چور مچائے شور – عامر حسینی
کچھ لوگ اپنے آپ کو بہت بڑا مزاح نگار خیال کرتے ہیں۔ایسی دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ بس ان کی اپنی ذہنیت پہ ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔کہا جارہا ہے کہ بلوچستان بلیدہ کے پہاڑی سلسلے کے پاس مرنے والے (پنجابیوں) کی شناخت بیان کرنے سے وہ لوگ ہچکچارہے ہیں جو مذہبی دہشت گردی کے ہاتھوں مارے جانے والوں کی مذہبی، مسلکی شناخت پہ بہت اصرار کرتے تھے۔
کئی ایک صاحب نے مجھے براہ راست مخاطب کرکے کہا کہ میں تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والوں کی مذہبی شناخت پہ بڑا اصرار کرتا ہوں اور بلوچ،سندھی، پشتون شناختوں کی مظلومیت پہ بولتا ہوں تو پنجابی مزدروں کی شناخت پہ میں خاموش ہوگیا ہوں۔
میں نے ابتک جتنی بھی پوسٹ لگائی ہیں ان میں،میں نے پنجابی محنت کشوں کا لفظ ہی استعمال کیا ہے۔ایک مضمون لکھا تو اس میں بھی ان مارے جانے والے مزدروں کی نسلی،لسانی و قومیتی شناختیں درج کیں۔
ہم پہ تنقید کرنے والوں کی مختلف اقسام ہیں۔چند ایک صاحبان تو وہ ہیں جو کھلم کھلا پاکستان کی ریاست کے بلوچستان پہ مسلط کی جانے والی کالونائزیشن کے حامی ہیں۔ریاستی جبر کو وہ کبھی براہ راست تو کبھی بالواسطہ سپورٹ کرتے ہیں۔
یہ صاحبان ماضی میں ہماری تحریروں کے مداح اس لئے رہے ہیں کہ ہم پاکستان کے اندر لبرل کمرشل مافیا کی سامراج پرستانہ روش اور جھوٹی اسٹبلشمنٹ مخالفت کا پول کھولنے میں سب سے آگے تھے اور اسٹبلشمنٹ کے ان حامیوں کو ہم سے ‘لبرل کمرشل مافیا’ کی ایک اصطلاح مل گئی تھی۔
یہ ہماری تحریروں کے اس لئے بھی مداح نظر آئے کہ ان کی محبوبہ ملٹری اسٹبلشمنٹ ‘اچھے جہادیوں اور تکفیریوں ‘ کو چھوڑ کر جب ‘برے جہادیوں اور تکفیریوں’ کا رام رام ستے کررہی تھی تو اس موقعہ پہ ‘برے جہادی و طالبان’ کی جانب سے کبھی پشتون نیشنلسٹ،کبھی سامراج دشمن، کبھی بائیں بازو و کمیونسٹ کیمپ کی استحصال اور جبر کے خلاف منطق کو استعمال کرنے کا پول جس شدت اور طاقت سے اور ناولٹی کے ساتھ ہمارے ساتھیوں نے کھولا اس کا عشر عشیر بھی بوٹ پالشیوں کے پاس نہیں تھا۔
یہ لوگ کمرشل لبرل مافیا کے ‘چمکتے ستاروں’ کی چمک اور رنگ روغن خود تو اتار نہیں سکتے تھے اور پھر اعتبار کا معاملہ بھی تھا تو ہماری تحریروں کو انہوں نے ‘بغض’ میں استعمال کرنے کی خاطر استعمال کیا۔
ایسے لوگ اصل میں سرے سے ریاستی جبر، قومی جبر، قومی سوال، قومیتی تضاد وغیرہ کے سرے سے قائل ہی نہیں ہیں۔یہ اسٹبلشمنٹ اور ریاست کے جابرانہ طرز پہ مبنی کالونائزیشن کو کبھی مارکسسٹ بنکر تو کبھی ‘حقیقی ترقی پسند’ بنکر تو کبھی مظلوم مذہبی کمیونٹیز کے ہمدرد بنکر جواز دلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔یہ اندر سے سر سے پیر تک پنجابی شاؤنزم کے گند میں بھی لتھڑے ہوئے ہیں اور اس کا اقرار کرنے سے انکاری ہیں۔
ہم پہ تنقید کرنے والوں میں سے کچھ وہ ہیں،جن کی کمرشل لبرل مافیا سے نیاز مندیاں ہیں اور یہ اس ملک میں بے ہودہ الحادیت کو پھیلانے والے اور سیکولر و رواداری کی تحریک کو نقصان پہنچانے والے عناصر سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو اس ملک میں شیعہ نسل کشی کو جواز،ابہام،نفی کے تیروں سے چھلنی کرتے رہے ہیں اور بے ہودہ اور سوفسطائی تحریروں کے ساتھ غلط بائنری پھیلاتے آئے ہیں۔یہ تکفیری فاشزم کا جواز گھڑتے رہے ہیں۔اوراس ملک میں شیعہ اور سنيوں کے درمیان جنگکا جھوٹا سماں باندھتے رہے ہیں۔
