پاکستان کا انتہائی قدامت پرستی کی جانب جھکاؤ: الھدی جیسے ادارے پاکستانی ثقافت کے نام پہ سعودی وہابی ثقافت کا پروپیگنڈا کرتے ہیں – آخری حصّہ – مستجاب احمد
صدف احمد جو پاکستان کی مایہ ناز انتھروپالوجسٹ ہیں اور الھدی انسٹی ٹیوٹ جیسے اداروں کے پاکستانی کلچر پہ اثرات بارے لکھتی رہتی ہیں کہتی ہیں، ” اس طرح کی کلچرل پروڈکشن سے جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں وہ کئی سطحوں پہ دیکھی جاسکتی ہیں۔ وہ عورتوں کی ظاہری شباہت میں دیکھی جاسکتی ہیں، جیسے کہ ان میں پبلک میں حجاب اور عبایا پہننے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔یہ پرے کی ایک ایسی شکل ہے جو پہلے پاکستان کے اندر موجود نہ تھی بلکہ عرب سے یہاں آئی ہے۔دکانوں پہ اب ریڈی میڈ عبایا کی فروخت ایک بڑا منافع بخش کام سمجھا جانے لگا ہے۔اور روایتی چادروں کی تیاری کا کاروبار پیچھے رہ گیا ہے۔
اس کی دوسری مثالیں اس ثقافتی ميٹریل کی پروڈکشن میں اضافہ ہے جو سعودی مذہبی کلچر سے لیا گیا ہے جیسے مصلی اور کعبہ وغیرہ کے ڈیکوریشن ٹکڑے اب گھروں میں عورتوں میں لگانے کا رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔اور الھدی جیسے اداروں سے جو عورتیں پڑھتی ہیں ان کے گھروں میں جانوروں اور انسانی اشکال کی پینٹنگ ،تصویریں اور کرسٹل فارم کے ڈیکورشن پیس کی جگہ کعبہ ، مسجد الحرام، اور دیگر ڈیکوریشن پیس لے رہے ہیں۔اور تبدیلی صرف مادی نمائش کی چیزوں میں ہی نہیں آرہی بلکہ یہ رویوں اور فکر میں بھی بہت واضح ہے اور یہ جو رویوں اور فکر میں بدلاؤ ہے یہ ثقافتی رویوں میں بدلاؤ واضح کرتا ہے۔بہت سی عورتوں نے شادی بیاہ میں گدے ڈالنا ، لڈی ڈالنا اور ڈھولک کی تھاپ پہ گیت وغیرہ گانا اور تیل بان و مہندی جیسی رسوم کو ترک کردیا ہے”۔
نوٹ: سعودی وہابی ثقافتی آئیڈیالوجی کے اشتراک میں پاکستانی ثقافت پہ جو حملے الھدی جیسے اداروں نے کئے ہیں اس سے پاکستان کے اپنے کلچر کی بنیادوں تک کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔حال ہی میں سندھی میں کاکا شہر بانو نے اپنے ایک نوٹ بعنوان لڑکیوں ميں پردے کی وجوہات میں لکھا ہے کہ کراچی یونیورسٹی ہو کہ سندھ یونیورسٹی وہاں پہ عربی عبایا اور حجاب کی بھرمار ہے اور ایسے لگتا ہے جیسے ہم کسی جدید یونیورسٹی میں نہیں بلکہ کسی مدرسے میں آگئے ہیں۔اور اب تو اکثر شادی بیاہ کے فنکشنز میں سہرے بندی، مہندی اور بارات و ولیمے کے موقعہ پہ گانا بجانا ، روایتی رقص کی بجائے مولویوں کو بلاکر وعظ کی روایت مقبول ہوتی نظر آرہی ہے۔سعودی سٹائل بھی کافی مقبول ہے۔
