شفیق مینگل : بلوچ قوم پرست مخالف پراکسی سے داعش نواز بننے تک – محمد بن ابوبکر
شفیق مینگل کا کیس بلوچستان کی شورش اور اس حوالے سے ہونے والی دہشت گردی اور ریاستی اداروں کے اندر سے ملنے والی مبینہ اشیر باد سے پھیلنے والے جہاد ازم اور تکفیر ازم کی جڑوں کو پہچاننے میں ہماری بہت مدد کرسکتا ہے۔
بلوچستان اور سندھ کے اندر رونماء ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے درمیان تعلق اور کڑی سے گہری واقفیت رکھنے والے ایک صحافی کا کہنا ہے:
‘دو ہزار پندرہ میں سندھ کے شہر شکار پور میں ہونے والے خودکش دھماکوں کا دوہزار دس میں خضدار میں بی ایس او آزاد کی ریلی پر ہونے والے فائرنگ سےتعلق تب جڑا جب دو ہزار سولہ میں خودکش حملے کے لیے تیار عثمان بروہی شکار پور کی ایک شیعہ مسجد میں دھماکے سے قبل پکڑا گیا۔ یہ پہلی دفعہ ہوا کہ جب ایک خودکش حملہ آور پکڑا گیا اور اس نے اپنی زبان سے بتلایا کہ میری خود کش جیکٹ بلوچستان کے علاقے وڈھ میں ‘معاز’ نامی شخص نے تیار کی ہے۔
وڈھ میں مذہبی شدت پسندوں کی موجودگی ہمیشہ سے نہیں تھی، اور نہ ہی پورے بلوچستان میں فرقہ پرستی کا راج تھا۔ سندھ میں شیعہ مسلمانوں کی مساجد، کوئٹہ میں ہزارہ برادری اور بلوچ آزادی پسندوں کے قتلِ عام سے لیکر کراچی میں ایم کیو ایم لیڈر خواجہ اظہار الحق پرقاتلانہ حملہ ہو، اس سب کی کڑیاں وڈھ کے علاقے باڈڑی میں مقیم شفیق الرحمٰن مینگل سے جاکر ملتی ہیں۔’
شفیق مینگل کون ہے؟
ایک ایسے بلوچ قبیلے سے اس کا تعلق ہے جو بلوچ قوم پرستی کے حوالے سے بہت معروف رہا ہے اور اس قبیلے کی مجموعی سیاسی وابستگی سیکولر،لیفٹ نیشنلسٹ سیاست سے رہی ہے تو شفیق مینگل کیسے جہادی ، تکفیری ، مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہوگیا ؟
بلوچستان کے علاقے گوادر سے تعلق رکھنے والے صحافی جوکہ آجکل جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں قاضی ریحان ان کا کہنا ہے
شفیق الرحمٰن ، مینگل قبیلے کے محمد زئی طائفے سے تعلق رکھتا ہے، وہ سابق پاکستانی وزیر برائے پیٹرولیم اور سابق نگران وزیراعلی نصیر مینگل کا بیٹا ہے۔ شفیق مینگل نے اپنی بنیادی تعلیم لاہور میں قائم ایک اعلی طبقے کے کالج ‘ایچی سن’ کالج سے حاصل کی ہے، مگر اسکے بعد اسنے اپنی سائنسی تعلیم چھوڑ کر کراچی میں ایک دیوبندی مدرسے میں پڑھائی شروع کردی اور تب اسکا وہ سفر شروع ہوا جس نے اسکے نگران وزیراعلی کے بیٹے سے ہزاروں لوگوں کا قاتل بنا دیا اور آج دن تک وہ اپنے ہاتھ معصوم انسانوں کی زندگیوں سے رنگ رہا ہے۔
شفیق مینگل اور انکا خاندان شروعات میں خضدار شہر میں واپڈا گلی میں ایک معمولی سے گھر میں رہتے تھے۔ اور وہ اپنے شروعاتی دنوں میں بڑے بھائی عطالرحمین مینگل اور ماموں قدوس مینگل کے ساتھ افغانستان سے لائے جانے والی گاڑیوں میں منشیات کا کاروبار کرتا تھا۔’
ایچی سن کالج کے زمانے میں ہی شفیق مینگل کسی نہ کسی طریقے سے افغانستان میں طالبان کی طرف سے لڑنے والے دیوبندی عسکریت پسندوں کے ساتھ رابطے میں آیا۔اغلب امکان یہ ہے کہ اس کا رابطہ حرکۃ المجاہدین کمانڈر فضل الرحمان خلیل کے لوگوں سے ہوا۔اور ان روابط نے اسے کراچی میں دیوبندی مدرسے میں داخل کروایا۔
کراچی میں دیوبندی مدرسے میں تعلیم کے دوران اس کے روابط لشکرطیبہ، جیش محمد ، حرکۃ المجاہدین جیسے گروپوں کے لوگوں سے بھی ہوئی، جہاں سے وہ کچھ وقت کے لیئے کشمیر کے جہادی گروپوں کے ساتھ رہا اورپھر کشمیر میں بھی جہادی تنظیموں کے ہمراہ لڑا۔
