ڈیرہ اسماعیل خان میں کیا ہورہا ہے؟ – محمد عامر حسینی
شیعہ نوحہ خواں صابر حسین بلوچ پڑوا میں پولیس چیک پوسٹ سے فاصلے پہ فائرنگ سے قتل
ثمر عباس نامی شیعہ نوجوان فائرنگ سے ہلاک
تین شیعہ نوجوان پڑوا ڈیرہ اسماعیل خان میں فائرنگ سے ہلاک
عقیل نومی نوجوان شیعہ ڈیرہ اسماعیل خان میں فائرنگ سے ہلاک
گزشتہ بیس سالوں میں اگر آپ اگر ہسپتالوں،مقامی تھانوں کے ریکارڈ اور اخبارات کے آرکائیوز کو چیک کریں تو صرف ہلاک ہونے والے شیعہ جن میں ڈاکٹر،وکیل،تاجر،مزدرو،کسان،علماء، ذاکر، نوحہ خواں،شاعر، ادیب سبھی کے ناموں پہ مشتمل کئی سو صفحات کی کتاب تیار ہوجائے گی۔لیکن آپ ڈیرہ اسماعیل خان میں جاری شیعہ نسل کشی پہ آج تک کسی ایک این جی او، ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے کوئی مفصل رپورٹ نہیں پائیں گے۔اور یہاں تک کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں جاری نسل کشی کے نہ تو ثقافتی اور نہ ہی نسلی پس منظر پہ بھی آپ کو اس طرح مین سٹریم میڈیا، سوشل میڈیا اور انسانی حقوق کے سیکشن کی توجہ نہیں ملے گی جتنی کوئٹہ کی ہزارہ کمیونٹی کو دی گئی ہے۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے اور بنیادی وجہ بھی ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں شیعہ سرائیکی نسل کشی پہ کوئی تھوڑی سی فنڈنگ بھی مسیر نہیں ہے۔اور ڈیرہ اسماعیل خان پاکستان کی اربن چیٹرنگ کلاس کے لئے عملی طور پہ ایک اجنبی جزیرہ ہے،جس کی لینڈ اسکیپ سے واقفیت رکھنے والوں کی کمی ان میں پائی جاتی ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے زمین زادوں، مقامی آبادی کے ساتھ کیا ہوا ہے؟ اس مقامی آبادی کا سب سے بڑی قصور تو یہ تھا کہ ان کے عقائد،ان کی زبان، ان کی بودباش، اور دیگر عوامل سے ملکر بننے والی ثقافت سعودی وہابیت کے زیر اثر پیدا ہونے والی تکفیری ثقافت کے لئے ناقابل برداشت ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن ڈیرہ اسماعیل خان،ٹانک اور لکی مروت تین اضلاع پہ مشتمل ڈویزن ہے۔اور یہ ڈویژن کسی زمانے میں سرائیکی بولنے والی مقامی آبادی کی اکثریت کا ڈویژن ہوا کرتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اب بھی اس ڈویژن کا منہ مہاندرا سرائیکی ثقافت سے سجا ہوا ہے۔لیکن یہ ثقافت 80 دہائی سے بربادی اور تباہی کا شکار ہونا شروع ہوئی اور آج یہ اس ڈویژن میں یتیمی کا شکار ہوگئی ہے۔
سعودی فنڈنگ،مشرق وسطی میں جانے والے جنوبی وزیرستان ایجنسی کے پشتونوں کی طرف سے بھیجے جانے والے پیسے، جہاد افغانستان کے امریکی پروجیکٹ کے دوران آنے والے ڈالروں اور سعودی ریالوں سے تعمیر ہونے والے مدرسوں اور اس دوران ابھرنے والی جہادی و تکفیری تنظیموں کے بڑے انفراسٹرکچر نے مل کر ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن کی سرائیکی ثقافت پہ پوری شدت کے ساتھ حملہ کیا۔اور سرائیکی ثقافت پہ اس حملے کا خاص نشانہ یہاں کے سرائیکی بولنے والے والی اکثریتی صوفی سنّی، شیعہ آبادی ہے۔
اگر آپ میں سے کسی نے 70ء،80ء کی دہائی میں اور یہاں تک کہ 90ء کی دہائی کے اوائل میں ڈیرہ اسماعیل خان کا سفر کیا ہو تو اسے معلوم ہوگا کہ ڈیرہ اسماعیل خان ٹانک اور لکی مروت خالص سرائیکی شہر تھے۔اور یہاں پشتون بہت تھوڑی تعداد میں تھے اور پشتون جو یہاں پہ رہتے تھے ان کے ہاں بھی جو صوفی سنّی زیادہ تھے اور پھر یہاں کے جو سنّی دیوبندی تھے وہ بھی تکفیریت سے کوسوں دور تھے۔
لیکن آج ٹانک شہر اور اس کے گرد و نواح میں تو سرائیکی بالکل اقلیت میں چلے گئے ہیں اور جنڈولہ روڈ سے جو راستہ جنوبی وزیر ستان کی جانب جاتا ہے اس کے دونوں اطراف سرائیکی بلوچوں کی اکثریت ہوتی تھی جو آج وہاں نہ ہونے کے برابر ہیں اور ان سرائیکی بلوچوں کی غریب بستیاں پشتون دیوبندی ریڈیکل پرتوں کی بڑی بڑی قلعہ نما عمارتوں،گھروں اور مدرسوں سے گھر گئی ہیں،ٹانک شہر کے کاروبار سے لیکر تعلیمی سیکٹر تک پہ ان کا غلبہ ہے۔اور ٹانک شہر میں سرائیکی ثقافت اپنے گھر کے اندر اجنبی بن گئی ہے۔