الھدی کے لیکچرر باقاعدگی سے سعودی مفتی اعظم عبداللہ بن عزیز بن عبداللہ بن باز کے فتوؤں کا حوالہ دیتی ہیں۔وہ سیاسی لیڈروں کو کرپٹ ، بدعنوان کہہ کر ان کی مذمت کرتی ہیں لیکن ان کی اتھارٹی پہ سوال اٹھانے کو منع کرتی ہیں۔۔۔۔یہ بھی اسلامی متون کی سعودی تعبیر کا اثر ہے جو حاکموں کی اطاعت کو مذہبی فریضہ کہتی ہے۔تاہم کہیں کہیں سعودی عرب پہ تنقید بھی الھدی کی لیکچرز میں سرایت کرتی نظر آتی ہے۔اگر ایک عشرے پہلے لیکچرار سعودی عرب کی تعریف کرتی تھیں اب وہ شامی مہاجرین کے ایشو پہ سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔
نوٹ: لیکن یہ لیکچرار کیا سعودی عرب کی یمن پہ جارحیت وہاں پیدا ہوئے انسانی المیہ پہ سعودی عرب پہ تنقید کرتی ہیں؟ہرگز نہیں۔
نجم دردانہ کہتی ہیں کہ ان کی لیکچرار سعودی عرب کے مسلمانوں کی جانب عمومی اور فلسطینوں کی جانب خصوصی سرد رویہ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتی تھیں۔
نوٹ: اس کی وجہ مصر ميں سعودی عرب کی جانب سے اخوان المسلمون کے اقتدار کو ختم کرنے کی حمایت، اخوان المسلمون پہ پابندی لگوانے اور حماس کی ایرانیوں سے تعلقات کی وجہ سے مخالفت اور اسرائیل کے سعودی عرب سے بڑھتے اشتراک کے سبب مسئلہ فلسطین سے اغماض برتنا ہے۔اور سب سے بڑھ کر بہار عرب میں اخوان المسلمون کا عرب بادشاہتوں کے خلاف عوامی تحریک میں کھڑے ہوجانا اور ووٹ پاور کے زریعے سے اسلامی انقلاب لانے کی بات کرنا بھی تھا،اس کا اثر پاکستان اور ہندوستان میں اخوان المسلمون سے اشتراک رکھنے والے سلفی،دیوبندی ، جماعت اسلامی حلقوں پہ بھی ہوا۔ہندوستان میں ندوۃ العلماء دارالعلوم لکھنؤ کے مہتمم سلیمان ندوی کا رد عمل سامنے آیا اور انہوں نے سعودی عرب کے خلاف تقاریر کیں۔ایسے ہی پاکستان میں دیوبندی عالم زاہد الراشدی کی جانب سے سعودی عرب کی مذمت اور اخوان کی تعریف کی گئی ،ایسے ہی الھدی میں بھی اس پہ کافی تقسیم دیکھنے کو ملی۔
جماعت اسلامی پاکستان نے آفیشل طور پہ اس معاملے میں چالاک پالیسی اپنا رکھی ہے۔یہ القاعدہ کی بھی حمایت کرتی ہے اور داعش بارے اس کے نچلے سرکل سے آواز اٹھتی ہے، یہ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان بارے بھی آفیشل طور پہ کوئی بیان نہیں دیتی لیکن ہر قسم کے فوجی آپریشن کی مخالف ہے۔یہ مصر کی فوج بارے انتہائی سخت بیان جاری کرتی ہے اور اخوان کی حمایت کرتی ہے لیکن سعودی عرب-اسرائیل کے باہمی بڑھتے تعاون پہ خاموش ہے اور شام کے ایشو پہ بھی سعودی لائن فالو کرتی ہے۔اور کھل کر سعودی عرب کو نشانہ نہیں بناتی۔اخوان المسلمون کی اپنی پالیسی مختلف ممالک میں سعودی عرب بارے یکساں نہیں ہے،یہ یمن میں سعودی جارحیت کا ساتھ دے رہی ہے جیسے یہ شام میں سعودی عرب کے موقف کے ساتھ ہے اور کھل کر سعودی عرب۔اسرائیل کے باہمی تعلقات پہ کوئی بیان تک جاری نہیں کرتی۔
