احسان فراموش زید حامد کی شرانگیزی

 

امام علیؑ کا فرمان ہے کہ جس پر احسان کرو، پھر اُس کے شر سے بچو۔ زید حامد بھی ایسا ہی ایک احسان فراموش ہے۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب زید حامد عمرہ کرنے سعودی عرب گیا تھا اور پھر وہیں پر دھر لیا گیا تھا، خبریں سننے میں آرہی تھیں کہ جیل میں بند کردیا گیا ہے اور کوڑے مارے جانے کی سزا بھی سنائی گئی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ وہ پاک فوج، کہ جس کا یہ خود ساختہ ترجمان اور سیکیورٹی ایڈوائیزر بنا پھرتا تھا، اُس کی طرف سے اس کے دفاع میں ایک بھی بیان سامنے نہ آیا البتہ اس کئے آواز اُٹھانے والوں میں سب سے سرفہرست پاکستان کے شیعہ تھے۔ یہ جانتے ہوئے کہ موصوف جہاں دہشتگردوں کی شناخت بتاتے ہیں تو وہیں ان سب کا کھرا بغیر کسی تفریق کے سرحد پار نکال لاتے ہیں۔ ظاہر ہے، شیعہ اس تھیوری سے مکمل اتفاق نہیں رکھتے۔ بیرونی عوامل یقینا متحرک ہیں لیکن اندرونی فالٹ لائینز کی بھی کمی نہیں۔

بہرحال، زید حامد کیلئے ہر شیعہ نے آواز اُٹھائی اور پھر ایک دن موصوف وطن واپس آگئے لیکن واپس آنے کے بعد سے ہی ان کے تیور بدلنا شروع ہوگئے۔ انہوں نے سب سے پہلے تو سعودی عرب پر تنقید کرنے کا سلسلہ کم کرتے کرتے ختم کردیا اور پھر آہستہ آہستہ توپوں کا رخ شیعوں کی جانب بھی موڑنا شروع کردیا۔

موصوف کھل کر اُس وقت سامنے آئے جب چند ماہ قبل پارہ چنار میں رواں برس مسلسل چھٹے خود کش حملے کے بعد شیعوں نے اپنے پیاروں کے جنازوں کے ہمراہ احتجاجی دھرنا دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ دھرنا پہلے تو نہ میڈیا کو نظر آیا اور نہ ہی سوشل میڈیا پر اس کی کوئی آواز سنائی دی، لیکن جوں جوں یہ احتجاج زور پکڑتا گیا، نوجوان منظم ہوتے گئے، ویسے ہی ہر طرف سے تاویل پرست اور پراپگنڈہ کرنے والے نمودار ہوگئے۔ ان میں زید حامد صاحب بھی پیش پیش تھے۔ جو زور و شور سے شیعوں کے خلاف پراپگنڈہ کرنے اور اُن پر فوج دشمن ہونے کا الزام لگانے میں مصروف تھے۔ لیکن ان کا سارا پراپگنڈہ بےسود ثابت ہوا اور پارہ چنار کے مظلوم شیعوں نے اپنا مقدمہ کامیابی کے ساتھ پرامن انداز میں جیت لیا۔ نہ کوئی شیشہ ٹوٹا، نہ فوج کے خلاف نعرے بازی ہوئی اور نہ ہی ردعمل میں ہتھیار اٹھانے کی دھمکی دی گئی۔ جن لوگوں پر یہ موصوف فوج دشمنی کا الزام لگا رہے تھے، انہی کے پاس آرمی چیف نے خود جاکر، سارے تبصرے اور سارے تجزئے، اس خود ساختہ دفاعی مبصر کے منہ پر مار دئے۔

اب کچھ دنوں سے جناب نے ایک بار پھر شیعوں کے خلاف محاذ سنبھالا ہے اور اس بار بہت دور کی کوڑی لائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح ملک بھر دہشتگدگردی کا بازار گرم کرنے والے طالبان وغیرہ کے تکفیری دہشتگرد را کے ایجنٹ تھے، اسی طرح اب را شیعوں کو بھی ٹرین کررہی ہے۔ یعنی ایک طرف وہ دہشگرد جنہوں نے تقریبا ایک دہائی تک اس ملک کے ہر طبقے کو نشانہ بناتے ہوئے ایک لاکھ کے قریب بیگناہ پاکستانی قتل کردئے، یہ موصوف ان کا موازنہ اُس طبقے سے کرنا چاہ رہے ہیں جس نے خود چوبیس ہزار لاشیں اُٹھائیں، لیکن کبھی ہتھیار نہ اُٹھائے۔ مثال کیلئے حسبِ معمول ایک غیر فعال تنظیم سپاہ محمد کا نام لیا گیا جس کے موجودہ سربراہ کا نام بھی شاید ہی اس مسخرے کو معلوم ہو۔ کم علمی کی انتہا دیکھئے کہ الطاف حسین کو شیعہ کہہ رہا ہے۔

سب سے عجیب اور مضحکہ خیز انکشاف موصوف نے یہ کیا ہے کہ را کوشش کررہی ہے کہ وہ ٹی ٹی پی اور شیعہ دہشتگرد تنظیموں میں اتحاد کروا دے تاکہ یہ دونوں مل کر کام کریں۔ انصاف سے بتائیں، کوئی بھی ہوشمند اور ذہنی طور پر صحتمند انسان ایسی بے تکی بات کرسکتا ہے؟ یعنی شیعہ اُن کالعدم تنظیموں سے اتحاد کرینگے جو انہیں کافر کہہ کر اُن کا خون بہاتی رہیں؟ اس مسخرے کی تجزیہ نگاری ملاحظہ کیجئے کہ دہشتگری کا ذکر کرتے ہوئے صرف ٹی ٹی پی کا نام لے کر انہیں را کا ایجنٹ قرار دے رہا ہے لیکن اُن دیگر کالعدم تنظیموں کا نام نہیں لے رہا جو اسی ٹی ٹی پی کے ساتھ مل اور کبھی اس کی سہولتکار بن کر ملک بھر میں دہشتگردی پھیلاتی رہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کا نام لینے سے اس کے نئے کفیل سعودی عرب کی ناراضگی کا خدشہ ہو؟ ورنہ نام لے دیگر کالعدم تکفیری تنظیموں کا بھی۔

یہ شخص اس قابل تونہیں تھا کہ اس پر اتنا کچھ لکھا جاتا لیکن چونکہ معاملہ پراپگنڈے کا تھا، اس لئے ضروری تھا کہ ایک بار تو اس کی اصلیت بتا ہی دی جاتی۔ خود سے اختلاف رکھنے والوں کو گالیاں دینے والے اس شخص کے ماضی کے حوالے سے بھی بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن اب “کذاب” کو اتنی اہمیت دینے کا فائدہ؟

Comments

comments