شفیق مینگل کا کیونکہ بلوچستان کا پس منظر تھا اور اسی پس منظر کو دیکھتے ہوئے اغلب قیاس یہ ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے اندر موجود پرو جہاد اہلکار کے زریعے بلوچستان میں قوم پرست تحریک کے خلاف ایک پراکسی کے طور پہ کارآمد نظر آیا ہوگا اور تب ہی اسے بطور پراکسی کے چن لیا گیا۔
دو ہزار آٹھ وہ سال ہے جب بلوچستان کے اندر ریاست کی جانب سے فوجی آپریشن شروع کیا گیا۔اس زمانے میں بڑے تواتر سے بلوچ قوم پرست لوگوں کا غائب ہونا اور پھر ان میں سے کئی ایک کا مسخ شدہ لاش کی شکل میں ملنے کا عمل شروع ہوا۔انسانی حقوق کی تنظیموں اور بلوچ قوم پرست حلقوں کی جانب سے الزام لگا یا گيا کہ یہ کام سیکورٹی و انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکار کررہے ہیں جبکہ اس دوران بلوچ تنظیموں کی جانب سے یہ الزام بھی دوھرایا گیا کہ کہ پاکستانی سیکورٹی کے اداروں کی شہ پہ ایسی مقامی ملیشیا بھی بنائی گئی ہے جو کہ اس وقت جبری گمشدگیوں میں معاونت،فوجی ٹیموں کی بلوچ علاقوں میں بحفاظت گشت اور واپسی میں مدد کررہے تھے اور بلوچ مسلح تنظیموں کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کو اسلحہ اور تربیت فراہم کرنے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ایسے میں کہا جاتا ہے کہ شفیق مینگل کو اپنی مسلح تنظیم بنانے کا موقعہ دیا گیا۔
شفیق مینگل کی مسلح تنظیم نے نے اپنا پہلا مبینہ حملہ دوہزار دس میں خضدار ڈگری کالج سے نکل رہی بی ایس او ازاد کی ریلی پر فائرنگ کرکے کیا، جس کے نتیجے میں ایک طالب علم ‘علی دوست’ جاں بحق اور متعدد طلباء زخمی ہوگئے تھے۔ اسکے بعد اسی تنظیم پہ خضدار یونیورسٹی میں کلچرل پروگرام کے دوران دستی بموں سے بھی حملہ کرنے کا الزام لگا جہاں دو نوجوانوں کی ہلاکت اور دیگر کئی طالب علم زخمی ہوگئے ۔
شفیق مینگل پہ الزام لگا کہ انٹیلجنس ایجنسیوں کی جانب سے ان کو پوری حمایت مل جانے کے بعد وہ اور انکے بڑےبھائی عطاالرحمان خضدار شہر میں آجاتے ہیں ہیں۔ مگر اسی اثناء بلوچستان میں علیحدگی پسند مسلح تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی کے ہاتھوں انکے ماموں قدوس مینگل کی ہلاکت ہوجاتی ہے۔ قدوس مینگل علحیدگی پسندوں کے خلاف تھے اور ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ بلوچستان میں سیکورٹی اداروں کی کاروائیوں کے حامی و مددگار تھے۔
دوہزار نو سے لیکر دوہزار تیرہ تک خضدار شہر میں سینکڑوں علیحدگی پسندی بلوچ تحریک کی حمایت کرنے والے کئی افراد کی ٹارگٹ کلنگ اور اغواء کا الزام شفیق مینگل کیی تنظیم پہ ہی آتا رہا۔ اس پہ کمسن بالاچ اور مجید زہری ، بزرگ حاجی رمضان زہری اور حافظ عبدالقادر مینگل کے قتل کے الزام لگے۔
شفیق مینگل کے والد مینگل قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں مگر ماں کی طرف سے انکا تعلق خضدار کے علاقے توتک کے قصبہ سے ہے، جہاں قلندارنی قبیلے کے لوگ آباد ہیں۔ اس رشتہ داری کے سبب شفیق مینگل نے اپنا ایک مرکز توتک کو بنایا ہوا ہے۔
خیال رہے توتک میں شفیق مینگل کی آمد سے قبل ایک وسیع پیمانے پر فوجی آپریشن ہوچکا ہے۔ اس علاقے میں بھی کئی جبری گمشدگیاں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔
توتک شہر کو اپنا ٹھکانہ بنانے کے بعد شفیق مینگل پہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے وہاں اپنے ٹارچر سیل قائم کیے اور بلوچستان بھر سے کئی معصوم لوگوں کو اغواء بعد وہاں پر زندانوں میں بند کرکے رکھا۔ علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان دنوں مال مویشی چرانے والے ہم سے بات کرتےتھے کہ انھیں رات بھر شفیق کے کیمپ سے چیخ و پکارکی آوازیں آتی ہیں، جیسے کسی کو ازیت دی جارہی ہو۔ شفیق مینگل نے اپنے توتک کیمپ کے احاطے میں ہی گڑھے کھود رکھے تھے اور دوران ازیت اگر کسی کی موت ہوجاتی تو اسے وہی پر دفنایا جاتا تھا۔
