مشغول حق ہوں بندگی بو تراب میں – عامر حسینی
اِقْتَـرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُـهُـمْ وَهُـمْ فِىْ غَفْلَـةٍ مُّعْرِضُوْنَ
لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ گیا ہے اور وہ غفلت میں پڑ کر منہ پھیرنے والے ہیں۔
مَا يَاْتِـيْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْهُ وَهُـمْ يَلْعَبُوْنَ
ان کے رب کی طرف سے سمجھانے کے لیے کوئی ایسی نئی بات ان کے پاس نہیں آتی کہ جسے سن کر ہنسی میں نہ ٹال دیتے ہوں۔
لَاهِيَةً قُلُوْبُـهُـمْ ۗ وَاَسَرُّوا النَّجْوَى الَّـذِيْنَ ظَلَمُوْا هَلْ هٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۖ اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَاَنْتُـمْ تُبْصِرُوْنَ
ان کے دل کھیل میں لگے ہوئے ہیں، اور ظالم پوشیدہ سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ تمہاری طرح ایک انسان ہی تو ہے، پھر کیا تم دیدہ دانستہ جادو کی باتیں سنتے جاتے ہو۔
قَالَ رَبِّىْ يَعْلَمُ الْقَوْلَ فِى السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ ۖ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْـمُ
رسول نے کہا میرا رب آسمان اور زمین کی سب باتیں جانتا ہے، اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
بَلْ قَالُـوٓا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ بَلِ افْتَـرَاهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌۚ فَلْيَاْتِنَا بِاٰيَةٍ كَمَآ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ
بلکہ کہتے ہیں کہ یہ بیہودہ خواب ہیں بلکہ اس نے جھوٹ بنایا ہے بلکہ وہ شاعر ہے، پھر چاہیے کہ ہمارے پاس کوئی نشانی لائے جس طرح پہلے پیغمبر بھیجے گئے تھے۔
مَآ اٰمَنَتْ قَبْلَـهُـمْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَهْلَكْنَاهَا ۖ اَفَهُـمْ يُؤْمِنُـوْنَ
ان سے پہلے کوئی بستی ایمان نہیں لائی تھی جسے ہم نے ہلاک کیا، کیا اب یہ ایمان لائیں گے۔
وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِىٓ اِلَيْـهِـمْ ۖ فَاسْاَلُـوٓا اَهْلَ الـذِّكْرِ اِنْ كُنْتُـمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
اور ہم نے تم سے پہلے بھی تو آدمیوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا ان کی طرف، ہم وحی بھیجا کرتے تھے اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھ لو۔
وَمَا جَعَلْنَاهُـمْ جَسَدًا لَّا يَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُـوْا خَالِـدِيْنَ
ہم نے ان کے ایسے بدن بھی نہیں بنائے تھے کہ وہ کھانا نہ کھائیں اور نہ وہ ہمیشہ رہنے والے تھے۔
ثُـمَّ صَدَقْنَاهُـمُ الْوَعْدَ فَاَنْجَيْنَاهُـمْ وَمَنْ نَّشَآءُ وَاَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِيْنَ
پھر ہم نے ان سے وعدہ سچا کر دیا تب انہیں اور جسے ہم نے چاہا نجات دی اور ہم نے حد سے بڑھنے والوں کو ہلاک کر دیا۔
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ ۖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