ہاشمی، سعودی حمایت یافتہ انتہائی قدامت پرست(سلفی،دیوبندی ملائیت ،جماعت اسلامی) اور سلفی۔دیوبندی عسکریت پسند اشرافیہ کو نشانہ بناتے ہیں جو جدیدیت کے ساتھ معاملات پہ اپنی گرفت کی تلاش کرتے ہیں۔ان کی آرزو اور جستجو نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے سماجی گروپوں کے ساتھ ملتی ہے جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ معاشرے میں ان کا کوئی حصّہ ہی نہیں ہے اور ان کی اس جستجو کو مزید طاقت پاکستانی پیش رو حکومتوں سے ملی ہے جو کہ سیاست میں مذہب کے کارڈ کو کھیلتی رہی ہیں۔جنھوں نے انتہائی قدامت پرست سلفی و دیوبندی عسکریت پسندوں کی حمایت کی اور انتہا پسند، فرقہ وارانہ،فرقہ وارانہ و جہادی مدرسوں کو پھلنے پھولنے میں مدد کی۔اور سعودی عرب کی مالی امداد سے فائدہ اٹھایا۔
انتہائی قدامت پرست سلفی،دیوبندی و جماعتی عناصر کی جانب سے یہ الڑا کنزرویٹو ازم حکومت کے انتہائی اہم اداروں میں سرایت کرچکا ہے اور بہت سے سینئر ملٹری و انٹیلی جنس آفیشل جنرل ضیاء الحق کی جانب سے شروع کردہ جہاد پروجیکٹ کے سبب الڑا کنزرویٹو تحریکوں میں شامل ہوگئے ہیں۔
ہاشمی اس بات کو مانتی ہیں، ” ان کی کامیابی کا ایک سبب دنیا ھر میں مقبول سیاسی ںطاموں اور قیادتوں سے عوامی اعتماد کا اٹھ جانا بھی ہے۔پاکستان کی عوام کی امیدیں جب سے پاکستان بنا ہے ملیا میٹ کی جاتی رہی ہیں۔ان میں دھوکہ دئے جانے اور مایوسی کا احساس بہت گہرا ہے۔یہاں تک کہ سیاسی اسلام بھی ان کی امیدوں پہ پورا نہیں اترا۔ان میں رہنمائی اور سمت کی تلاش ہے۔میں اپنے سے رجوع کرنے والوں کو اس سکون سے آشنا کرانا چاہتی ہوں جو مجھے قرآن ( یہاں قرآن سے مراد قرآن کی وہابی الٹرا کنزرویٹو تعبیر ہے) میں ملا۔جب لوگوں کو کسی شئے سے فائدہ ملتا ہے تو وہ اس کی جانب ٹوٹ پڑتے ہیں”۔
عائشہ صدیقہ نے پاکستانی ایلیٹ/اشرافی یونیورسٹیوں کے طلباء میں مذہبی جنونیت اور انتہائی قدامت پرستی کے رجحانات پہ ایک اسٹڈی کے دوران یہ دیکھا،” الھدی جیسے ادارے اپنے سماجی اثر میں پھیلاؤ کے لئے بعض ان اقدار اور چیزوں کو قبول کرلیتے ہیں جو ویسے تو لبرل اقدار کہہ کر مسترد کی جاتی رہی ہوتی ہیں”۔عآشہ صدیقہ کا موقف یہ ہے کہ الٹرا کنزرویٹو ازم اور ریڈیکل ازم مقبول ثقافت کا حصّہ ہے جو معاشرے کے مختلف حصوں کو پرکشش لگتا ہے۔” ہم اور وہ ” جیسے سٹیریو ٹائپ ایک ایسے کلچر /ثقافت کو مقبول بناتا ہے جو سماجی حقیقت کے مقابلے میں ایک چھوٹے سے گروہ کو زیادہ طاقتور اور بااختیار بناڈالتا ہے۔عائشہ صدیقہ اس ساری صورت حال کا تجزیہ یوں کرتی ہیں
“امریکہ نے افغانستان اور عراق پہ حملے کئے اور نائن الیون کے بعد سے اسلاموفوبیا کا ابھار ہوا تو اس نے تہذیبوں کے تصادم کے ابھار اور اس بارے احساس کو طاقتور کردیا۔مغرب نے مسلمانوں کے اندراج پہ جب زور دیا اور ان میں الگ کردئے جانے کا احساس پیدا ہوا اور وہ برابر نہ جانے کے احساس سے دوچار ہوئے مغرب میں تو اس سے ان میں بہت سوں کے درمیان اپنی مذہبی شناخت سے جڑجانے کا گہرا احساس جاگا۔امتیازی سلوک اور تعصب کے نشانہ بننے کے احساس نے پاکستانی اپر کلاس کو مڈل ایسٹ اور ہر جگہ مسلمانوں کی حالت زار بارے حساس کیا۔اور یہ ریڈیکل ازم کی سرحد کو چھونے والی مذہبیت تھی جس کا جنم پاکستانی اپر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کے اندر دیکھنے کو ملا”۔