جبکہ لکی مروت کے اندر بھی یہی صورت حال ہے۔لکی مروت اور ڈیرہ اسماعیل خان کے شہر اور گرونواح میں سرائیکیوں کی بڑی تعداد آباد ہےاور اس سرائیکی آبادی میں جو شیعہ آبادی ہے اس کی سلو جینوسائیڈ /آہستگی سے کی جانے والی نسل کشی کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔اور یہاں پہ تکفیری وجہادی دیوبندی ازم نے دیوبندی اعتدال پسندی کو مکمل طور پہ پسپا کرکے قبضہ جمالیا ہے۔اور عملی طور پہ تکفیر ازم اور جہاد ازم کے خلاف دیوبندی مکتبہ فکر کے ماننے والوں میں ڈیرہ اسماعیل خان کے اندر رہتے ہوئے مخالفت کرنا، اس کے آگے مزاحمت کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے اندر سنّی بریلوی بھی مسلسل کمتر بنائے جانے، مارجنلائزیشن، تبدیلی مسلک کا نشانہ ہیں۔اور ان کی بہت بڑی تعداد دو عشروں میں دیوبندی ہوئی ہے۔اور اس مکتبہ فکر کے غریب اور کمزور لوگوں کی اکثریت اپنی ثقافت پہ ہونے والے حملوں کے خلاف کوئی بڑی مزاحمت کرنے یا جم کر کھڑے رہنے سے قاصر نظر آتی ہے۔
اس ڈویژن کی شیعہ آبادی جس کی غالب و بھاری اکثریت شیعہ ہے۔اس نے بہت سخت جانی کا مظاہرہ کیا ہے۔دیوبندی تکفیری فاشزم نے اس ڈویژن میں شیعہ آبادی کے عزاداری کے جلوسوں، مجالس عزا کے خلاف نہ ختم ہونے والی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔اور اس کا ہدف شیعہ آبادی کو ان کی مذہبی آزادی کے حق کو استعمال کرنے سے ہر صورت روکنا ہے۔اس مقصد کے لئے تکفیر ازم نے نظریاتی طور پہ اس قدر نفرت انگیز تحریک چلائی ہوئی ہے کہ اس ڈویژن کے اندر دیوبندی نوجوان جن میں پشتون زیادہ ہیں جبکہ اس کے ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان میں بسے مشرقی پنجاب انڈیا سے ہجرت کرنے والے ہریانوی و اردو بولنے والے دیوبندی گھرانوں کے نوجوان بھی کافی زیادہ ہیں کو بہت زیادہ اینٹی شیعہ کیا ہوا ہے۔اور ساتھ ساتھ اس علاقے میں سرائیکی خطے سے آکر یہاں کے مدرسوں سے وابستہ ہونے والے دیوبندی نوجوان بھی اس میں کافی زیادہ ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے دیوبندی نوجوانوں میں اس وقت سب سے مقبول مذہبی رجحان کون سا ہے تو سب ایک زبان ہوکر سپاہ صحابہ پاکستان/اہلسنت والجماعت اور طالبان/داعش کے رجحانات کا نام لیں گے۔
جمعیت علمائے اسلام، جمعیت طلباء اسلام کے پرانے رفقاء جن سے میرے بہت پرانے رشتے اور تعلق ہیں، ان کا یہ ماننا ہے کہ دیوبندی علماء کرام اور غیر تکفیری سیاست دانوں کی اکثریت متشدد و نام نہاد جہادی ثقافت کے دیوبندی سماجی بنیادوں میں سرایت کرجانے اور اس کے پھیلاؤ کا ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹھیک ٹھاک اندازہ نہ لگاسکے۔جے یو آئی ایف اگرچہ اس رجحان پہ وقفے وقفے سے روک تو لگاتی رہی ہے اور ابتک کسی حد تک ڈیرہ اسماعیل خان میں ‘شیعہ-سنّی(دیوبندی) خانہ جنگی’ کو تو ہونے نہیں دیا ہے لیکن یہ ڈیرہ اسماعیل خان میں شیعہ آبادی کی مارجنلائزیشن اور ٹارگٹ کلنگ روکنے اور مقامی آبادی کے اندر پرانے محبت کے رشتوں کو بحال کرنے میں ناکام رہی ہے۔
‘نوجوان ہماری بات نہیں سنتے،ان کو آگ لگانے والے مقرر، آگ لگادو، مار دو، نشان مٹادو،اور مڈل ایسٹ کی آگ یہاں بھڑکانے والے لوگ زیادہ پسند ہیں اور وہ انہی کی بات پہ کان دھرتے ہیں۔’ یہ بات مجھے ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک مرکزی دیوبندی مدرسے کے دارالافتاء کے سربراہ نے بات کرتے ہوئے کہی۔ان کا کہنا تھا ،’ اکثر علماء کرام تو جان جانے کے ڈر سے بولتے ہی نہیں ہیں۔نام نہاد جہادی مفتیوں نے اسلام نے مذاق بناکر رکھ دیا ہے۔