البتہ تحقیق ہم نے تمہارے پاس ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہاری نصیحت ہے، کیا پس تم نہیں سمجھتے۔
وَكَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَّّاَنْشَاْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا اٰخَرِيْنَ
اور ہم نے بہت سی بستیوں کو جو ظالم تھیں غارت کر دیا ہے اور ان کے بعد ہم نے اور قومیں پیدا کیں۔
وفی الصدر لبانات اذا ضاق لھا صدری
نکّت الارض بالکف وایدیت لھا سرّی
فمھما تنبت الارض فذاک النبت من بذری
“میرے سینہ میں کچھ اسرار ہیں، جب سینہ پھٹنے کو آتا ہے ، اپنے ہاتھ سے زمین کھود کر اپنے اسرار کو اسے بتاتا ہوں ۔ جب زمین سے کوئی گھاس اُگتی ہے، وہ گھاس میرے بیج کا ماحصل ہوتی ہے۔”
میں اتنی طویل تمہید باندھنے پہ معذرت خوا ہوں لیکن یہ بات کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے بہت ضروری ہے۔رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوچکا تھا۔اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اہل کوفہ کو بالخصوص اور اہل عراق میں ایک تحریک شروع کی ہوئی تھی اور وہ تھی اہل شام کے ساتھ فیصلہ کن لڑائی کے لئے ان کو تیار کرنا۔اور اس رمضان میں تو اس میں بہت تیزی آگئی تھی۔اور عجب بات تھی کہ ایک طرف تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اہل کوفہ کو فیصلہ کن جنگ کے لئے تیاری پہ زور دے رہے تھے تو ساتھ ہی ساتھ آپ کے وعظ و خطبات کے اندر فکر آخرت اور موت کا تذکرہ بڑھتا جارہا تھا اور ان خطبات و واعظ کو اگر بغور پڑھا جائے تو یہ ایک ایسے آدمی کا وعظ نظر آتا ہے جسے کہیں جانے کا علم ہوگیا ہو اور اس کے ہاں بڑی عجلت نظر آرہی ہو۔
آپ اہل کوفہ کو بار بار سمجھا رہے تھے کہ دشمن کے اپنے دروازے پہ آنے کا انتظار کرنے والی قوم کی قسمت میں تذلیل اور قتل ہونا لکھ دیا جاتا ہے۔نہج البلاغہ میں ایک جگہ کہتے کہ “مسند خالی ہوجائے تو پتا چلے گا “۔آپ اہل کوفہ کے توسط سے سب لوگوں کو بتارہے تھے کہ اگر اس لڑائی میں شکست ہوگئی تو وہ نظام پھر سے پلٹ آئے گا جس کے خلاف ایک طویل جدوجہد کی گئی تھی۔اور اس دوران اپنے قریبی دوست احباب کو یہ بھی بتایا جارہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے داڑھی کے خون سے بھرجانے کا جو ذکر کیا تھا ،اب اس کے مشہود ہونے کا وقت قریب آتا جارہا ہے۔
ویسے مقام اور کیفیت مقتل علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے بارے میں کافی روایات موجود ہیں لیکن مجھے اپنے ذوق اور وجدان کے قریب جناب میثم تمار کی روایت لگتی ہے اور اکثر آئمہ اہل بیت سے جو روایات مروی ہوئی ہیں وہ بھی میثم تمار کی روایت کی تصدیق کرتی ہیں۔میثم تمار کا کہنا ہے کہ جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم 19 رمضان المبارک کو فجر کے وقت گھر سے جامع مسجد کوفہ کی جانب روانہ ہوتے ہوئے لوگوں نماز کی طرف آنے کی منادی کررہے تھے تو اسی وقت تین لوگ ابن ملجم لعین کی قیادت میں زھر میں بھجی تلواریں لئے مسجد میں موجود تھے اور انہوں نے ان تلواروں کو چادروں میں چھپا رکھا تھا۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم مسجد میں داخل ہوئے۔