یہ لوگ ملک میں تکفیری دیوبندی-سلفی فاشزم بارے بیانیہ کی تشکیل کو پراگندہ کرنے کے مشن پہ رہے ہیں۔کبھی تو یہ لدھیانوی کو اور کبھی اشرفی کو معتدل ملّا بناکر پیش کرتے رہے ہیں۔یہ لبرل کمرشل مافیا کی وہ قسم ہے جسے ہم سے اپنے ہی دکھ ہیں اور آج یہ پنجابیوں کے ہمدرد بنکر ہمیں درس دینا چاہتے ہیں’ویکھو جی ہن شناخت کتھے گئی، تے ہن نسلی بنیاداں تے دہشت گردی دی مذمت کیوں نئیں کیتی جارئی۔’
یہ جو بھی لبادہ اوڑھ لیں،چھپ نہیں سکیں گے اور ان کی بددیانتی بہت واضح ہوکر سامنے آتی چلی جائے گی۔
لیکن میں صاف صاف کچھ باتیں ایسے سب مزاح نگاروں سے کرنا چاہتا ہوں،جو سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے ان سب دوستوں کی انسانیت پسندی کا پول کھول دیا ہے جو ابتک شیعہ نسل کشی پہ بہت بلند آہنگ ہوکر بات کرتے آئے اور انھوں نے تکفیری فاشزم کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔
ہم بلوچوں کے انسانی ،سیاسی،معاشی،قومی ،ثقافتی حقوق کی حمایت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ہم ان پہ ریاستی جبرکے کل بھی مخالف تھے اور آج بھی مخالف ہیں۔بلوچ نسل کشی ایک حقیقت ہے۔بلوچ پہ قومی جبر ایک حقیقت ہے۔بلوچ کی شناخت کی بقاء کا خطرہ حقیقی اور سنگین ہے۔ہم بلوچ قومی سوال اور پاکستانی ریاست میں قومیتی تضادوں کی موجودگی کو حقیقت سمجھتے ہیں۔
پنجابی آبادکار نہتے شہریوں، مزدروں پہ حملے حقیقت ہیں اور یہ قابل مذمت ہیں۔ان کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔ہم پاکستان سمیت دنیا بھر کے محنت کشوں،کسانوں،مظلوم و پسے ہوئے کچلے ہوئے نسلی ومذہبی وقومیتی گروہوں کی باہمی یک جہتی کے حامی ہیں اور ان کے درمیان تقسیم ڈالنے والے سامراجی، سرمایہ دارانہ اور مہا قوموں کے ظالم حکمران طبقے کی ریاستی مشنیری کی مدد سے جبر واستحصال اور مظلوم قومیتوں کے اندر ،مظلوم مذہبی کمیونٹیز کے اندر ہر طرح کی شاؤنسٹ،متعصب، نسل پرستانہ اور مذہبی فاشسٹ رجحانات کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔
بطور کمیونسٹ میں پاکستان کو ایک کثیرالقومیتی ریاست خیال کرتا ہوں۔اور ہر قومیت کے حق خودارادیت بشمول حق علیحدگی کا حامی ہوں۔اور پاکستان کے موجودہ حکمران طبقے جس میں پنجابی حاکم طبقات غالب ہیں کی پالسیوں کو کالونیل سرمایہ دارانہ پالسیاں خیال کرتا ہوں۔اور سمجھتا ہوں کہ بلوچ قومی تحریک کے اندر نسل پرستانہ اور متعصب شاؤنسٹ مظاہر ریاست کی جانب سے بلوچستان کی کالونائزیشن کا براہ راست نتیجہ ہیں۔
پاکستان کے شیعہ سمیت جتنے مذہبی مظلوم تکفیری فاشزم کے متاثرہ ہیں ان کا تکفیری دیوبندی-سلفی وہابیت سے کوئی رشتہ کالونیل ماسٹرز ۔کالونیل غلام کا نہیں ہے۔شیعہ کی نسل کشی ایک حقیقت ہے اور یہ کسی استحصال، کسی قومی،مذہبی ،نسلی جبر کا نتیجہ نہیں ہے۔تکفیری یا جہادی فاشسٹوں نے ایسے کوئی دلائل گھڑے تو وہ جھوٹ کا پلندہ ہیں۔
