشمنٹ’ بناکر پیش کرتا ہے،اس سوال کا جواب ٹھیک سے نہیں دے پاتا کہ اگر نواز شریف کے پاس واقعی کوئی لبرل ایجنڈا ہے تو وہ جمعیت علمائے اسلام-ف،اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان کے ساتھ اتحاد میں کیوں ہے؟ اور آسیہ بی بی کیس میں سلمان تاثیر کے خلاف مسلم لیگ نواز ہی نے ان مولویوں کو سلمان تاثیر کے لئے ہانکے کے طور پہ استعمال کیا تھا۔اور اب یہ مولوی ایک دم سے کیسے اسٹبلشمنٹ کے گھوڑے بن گئے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ نواز شریف اینڈ کمپنی نے جس ‘ اینٹی احمدی لہر ‘ کو پنجاب کے اندر اپنے آپ کو بچانے اور اس میں ملٹری اسٹبلشمنٹ کو پھنسانے کے لئے ابھارا تھا، اس لہر کے پیچھے جو کھلاڑی ہیں، ان کو ڈبل ایجنٹ بناکر خود مسلم لیگ نواز کو اس کا ہدف بنادیا ہے؟
مسلم لیگ نواز نے 2008ء میں خود کو پیچھے رکھ کر ایک طرف تو دیوبندی ملائیت کے ایک سیکشن کو بشمول تکفیری دیوبندی فاشسٹ تنظیم اہلسنت والجماعت کو پی پی پی کی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے اپنے ساتھ ملایا۔اور ایک بریلوی سیکشن کو تکفیری ہتھکنڈوں کے ساتھ سلمان تاثیر ،شہباز بھٹی سمیت پی پی پی کی قیادت کے خلاف استعمال کیا۔اور اب پانامہ کیس سے شریف برادران کا سیاسی مستقبل جس تاریکی کا سامنا کررہا ہے،اس سے بچنے کے لئے مسلم لیگ نواز نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف منافرت کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔یہ کوشش خود اس کے اپنے گلے پڑگئی ہے۔
نواز شریف کو بے رحمی اور منافقت اپنے روحانی استاد ضیاع الحق سے ورثے میں ملی ہے۔ایک طرف تو اس نے پیسوں سے لبرل کمرشل مافیا خرید رکھا ہے جو اس ملک کی پسی ہوئی ، مجبور مذہبی اقلیتوں کو بلیک میل کرتا ہے اور ان کو مذہبی آسیبوں سے ڈراتا ہے اور نواز شریف کو ‘آخری امید’ بناکر پیش کرتا ہے تو دوسری طرف اس نے ایسے لوگ پال رکھے ہیں جو مذہبی جنونیوں کے جنون کو ہوا دیتے ہیں اور اس طرح سے مذہبی اقلیتوں کو کھلے میدان میں مارے جانے کا سامان کرتے ہیں اور ساتھ میں مذہبی جنون کے پیدل سپاہیوں کو چوکوں اور چوراہوں پہ گولیآں مروانا چاہتی ہے دوسرے معنوں میں ‘وہی ذبح کرے ،وہی لے ثواب الٹا’ والی سیاست نواز شریف کررہا ہے۔
ایک طرف پرویز رشید جیسے لوگ ہیں جو لبرل کمرشل مافیا کے زریعے نواز شریف کو لبرل ،اینٹی اسٹبلشمنٹ بناکر پیش کرتے ہیں، دوسری طرف ساجد میر، فضل الرحمان ، احمد لدھیانوی اور اس طرح کے اور ہیں جو اسے اسلام کا خادم بتلاتے ہیں
پاکستانی کمرشل لبرل مافیا مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف اور ان کے بھائی چیف منسٹر شہباز شریف کے ملائیت، مذہبی انتہا پسندوں سے رشتوں اور تعلق پہ پہلے بھی چپ کا روزہ توڑنے کو تیار نہیں تھا،اب بھی نہیں ہے۔