اور جب جماعت کھڑی ہوئی تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے پہلی رکعات میں سورہ انبیاء کی 11 آیات تلاوت کیں۔۔۔۔۔۔۔ آیات کو پڑھ لیں اس وقت کی فضاء کے عین مطابق ہیں۔۔۔۔۔۔ پھر آپ رکوع میں گئے اور پھر سجدے میں پہنچے تو ابن ملجم نے تلوار سے آپ پہ وار کیا۔تلوار نے سر پہ زبردست ضرب لگائی اور آپ کے خون سے آپ کی داڑھی بھر گئی اور آپ کے منہ سے نکلا
رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا
زرا یہاں اور بھی تفصیل سامنے لانے کی ضرورت ہے کہ کیسے آپ کے قتل کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور کیا ذہنیت تھی آپ کے قتل کرنے والوں کی ۔۔۔۔۔۔
ابن جریر طبری نے لکھا ہے کہ تین خارجی عبدالرحمان ابن ملجم الحمیری ، برک بن عبد اللہ التمیمی اور عمرو بن بکر التمیمی جمع ہوئے اور انہوں نے اہل نہروان میں اپنے بھائیوں کے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ہاتھوں مارے جانے کا تذکرہ کیا اور ان کو ان سب پہ بہت ترس آیا اور وہ کہنے لگے: ہم نے ان کے بعد باوجود زندہ بچ جانے کے کیا کیا ہے؟وہ بہتر لوگ تھے، کثرت سے نماز پڑھنے والے اور لوگوں کو رب کی طرف بلانے والے تھے۔وہ اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے تھے۔اگر ہم اپنے نفوس کو پاکیزہ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں آئمہ ضلالت کے خلاف جانا ہوگا اور ان سب کو قتل کرنا ہوگا۔ہميں ان کے شہروں کا رخ کرنا ہوگا اور اپنے بھائیوں کا بدلہ لینا ہوگا۔
ابن ملجم نے کہا کہ میں علی ابن ابی طالب کو قتل کروں گا۔برک بن عبداللہ نے کہا کہ وہ معاویہ بن ابی سفیان کو جبکہ عمرو بن بکر نے کہا کہ وہ عمرو بن العاص کو قتل کرے گا۔
انہوں نے آپس میں عہد کیا اور توثیق کہ ان میں سے کوئی بھی اسے نہیں توڑے گا یہاں تک کہ یا تو اپنے ہدف کو قتل کردے یا خود موت کا شکار ہوجاؤ۔تو انہوں نے اپنی تلواریں زھر میں بجھا لیں۔اور انہوں نے 17 رمضان کو اپنے اپنے ہدف کے شہر میں داخل ہونے کا تعین کرلیا،تو ابن ملجم کوفہ کی جانب چلا اور وہ کوفہ میں داخل ہوگیا،اس نے اپنے مقصد کو اپنے خوارج اصحاب سے بھی مخفی رکھا۔پھر وہاں ابن ملجم نے دو اور آدمی اپنے منصوبے میں شریک کرلئے۔اور جب ابن ملجم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم پہ حالت نماز پہ حملہ کیا تو اس وقت ابن ملجم یہ کلمات کہہ رہا تھا: لا حکم الا اللہ کہ اللہ کے سوائے کوئی حکم نہیں ہے ۔۔۔۔حکم نہ تو اے علی تمہارے لئے ہے اور نہ آپ کے اصحاب کے لئے۔۔۔اور پھر یہ آیت پڑھی (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاةِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ)۔جب ابن ملجم کو پکڑ لیا گیا اور اس کے ہاتھ پیر باندھ دئے گئے تو اس سے لوگوں نے کہا : اے اللہ کے دشمن کیا تیرے ساتھ حسن سلوک نہ کیا گیا تھا ؟ تو اس نے کہا: کیوں نہیں بے شک”۔ تو پھر یہ کیا گیا تم نے ؟ اس نے کہا کہ ” میں نے چالیس دن تک عبادت کی اور اللہ سے پوچھا کہ کیا میں اسے قتل کردوں جو خلق میں سب سے شریر (معاذ اللہ، نقل کفر کفر ناباشد) اسے قتل کردوں۔یہ سنکر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا : میں تجھے قتل ہوتے دیکھتا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ تو ہی خلق کا شر ہے۔اور پھر فرمایا کہ اگر میں فوت ہوگیا تو اسے قتل کردینا اور میں زندہ رہا تو خود اس کا فیصلہ کروں گا۔
