حقیقت امام حسین رضی اللہ عنہ – پہلا حصّہ – محمد عامر حسینی

عشرہ محرم کا جیسے ہی آغاز ہوتا ہے بلکہ جیسے ہی رجب المرجب کی وہ تاریخ سامنے آتی ہے جب حضرت امام حسین بن علی ابن ابی طالب (اللہ ان کا فیض جاری و ساری رکھے) نے احرام حج کھولا اور اپنے 72 ساتھیوں اور جملہ اہل بیت اطہار ماسوائے چند ایک کے ساتھ عازم کوفہ ہوئے تھے تو خصوصیت کے ساتھ ذکر امام حسین رضی اللہ عنہ شروع کردیا جاتا ہے۔اس سفر کربلاء کے ایک ایک پل کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ ان لمحات بارے جتنی تفصیل تواریخ میں موجود ہے اس کو ازسرنو تازہ کرنے کا عمل جاری و ساری رہتا ہے۔

امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے جملہ ساتھیوں کی قربانی،خواتین اہل بیت کے مصائب اور اس دوران ان کی عظمت اور ان کی عزیمت،کمال استقامت اور صبر عظیم کے واقعات کا بیان بھی جاری رہتا ہے۔جو حکمت اور تزکیہ نفس کی نعمتوں سے سرفراز ہوں ان کے ذہنوں پہ پرانے تاریخی واقعات اور ان عظیم شخصیات کے اقوال و افکار بارے نئے خیالات مضامین غیب کی طرح اتارے جاتے ہیں اور تذکرہ حسین رضی اللہ عنہ اور حسین و جمییل ہوتا چلا جاتا ہے۔

ایام عاشورا کے آتے ہی جن کے دلوں میں کجی ہے، جن کے دلوں میں امیہ ازم کا وبال ہے اور جن کے دل تنگ پڑ جاتے ہیں ان کے لئے یہ دس دن خاصے بھاری ہوتے ہیں۔وہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے سفر کربلاء کے بارے میں ابہام اور گمراہ کن نظریات اور فکری مغالطے پھیلاتے ہیں اور اس موقعہ پہ ان کے پاس پیٹرو ڈالرز کی بھرمار ہوتی ہے۔اور وہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات بابرکات کی عالمگیر کشش اور اپیل کو فرقہ پرست کی تنگ دامانی میں قید کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سفر کی جو عالمگیر استعاراتی حثیت ہے اسے وہ اپنی سفلیت سے چھوٹا کرنا چاہتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ ایسا ہونہیں سکتا تو لامحالہ ان کی تنگ نظری خودکش جیکٹوں،ٹائم ڈیوائس ریموٹ کنٹرول بموں،گولیوں اور بارودی سرنگوں میں بدل جاتی ہے اور اس عالمگیر استعارے سے پیار کرنے والوں کو اپنا نشانہ بناتی ہے۔ان کی نسل کشی کرتی ہے۔اور اسقدر نفرت پینٹ کرتی ہے کہ جدید یونیورسٹیوں میں سائنس اور جدید سرمایہ دارانہ منیجمنٹ کی تعلیم دینے اور اسے حاصل کرنے والے اساتذہ و طلباء وطالبات کے اندر سے بھی ہمیں ویسے وحشی اور خون خوار نظر آنے لگتے ہیں جیسے عبدالرحمان ابن ملجم تھا،شمر تھا،عبیداللہ ابن زیاد تھا، یزید تھا اور جیسے حجاج بن یوسف الثقفی تھا۔

مسلم معاشروں میں بغض اہل بیت اطہار وہ بیماری ہے جسے ہم متعدی کہہ سکتے ہیں۔یہ جب کبھی پھیلتی ہے تو اس بیماری سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی کمیونٹیز اور برادریاں نقصان اٹھاتی ہیں۔تباہی اور بربریت ایسے لگتا ہے جیسے ایک بڑی مصیبت کے طور پہ مسلط ہوگئی ہے۔خون خرابا ہوتا ہے اور ترقی و خوش حالی کا سفر رک جاتا ہے۔آج جیسے ہم تکفیری فاشزم کہتے ہیں اس کی جڑیں اسی بغض اہل بیت اطہار میں پیوست ہیں۔