وہ کہتی ہیں،” سعودی مالیات و نظریات کے ساتھ پاکستانی سیاسی لیڈروں ميں موجود موقعہ پرستوں کی شادی نے غیر مطمئن اشرافیہ کے اندر بڑے پیمانے پہ ریڈیکل مذہبیت کو جنم دیا۔فرقہ پرستی، عدم برداشت نہ صرف غیر مسلم مذہبی اقلیتوں کی جانب بڑھی بلکہ خود مسلمانوں کی جانب بڑھ گئی،تکثریت کو مسترد کردیا گیا اور متبادل لائف سٹائل سعودی وہابیت سے ہٹ کر اور بنیادی آزادیوں کو سرے سے رد کردیا گیا۔یہ صرف داڑھی اور حجاب نہیں ہیں جو ان کے انتہائی کنزرویٹو ازع کی علامت ہیں۔ یہ ان کا وہ نکتہ نظر اور فکر بھی ہے جو خارجیت پسند ہے اور اختلاف و تنوع کو برداشت ہی نہیں کرتی اور نہ ان کو موجود رہنے دیتی ہے۔ سعودی حمایت یافت انتہائی قدامت پرستی اور الھدی کی تعلیمات کے اندر ریڈیکل ازم چھپا ہوا ہے۔یہ خارجیت پسندی کا رجحان ہے جو شمار پسندی اور صلح کلیت کو پسند نہیں کرتا اور دوسری براداریوں اور مذہبی عقائد کو بھی برداشت نہیں کرتا۔
ایسا رویہ لوگوں کو کسی فرد یا کمیونٹی اور ایک ذیلی سماجی گروہ یا ایک قوم کے خلاف صرف اس وجہ سے اکساتا ہے کہ وہ مذہب کی تعبیر یا تشریح ان کے مطابق نہیں کرتی۔اور اپنی انتہا میں یہی نظریہ لوگوں کو دہشت گردی کی جانب لیجاتا ہے۔یہ ایک خاص فیشن میں ذہنوں کو تیار کرتا ہے جو بعد کے مرحس میں وائلنس کی طرف پلٹ جاتے ہیں یا پھر فعال ریڈیکل ازم کی جانب پلٹ جاتے ہیں۔روایتی چیزوں کو چیلنج کرپانے کی نااہلی اور دنیا کو متعصب عدسوں سے دیکھنا خاص طور پہ اسے مذہبی اوور ٹون سے رنگنا یا مذہبی عقیدوں سے اسے ملانا ایک ایسا ذہن تیار کرتا ہے جو عسکریت پسند تنظیموں کے پیغام کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے”۔
ڈاکٹر پرویز ھودبھائی کہتے ہیں،” پاکستانی ثقافت جو کبھی بہت متحرک ہوا کرتی تھی کی سعودیانے کا عمل تیز رفتاری سے جاری ہے۔اور مرد و عورتوں کو الگ الگ خانوں میں بانٹ کر رکھنے کی مہم اب تعلیم یافتہ عورتوں کے اندر بھی مقبول ہوچکی ہے۔بہت سی مبلغائیں میدان میں ہیں اور اپنا پیغام پھیلارہی ہیں جیسے فرحت نسیم ہاشمی ہے اور یہ سب ہمارے سماج میں کافی مشہور اور مقبول ہوچکی ہیں۔ان کی کامیابی بہت واضح ہے۔دو عشروں پہلے پاکستانی یونیورسٹیوں میں نقاب و عبایا بہت کم تھا بلکہ نایاب تھا۔عبایا کا تو لفظ ہی اردو میں موجود نہ تھا۔آج کچھ دکانیں تو عبایا کے برانڈ سے ہی مشہور ہیں۔
پاکستان میں اب بہت سارے کالجز اور اسکول ایسے ہیں جہاں عورتوں کو اب برقعوں سے ہی پہچانا جاتا ہے اور ایسے بھی ہورہا ہے کہ اب اپنا چہرہ جو لڑکی کھلا رکھے اسے ماڈرن کہا جانے لگا ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ عبایا اور حجاب رویوں اور طرز خیال پہ اثر انداز ہوتا ہے۔میری بہت سی خاتون شاگرد جو کہ حجاب لینے لگیں تو وہ خاموشی سے نوٹ بک پہ نوٹس لینے والی بن گئیں اور کسی بھی بحث میں ان کے حصّہ لینے اور سوال اٹھانے میں خاصی کمی واقع ہوئی۔ایسے رویے یونیورسٹی میں ایک نوجوان خاتون کے اعتماد میں کمی کو ظاہر کرتے ہیں”۔