میثم تمار جن کو ایک عورت سے خرید کر آپ نے آزاد کردیا تھا اور آپ کا نام میثم بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے رکھا تھا اور ان کو اپنی جلوت و خلوت کا ویسے ساتھی بنارکھا تھا جیسے آپ نے قنبر کو غلامی سے آزاد کردیا تھا اور وہ بھی آزادی پاکر بھی در مرتضوی سے وابستہ ہوگئے تھے۔اور مجھے ایسی 18 رمضان المبارک کی رات کو جب ضربت کا وقت قریب آیا جاتا تھا تو سیدہ طاہرہ ہما علی رضوی نے کہا تھا کہ یہ جو مولائے کائنات کے ہاں عجمی غلاموں کو آزاد کرنا اور پھر ان کی تربیت کرکے ان کو اوج علم پہ پہنچانا اور وہ مرتبہ عطا کرنا کہ خود عربوں کو حاصل نہ تھا دراصل آقائے دوجہاں ،سرور قلب و سینا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پہ چلنا تھا۔ آپ نے بھی حضرت بلال حبشی ،حضرت سلمان فارسی کو وہ مرتبہ عطا کیا کہ لوگ اش اش کراٹھتے تھے، ایسے زید کو جو رتبہ بخشا تھا وہ بھی ایک مثال تھی۔ آپ نے بھی قنبر اور میثم تمار کو وہ رتبا بخشا کہ کئی عرب اس پہ رشک کرتے ہیں۔
جبرائیل و قنبر پر کیا منحصر ،در تیرا چھوڑ کے کوئی جاتا نہیں
جو غلامی کا تری مزا پاگیا، راس تیری جسے نوکری آگئی
میثم تمار نے آزادی پانے کے بعد خرمہ فروشی شروع کردی تھی۔اور آپ کوفہ کے بازار میں خرمہ بیچا کرتے تھے اور اسی وجہ سے آپ کو تمار کہا جاتا تھا۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم باقاعدگی سے میثم کی دکان پہ جایا کرتے تھے اور میثم کو اکثر ساتھ رکھتے تھے۔ایک ایسی ہی رات کو میثم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو ایک کنويں میں جھک کر باتیں کرتے دیکھ لیا تھا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے ان کو کہا تھا
میرے سینہ میں کچھ اسرار ہیں، جب سینہ پھٹنے کو آتا ہے ، اپنے ہاتھ سے زمین کھود کر اپنے اسرار کو اسے بتاتا ہوں ۔ جب زمین سے کوئی گھاس اُگتی ہے، وہ گھاس میرے بیج کا ماحصل ہوتی ہے۔
یہ آخری ایام کی راتوں میں سے ایک رات تھی۔میثم تمار ان رازدانوں میں سے ایک تھے جن کو پتا تھا کہ فکر ثابت کے سب سے بڑے ستون گرنے کا وقت آپہنچا ہے۔
اور جب وہ گھڑی آئی تو میثم تمار وہیں مسجد میں موجود تھے۔جب آپ کی داڑھی خون سے بھرگئی تو یقینی بات ہے کہ ان کو یاد آیا ہوگا کہ جب ایک بار آپ شدید بیمار پڑے اور لوگوں کو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ آپ کی وفات نہ ہوجائے تو آپ نے فرمایا تھا کہ فکر مت کرو جب تک میری داڑھی خون سے بھر نہیں جائے گی تب تک مجھے موت نہیں آئے گی۔اور آج خون سے آپ کی ڈاڑھی رنگی گئی تھی۔میثم تمار سمیت سب موجود ساتھیوں کی آنکھیں ساون بھادوں بنی ہوئی تھیں۔میثم تمار کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے آنے والے وقت بارے کافی کچھ بتادیا۔