یقینی بات ہے کہ جو لوگ اس متعدی مرض کا علاج کرتے ہیں اور اس وباء کے پھیلنے سے روکنے کا اہتمام کرتے ہیں وہ اپنے وقت میں علی شناس ہونے کا ثبوت فراہم کررہے ہوتے ہیں۔جو لوگ اس متعدی بیماری کی تشخیص کرتے ہیں وہ بھی بہت بڑا کام سرانجام دے رہے ہوتے ہیں،جو غم اہل بیت اطہار میں سوز و ساز کے ساتھ اپنے سننے اور پڑھنے والوں کے دلوں کو نرم کرکے قساوت ان سے دور کرتے ہیں وہ بھی عظیم کام سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔اس دوران جو تعلیم و تربیت کرتے ہیں وہ بھی بڑا کام کرتے ہیں۔
شخصیت،ذات اور ہستی کو اس کی فکر سے اور اس کی ہست سے جدا کرکے دیکھنا کارمحال اور یک چشم و یک رخ ہوجانے کے مترادف ہوا کرتا ہے۔

فکر کو مفکر سے، ہست کو ہستی سے سے الگ کرکے دیکھا ہی نہیں جاسکتا اور ایسے ہی ذات کو صفات سے الگ کرکے دیکھنا کارمحال ہے۔ایسے ہی ہم حسین علیہ السلام کو ان کی فکر،ان کی ہست،ان کی صفات سے الگ کرکے دیکھ ہی نہیں سکتے۔اور نہ ہی ان کے سفر کو ان کے بڑے بھائی امام حسن، ان کے والد محترم حضرت علی ابن ابی طالب اور ان کے والد حضرت ابی طالب، اور ایسے ہی امام حسین کی والدہ حضرت فاطمہ زھرا،آپ کی دادی فاطمہ بنت اسد سے الگ کرکے نہیں دیکھی جاسکتی ہے۔پھر جناب امام حسین رضی اللہ عنہ کو ہم ان کی والدہ فاطمہ زھرا کے والد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ کی نانی حضرت خدیجۃ الکبری اور پھر آپ کے پڑنانا حضرت عبدالمطلب سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے۔

شجر حسین کی ایک شاخ علی ابن ابی طالب سے ابو طالب کے واسطہ سے اور دوسری شاخ فاطمہ بنت محمد سے جاکر محمد بن عبداللہ کے واسطے سے اس شجر سے ملتی ہے جسے شجر طیبہ کہتے ہیں۔اور اگر شجر حسین کی تکوینی،باطنی،روحانی رمزیت کے ساتھ جڑين تلاش کرنی ہیں تو پھر اس کی دونوں افقی شاخیں بواسطہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم و فاطمہ بنت محمد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جاکر مل جاتی ہیں اور یہ جو شجر محمدی ہے تکوین و باطن کی دنیا میں تو یہ ‘اول خلق اللہ نوری’ اور ‘لولاک محمد الخ’ کی شان والا ہے۔یہ وہ شجر خاص ہے جو باعث تخلیق کائنات ہے اور بلکہ جو شئے بھی موجود ہے وہ اسی شجر کے مرہون منت ہے۔اس شجر کی ایک شاخ بھی ہے۔یہ شاخ ‘شاخ ولایت’ ہے۔یہ شاخ ولاء ہے جو امام حسن کے واسطہ سے امام علی اور پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتی ہے۔

شجر حسین کی تینوں شاخوں کا سلسلہ جہاں پہنچتا ہے اس میں کوئی بھی ان کی ہمسری نہیں کرتا۔اور اس شجر کی ان تین بڑی افقی شاخوں کو بغض اہل بیت کا شکار افراد اور انسانیت سے عاری لوگ نہ صرف خود دیکھنے سے محروم ہوجاتے ہیں بلکہ وہ اپنے ساتھ کئی اور لوگوں کو ان افقی شاخوں کے ثمرات اور اس شجر کے سائے سے محروم کردیتے ہیں۔

شیخ ابن عربی کے ہاں ‘آل محمد، اہل بیت اطہار’ یہ صرف حسب و نسب کا شجرہ نہیں ہیں۔وہ اس کو شجرۃ الکون کہتے ہیں۔تکوینی درخت کہتے ہیں۔یعنی کائنات کو اگر شاخیں کہا جائے تو اس کی جڑیں اور درخت آل محمد ہے۔اہل بیت اطہار ہیں۔اور شیخ ابن عربی اسی لئے کہتے ہیں کہ جس نے ‘نفس’ کا عرفان لینا ہے جو عرفان رب کا زینہ ہے اسے ‘نفس آل محمد’ کی معرفت لینا لازم ٹھہرجاتا ہے۔اور جو نفس اہل بیت کی معرفت پالیتا ہے تو نفس محمد کی معرفت کا دروازہ کھلتا ہے اور اسی دروازے سے آگے عرفان رب باری تعالی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