فکشن رائٹر ولیم ڈال ریمپل کا کہنا ہے،” جنوبی ایشاء میں اسلام بدل رہا ہے۔16ویں صدی کے یورپ کی طرح جب وہاں پہ تحریک احیائے علوم کے لئے ریفارمیشن کی تحریک چل رہی تھی تو اصلاح پسند، پیورٹن بھی عروج پکڑ رہے تھے،موسیقی،تصاویر ، فیسٹولز اور تصوف کی باطنیت اور اولیاء اللہ کی مافوق الفطرت صلاحتیوں پہ عدم اعتماد جاری تھا۔مزارات کو مسترد کیا جارہا تھا،کرسچن یورپ میں وہ صرف متن کو ہی واحد اتھارٹی کہتے تھے اور نئی نئی تعلم یافتہ ہوئی اربن مڈل کلاس سے اپنے حامیوں کی بھرتی کی جاتی تھی جو کہ ناخواندہ کسانوں کے رسوم و رواج کو کرپٹ مافوق الفطرت اعتقادات کا سب خیال کرتے تھے۔ سخت گیر وہابی سلفی بنیاد ترستی پاکستان کے اندر اس قدر تیزی سے آگے بڑھی ہے تو اس کا ایک سبب سعودی عرب کی جانب سے بہت سے مدرسوں کی تعمیر میں مالی مدد فراہم کرنا ہے جس نے ریاست کے تباہ شدہ تعلیم کے سیکٹر سے پیدا ہونے والے خلاء کو پر کرنے میں مدد دی ہے”۔
الھدی کے سلفی وہابی تصورات طلباء کو ان نظریات کی بازگشت معلوم ہوتے ہیں جو ان کو ان ثقافتی ضابطوں میں موجود ہوتے ہیں جو انھوں نے ایلیمنٹری اور سیکنڈری کلاسوں میں نصاب کے اندر پڑھائی جانے والی کتابوں سے تعمیر کئے ہوتے ہیں۔پاکستان کے مایہ ناز مورخ خورشید کمال عزیز جن کو کے کے عزیز کے نام سے جانا جاتا ہے انہوں نے یہ نوٹ کیا کہ پاکستانی تاریخ کی نصابی کتابیں پاکستانی تاریخ کو 712ء سے محمد بن قاسم کے سندھ پہ حملے سے شروع کرتی ہیں۔اور یہ تصور گری بہت سے پاکستانی مورخوں اور تجزیہ کاروں اور زیادہ پھیلائی ہے جیسے سکالر کامران احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بہت کم لوگ ہوں گے جو حملہ آور افواج کے ساتھ یہاں برصغیر آئے ہوں گے جبکہ اکثریت ککے آباء واجداد یہیں کے رہنے والے تھے اور وہ مذہب بدل کر مسلمان ہوگئے۔اور ان کو کبھی عرب ، فارسی اور افغان حکمران طبقات نے اپنے برابر نہیں سمجھا۔
احمد جو کہ پاکستانی انتھروپالوجسٹ ہیں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومتوں نے سالہا سال سے پاکستان کی مسلم شناخت کو تسلط شدہ مذہبی نیشنلسٹ ڈسکورس کے پروپیگنڈے کے ساتھ پاکستان کے بندھن کو اسلام سے جوڑتے ہوئے طاقتور کیا ہے۔اور اس ڈسکورس کی انٹرنیشنلائز ہونے کی وجہ سے مڈل کلاس کے بہت سے لوگ الھدی کی اسلامی وہابی آئیڈیالوجی کو قبول کرتے ہیں جو کہ ان کی وہابی مسلم شناخت کو نمایاں کرتی اور اس دھرتی کی تاريخ سے منکر ہوکر اسے 712ء میں محمد بن قاسم کی فتح سے جوڑکر دیکھتی ہےاور باقی سب چیزوں کو غیر اسلامی کہہ کر تنقید کرتی ہے۔