ان اجتماعی قبروں کی نشاندہی دوہزار چودہ میں ایک چرواہے نے ہی کیا تھا۔ یہ اجتماعی قبریں کہا جاتا ہے کہ شفیق مینگل کے کیمپ میں بنائی گئی تھیں اور ان قبروں سے کل ایک سو انھتر لاشیں برآمد ہوئیں، جن کی حالت اس قدر خراب تھی کے بعذ کی صرف باقیات (ہڈیاں) ہی رہ گئی تھی۔ ان لاشوں میں سے صرف دو کی پہچان ہوئی جن کا تعلق بلوچستان کے علاقے آواران سے تھا۔
ان قبروں کی دریافت کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی ملٹری کمانڈ کو صورت حال کی سنگینی کا احساس ہوا اور وڈھ میں تعینات آئی ایس آئی کے افسران کو بھی تبدیل کیا گیا جبکہ اس علاقے میں انٹیلی جنس کی کمان بھی ایم آئی کے پاس آگئی۔اور اس دوران ایم آئی نے شفیق مینگل اور اس کے ساتھیوں کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن اس دوران شفیق مینگل توتک سے واپس وڈھ چلاگیا تھا۔
شفیق مینگل کو قابو کرنے کے کی پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیوں کی ابتک کی کی جانے والی کوششیں کچھ خاص کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔شفیق مینگل اب ایف سی،فوج، پولیس، سرکاری لیویز پہ خضدار اور گردونواح میں حملوں کا مرتکب ہوا ہے۔اس نے وڈھ کے قریب ریاستی سیکورٹی ایجنسیوں سے کئی مقابلے کئے ہیں
شفیق مینگل نے اپنے کھلی آزادی کا فائدہ اٹھا کر لشکرِ جھنگوی جیسے فرقہ وارانہ تنظیم میں اپنی ایک جگہ بنا لی تھی اور اسکے علاوہ افغان طالبان سے بھی گہرے روابط قائم کرلیئے تھے۔ بلوچ قوم پرستوں کے قتلِ عام کے بعد اسنے شیعہ ،صوفی سنّی ، ہزارہ اور ذکری کمیونٹیز پہ حملوں میں شدت پیدا کردی
کہا جاتا ہے کہ شفیق مینگل نے وڈھ کے علاقے باڈڑی میں ٹریننگ کیمپس قائم کررکھے ہیں۔
ان کیمپوں میں شفیق مینگل “داعش” اور “لشکر جھنگوی العالمی” نامی تنظیموں کے کارندوں کو ٹریننگ دیتا ہے۔ شفیق مینگل بلوچستان سمیت پورے خطےکے لیئے ناسور بن چکا ہے گو کہ بلوچ مسلح تنظیموں نے بھی شفیق مینگل پر متعدد حملے کیئے، جس میں سب سے نمایاں کوئٹہ شہر میں اسکے گھر پر خود کش حملہ تھا، جس کے نتیجے میں ڈیتھ اسکواڈ کے درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔
حال ہی میں کراچی میں پولیس چھاپے کے دوران پکڑے جانے والے مذہبی شدت تنظیم ‘انصارشریعہ’ کے کارندوں نے انکشاف کیا ہے کہ انھیں ٹریننگ بلوچستان کے علاقے وڈھ سے ملی ہے اور وہاں انکا ٹرینر عبداللہ بلوچ تھا۔ خیال رہے اس سے قبل سندھ سے پکڑے جانے والے دہشتگردوں نے بھی شفیق مینگل کے ٹریننگ کیمپس کا بتایا تھا اور ساتھ میں یہ انکشاف بھی ہوا تھا کہ شاہ نورانی کے درگاہ پر خود کش حملے کا پلان بھی وڈھ میں تیار ہوا تھا، اس حملے میں باون کے قریب زائرین کی موت ہوئی تھی۔
شفیق مینگل پاکستان کے اندر ڈیپ سٹیٹ ، جہادی پراکسیز کی پالیسیوں کے تحت تیار کئے جانے والے ان بہت سے عسکریت پسندوں میں سے ایک ہے جو آخرکار اپنے بنانے والوں کے دئے گئے فریم ورک سے نہ صرف نکل گئے بلکہ انہوں نے اپنے بنانے والوں کے خلاف بھی ان کی دی ہوئی تربیت کو استعمال کیا۔جہاد ازم ، تکفیر ازم کی نظریاتی فیکڑیاں اب بھی پورے ملک میں کام کررہی ہیں بلکہ کئی کالعدم جہادی تکفیری تنظیموں کو مین سٹریم کرنے کا پروجیکٹ سامنے آگیا ہے۔اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ کئی کور ناموں سے کام کررہی ہے۔جماعت دعوہ ملی مسلم لیگ کے نام سے سامنے آئی ہے اور حرکۃ المجاہدین انصار الامہ کے نام سے سامنے لائی جارہی ہے۔