یہ عرفان کے مدارج ہیں اور عرفان حسین ابن علی و فاطمہ بنت محمد اس کا ایک لازمی درجہ ہے۔یہ حقیقت نگاہوں سے اوجھل ہوئی تو سمجھو عرفان کا سارا راستا کھوٹا ہوگیا۔اسی لئے صوفیاء کے ہاں حقیقت ابدی و سرمدی تک کا جو سفر ہے وہ سفر شجرالکون سے الگ نہیں کیا جاسکتا اور شجر حسین ابن علی اس کا ایک بہت ہی اہم اور مرکزی پڑاؤ ہے۔

شجر الکون کی جو شاخ ‘آل محمد/اہل بیت کہلاتی ہے اس کی اہمیت جاننے کے لئے ہمیں سورہ احزاب کی آیت نمبر 33 جو اہل بیت کے ساتھ صفت تطہیر کو جوڑتی ہے۔اور اس آیت کو لیکر اور ایسے ہی درود ابراہیمی جس میں آل محمد پہ ویسے ہی درود و سلام ہے جیسے آل ابراہیم پہ ہے اور ایسے ہی قرآن میں جہاں زبان پیغمبر علیہ الصلاۃ و التسلیم یہ کہلوایا گیا کہ انسانیت سے جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی تمام ترسعی و تعلیم و تربیت کا اجر کیا طلب کرتے ہیں وہ مودت ہے اہل بیت کی تو ان سب چیزوں کو لیکر اور پھر ماکان محمد الخ سے نکلے ختم نبوت کے تصور کو لیکر شیخ ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جیسے تشریعی نبوت کا دروازہ تو بند کردیا گیا مگر شجر نبوت کے جو دوسرے قرب اور مقامات ہیں ان سب کی منتقلی شجر اہل بیت/آل محمد تک ہوئی ہے اور اسی راستے سے گزر کر جس کی جتنی استعداد ہے وہ ان مقامات کا فیض وصول کرپائے گا۔

شیخ ابن عربی کہتے ہیں کہ حقیقت ذات باری تعالی اور صفات باری تعالی ان دونوں کا مرات (آئینہ) حقیقت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔اور حقیقت محمدیہ صلی اللہ وآلہ وسلم کا آئینہ حقیقت آل محمد ہے۔اور جیسے ذات باری تعالی اور اس کی علم کا انعکاس آئینہ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہوتا ہے ایسے ہی یہ انعکاس آئینہ اہل بیت اطہار میں ہوتا ہے۔شيخ ابن عربی کہتے ہیں کہ ہر نفس وجود حقیقی کا آئینہ ہے مگر کامل آئینہ تو آئینہ محمدی ہے اور اس آئینہ محمدی کا اکمل ترین انعکاس آئینہ آل محمد اہل بیت اطہار ہے۔تو جو کوئی وجود حقیقی کی معرفت کا طلبگار ہوگا وہ اہل بیت اطہار کے آئینہ میں منعکس حقیقت محمدیہ و حقیقت واجب الوجود کو دیکھنے کا چارہ کرے گا۔

شیخ ابن عربی ذات محمد /نفس محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نسخۃ الحق یعنی ظل/انعکاس حق کہتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں نسخۃ الحق کا نسخۃ جو ہیں وہ اہل بیت اطہار ہیں۔ظل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو ہیں وہ اہل بیت اطہار ہیں۔

تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا

یہ جو ہم اقوال حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھتے ہیں جن میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب فاطمہ،علی ابن ابی طالب،امام حسن اور امام حسین کے بارے میں اپنے بدن اور اپنے وجود کے حصّہ کے طور پہ ان کے ساتھ اپنی نسبت کا اظہار فرمایا اور پھر بہت واضح طور پہ کہا کہ ‘الحسین منی وانا من الحسین’ اور بعینہ آپ نے یہ الفاظ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور جناب امام حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا اور پھر ایک جگہ آپ نے جناب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے اپنی نسبت کا زکر کرتے ہوئے جو موسی و ہارون کی نسبت باہمی کا زکر کیا اور کہا کہ اس شرکت میں تشریعی نبوت خارج ہے تو اس سے بھی شیخ ابن عربی کے وجدان کی تائید ہوتی ہے اور ہم عمومی طور پہ حقیقت محمد اور حقیقت اہل بیت کے معنی کا ادراک کرتے ہیں اور حقیقت امام حسین رضی اللہ عنہ کے معنی کی وسعت ہم پہ کھل جاتی ہے۔