ہم نے ہمیشہ یہ کہا کہ مڈل ایسٹ ہو،جنوبی ایشیا ہو، مشرق بعید ہو یا مشرق قریب ہو دنیا بھر میں سرے سے شیعہ-سنّی لڑائی موجود نہیں ہے بلکہ تکفیری وہابی ازم، امریکہ کی دنیا بھر کے خطوں میں مداخلتوں کے لئے ان خطوں کی کٹھ پتلی حکومتوں اور بادشاہتوں کی خدمت گزار کے طور پہ شیعہ، اکثریت پرامن سنّی ، کرسچن، یزیدی،ہندؤ،احمدی، سکھ ودیگر کمیونٹیز پہ حملہ آور ہے۔
مذہبی بنیادوں پہ ہونے والی وآئلنس اور عسکریت پسندی کی دیوبندی-سلفی تکفیری فاشسٹ بنیادوں کا موازانہ مظلوم قومیتوں کے اندر سے ہونے والی شاذ و نادر شاؤنسٹ کاروائیوں سے کیا جانا اور مظلوم قومیتوں کے خلاف جابر ریاستی حکمران طبقے کو اپنے لاؤ لشکر سے حملہ آور ہونے پہ اکسانا کھلی دہشت گردی اور فساد پہ مبنی ہلاکت خیزی کو دعوت دینا ہے۔
تکفیری فاشزم کے خلاف جدوجہد کرنے والی مظلوم مذہبی کمیونٹیز کے لوگوں کو بلوچ قوم کے خلاف کھڑے ہوجانے کا درس دینے والے پنجابی محنت کشوں کی ہمدردی میں ایسا نہیں کررہے بلکہ وہ مظلوموں کو مظلوموں کے خلاف کھڑا کردینے کی سازش کا حصّہ ہیں۔
پاکستان کے حکمران طبقوں نے کبھی دہشت گردی کے نام پہ جنگ کو پھیلانے کے لئے اور مظلوموں کی باہم جڑت کو روکنے کے لئے اور پنجابی محنت کشوں، کسانوں کی اکثریت کے شعور کو گمراہ کرنے کے لئے مظلوموں کا جھنڈا کچھ اپنے ہی ایجنٹوں کے ہاتھوں میں دئے رکھا ہے۔
یہ مذہبی فاشسٹوں کو وہ وقفے وقفے سے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ہم نے ایسے ایجنٹوں کو کبھی شیعہ کو تو کبھی صوفی سنّیوں کو کبھی کسی راحیل شریف کے شکریہ پہ مامور کرنے کی کوشش کرتے دیکھا تو کبھی باجوہ کے چرنوں میں گرانے کی کوشش کرتے دیکھا۔یہ شیعہ ہزارہ کو بھی اپنے قاتلوں کے سرپرستوں کو نجات دہندہ سمجھنے کا درس دیتے رہے۔ایسے لوگ زیادہ دیر مظلوموں کا نقاب چڑھا کر لوگوں کو دھوکہ نہیں دے سکتے،فنڈڈ پروگرام اور فٹ سولجرز /پیدل سپاہی آخر کار پکڑے جاتے ہیں۔
پاکستان کے اندر ظلم کے خلاف صف آراء دوستوں نے مظلوم مذہبی کمیونٹیز اور مظلوم قومیتوں کے درمیان یک جہتی پڑھانے اور ظالم حکمران طبقے کی اقوام اندر محنت کشوں، کسانوں، دانشوروں کے لئے ان کی حمایت بڑھانے کے لئے بڑی کوشش کی ہے اور اس کے نتائج بھی مرتب ہوئے ہیں۔
میں شیعہ کمیونٹی کے متحرک اور انتہائی فعال سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو داد کا مستحق سمجھتا ہوں، یہی جذبات سنّی سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں کے لئے بھی ہیں جنھوں نے بلوچوں پہ ریاستی جبر کا درد محسوس کیا ہے اور چند قوم پرست شاؤنسٹ اور متعصب نسل پرستوں کے اقدامات کو پوسٹر بناکر بلوچ قوم پہ چسپاں کرنے سے انکار کردیا ہے۔
پنجابی شیعہ ، سنّی (بشمول اعتدال پسند دیوبندی،سلفی سنّی ،بریلوی سنّی) سوشل ایکٹوسٹ جو کہ تکفیری دیوبندی-وہابی فاشزم اور بریلویوں کے اندر سے اٹھنے والے مٹھی بھر بلوائی نفسیات کے حامل مذہبی فاشسٹوں کے خلاف کسی مسلکی ،فرقہ وارانہ تعصب سے بالاتر ہوکر سرگرم رہے ہیں کی جانب سے بلوچ قوم پہ ریاستی جبر پہ سٹینڈ لینے اور اس کے خلاف بات کرنے پہ ان کو داد کا مستحق خیال کرتا ہوں۔ان ميں اکثریت نوجوان پنجابی شیعہ اور سنّی سوشل ایکٹوسٹوں کی ہے۔یہ پاکستان کے اندر ظلم و جبر کے خلاف امید کے استعارے ہیں۔ان سب کو سرخ سلام۔