ابن ملجم کی تلوار جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے سر سے ٹکرائی تو اصل میں یہ شہر علم کے دروازے کو کاٹ ڈالنے کا سفر تھا۔اور بقول سیدہ شہر بانو اسی لئے تو ابن ملجم نے تلوار چلاتے ہوئے قرآن کی تشریح کا حق غاصبانہ طور پہ اپنے ہاتھ میں لیا جو کہ منصب خود امام علی کا تھا ۔۔۔ جب وہ لا حکم الا اللہ بلند کررہا تھا اور ابتغاء اللہ کے لئے اپنی جان کے سودے کا دعوے دار تھا تو وہ ” الٹے بانس بریلی کو ” والا کام کررہا تھا۔جس شہر ميں داخلے کا واحد راستا ہی علی تھے وہ اس دروازے کو مسدود کرنے کو لگا تھا۔آج کے تکفیریوں کو دیکھ لیں کہ ابھی ایک دن گزرا ہے جب تحریک طالبان پاکستان نے ایک خط جاری کیا جس میں انہوں نے اعتزاز حسن شاہ سے شہید ہونے کا ٹائٹل چھین لینے کی کوشش کی اور یہ بتانے کی کوشش کی یہ ان کا حق بنتا ہے کہ کسے شہید کہیں اور کسے نہ کہیں۔یہ کثرت نماز ، کثرت جہاد کے دعوے دار ہیں اور ان کی خون آشامی ان کو عین دین لگتی ہے۔ابن ملجم اور اس کے ساتھی بھی اپنے آپ کو نیک و پرہیزگار خیال کرتے تھے۔
آپ کا وقت جب قریب آیا تو میثم تمار کہتے ہیں کہ آپ کی زبان پہ کلمہ طیبہ جاری تھا اور پھر آپ نے یہ آیت پڑھی
فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ * وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ
جس نے ذرہ بھر بھی خیر کی اسے اس کا بدلہ ملے گا اور جس نے ذرہ بھر بھی شر کیا تو وہ اس کا بھی بدلہ پائے گا۔
اس کے بعد آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔
ابن ابی الحدید شافعی رحمۃ اللہ علیہ شارح نہج البلاغہ نے جناب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان میں ایک قصائد لکھے جن کو قصیدہ علویہ کہا جاتا ہے۔اسے یہاں لکھنے کو بہت دل چاہ رہا ہے۔اور میں اس کا ترجمہ کرنے سے قاصر ہوں بس کچھ اشارے کرتا جاؤں گا ۔سمجھنے والے سمجھ جائیں گے:
ابن ابی الحدید نجانے کس کیفیت میں تھے جب انھوں نے یہ قصیدہ لکھا کیونکہ اس کی فضا ہی ملکوتی ہے۔ابن ابی الحدید برق /روشنی کو مخاطب کرتے ہیں اور کہتے ہیں وہ جو تاریکیوں کو کاٹتی ہے اور سیاہی کو سفیدی میں بدل ڈالتی ہے اگر یہ کبھی نجف آئی تو میں اسے کہوں گا کہ یہ ایسی زمین موعود میں آئی ہے جس میں ابن عمران و کلیم اور اس کے بعد یسوع مسیح اور احمد مجتبی بلکہ جبرائیل و اسرافیل و میکائل ہیں اور تمام ملاء مقدس یہاں جمع ہیں اور یہاں پہ نور اللہ ہے جن سے آنکھیں روشن اور بھر جاتی ہیں۔اس میں امام علی المرتضی ، وصی المجتبی ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ بطین ہیں۔مجھے نہج البلاغہ کی تعلیم دینے والی ہستی کہا کرتی تھی کہ بطین قول رسول اللہ کی جانب اشارہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ سینہ علی کرم اللہ وجہہ الکریم جتنے علوم ابتک منتزع ہیں سب کا امین ہے۔ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ اگر علی نہ ہوتے تو پھر کچھ بھی نہ ہوتا اور کہا کہ عالم علوی ہے کہ سوائے اس کے آپ کا جثہ جس تربت میں ہے اس مقام کے۔بھلا بطین کو کوئی جان سکا ہے کیا کبھی؟