اس قدر تمہید میں نے اس لئے باندھی ہے کہ یہ واضح کرسکوں کہ جب ہم ذکر حسین کرتے ہیں تو ہم اصل میں حقیقت حسین کے راستے سے حقیقت محمد اور اس راستے سے حقیقت واجب الوجود کی بات کررہے ہوتے ہیں اور یہی وہ راستا ہے جس پہ چل کر سفر آسان بھی ہوتا ہے اور بھٹکنے اور کھوجانے کا اندیشہ بھی نہیں رہتا اور اس راستے پہ سفر کرتے ہوئے کوئی بھی شخص امیہ ازم کو ‘اسلام’ خیال نہیں کرسکتا اور نہ ہی وہ ظلم و جبر،ستم،قتل و غارت گری،معصوم اور بے گناہ لوگوں کے قتل عام کو خطائے اجتہادی قرار دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔اور وہ اپنی مجالس میں اموی ملوکیت کی تحسین کرکے گندگی نہیں پھیلائے گا۔

میں اس محرم الحرام کے پورے عشرے میں چاہتا ہوں کہ ہم حقیقت حسین ابن علی رضی اللہ عنہ پہ بات کریں۔اور کوشش کریں اس حقیقت کے راستے ہی ہم حقیقت علیا یعنی واجب الوجود تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کی ایک دعا کتب تاریخ میں درج ہے۔اس میں آپ رب باری تعالی سے مخاطب ہوتے ہیں۔اور ذات باری تعالی کے سراغ پہ ایسی بات فرماتے ہیں جس سے اہل وجدان وجد میں نہ آئیں تو حیرانی ہوگی۔

‘جس شئے کے ہونے کا انحصار تمہارے اپنے ہونے پہ ہے تو وہ کیسے تمہارے ہونے کا ثبوت بن سکتی ہے؟ تو کیا تمہاری ذات سے زیادہ کوئی شئے ہے جو تم پہ خود تمہیں آشکار کرنے والی ہو؟کیا تم سربستہ راز ہو کہ کوئی تمہیں تلاش کرتا پھرے؟

یقینی بات یہ ہے کہ تم نہیں ہو۔تم کوئی دور ہو جو تمہارے نقش کی تلاش کی جائے؟ یقینی بات ہے کہ نہیں ہو! وہ آنکھیں اندھی ہوں گی جو تمہیں نہ دیکھیں اور تمہیں قائم بالذات نہ خیال کریں۔

امام حسین علیہ السلام

ایک بات ملحوظ خاطر رہے امام حسین رضی اللہ عنہ وحدت وجود اور ثبوت وجود بارے جو اپنی دعا میں خطاب فرمارہے ہیں وہ درجہ جو عرفان کا سب سے بڑا درجہ ہے اور اسی لئے آپ کی زبان سے یہ نکلا’کیا تم سربستہ راز ہو کہ کوئی تمہیں تلاش کرتا پھرے’ اور پھر وجدان و عرفان کا ایک درجہ وہ ہوتا ہے جس پہ پہنچا شخص حادث چیزوں کے زریعے سے سے حقیقت ذات کا سفر نہیں کرتا بلکہ یہ مقام کسی واسطے کے بغیر حق شناسی کا مقام ہے اور اس مقام پہ امام حسین رضی اللہ عنہ فائز تھے۔ اور اسی لئے وہ قائم بالذات کے قیام کی حقیقت کا عرفان رکھتے تھے اور جو یہ عرفان رکھتا ہو وہ خود قائم بالزمان ہوتا ہے۔یعنی زمان ومکان پھر اس کے وجود سے قیام کرتے ہیں اور یہ قیام اصل میں قیام محمدی کا انعکاس ہوتا ہے اور اس سے آگے یہ قیام ذات حق کا انعکاس ہی ہوتا ہے۔اور جو دل کے اندھے ہوتے ہیں ان کو نہ یہ قیام سمجھ آتا ہے اور نہ ہی ان کو حقیقت حسین کی ہوا لگتی ہے۔

Comments

comments