اسلام کی تنگ نظر تعبیر اور پاکستان کی غیر مسلم تاریخ کو نظرانداز کرتے ہوئے الھدی سعودی عرب سے متاثرہ فکر کو عصر حاضر کے تقاضوں سے جوڑکر پیش کرتے ہوئے پاکستانی معاشرے کی ساخت کو بدلنے کی کوشش کرتا ہے اور سعودی ماڈل کو ایک ریپبلکن ورژن کے ساتھ پیش کرتا ہے۔الھدی ایک درسگاہ سے سماجی تحریک میں بدل گیا ہے اور احمد کامران کے بقول یہ پاکستان کے درمیانے اور امراء کے شہری طبقات میں اپنی جگہ بنا چکا ہے اور دوسرے مذہبی گروپ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔اس کی شہری عورتوں میں کامیابی ہمیں بتاتی ہے کہ کیسے عورتیں اپنی آئیڈیالوجی ،رویے ، لائف سٹائل اس مذہبی ڈسکورس کے ساتھ بدلتی ہیں جو ان کے اندر اس وقت جڑ پکڑتا ہے جب وہ اس اسکول میں پڑھ رہی ہوتی ہیں۔اور اس جوش بھی اس کامیابی کا اندازہ ہوتا ہے جس سے یہ عورتیں مختلف اشکال میں اس دعوت کو پھیلانے کا کام کرتی ہیں۔
Notes:
[i] James M. Dorsey, Creating Frankenstein: The Saudi Export of Wahhabism – Remarks at 2016 Exeter Gulf Conference, The Turbulent World of Middle East Soccer, 24 August 2016, https://mideastsoccer.blogspot.jp/…/creating-frankenstein-s…
[ii] Interview with the author, 11 April 2017
[iii] Interview with the author, 11 April 2017
[iv] Interviews with journalist Hamid Mir and Abdullah Khan, managing director of the Pakistan Institute for Conflict and Security Studies, 12 April 2017
[v] Email to the author, 12 April 2017
[vi] Farroukh Choudhary, Dr.Zakir Naik expressing his views about Dr Farhat Hashmi & Al-Huda International, You Tube, 24 March 2011, https://www.youtube.com/watch?v=HGpBHqBX2yw
[vii] Faiza Mushtaq, New Claimants to Religious Authority: A Movement for Women’s Islamic Education, Moral Reform and Innovative Traditionalism, Unpublished PhD Dissertation, Northwestern University, December 2010, p. 152
[viii] Interview with the author, 19 April 2017
[ix] Dawah Radio, 26 March 2008, http://www.download.farhathashmi.com/…/1-Dawah-Radio-26th-M…
[x] Ibid. Mushtaq, p. 159
[xi] Email to the author, undisclosed date
[xii] Imtiaz Ahmed, Al-Huda: Pakistani institute that ‘radicalised’ thousands of women, Hindustan Times, 15 December 2015, http://www.hindustantimes.com/…/story-URzRLlvzbb3npYJY5I9yc…
[xiii] Multiple interviews with Sipah-i-Sabaha leaders July 2016 – April 2017
[xiv] Interview with Atif Iqbal, 11 April 2017
[xv] Interview with Pakistani bankers, 11 April 2017
[xvi] Interview with journalist and author Khaled Ahmed, 18 April 2017
[xvii] Al Huda International Welfare Foundation, Audited Financial Statements for the Year Ended June, 30, 2015, https://www.alhudapk.com/Reports/Audit-report-2015.pdf
[xviii] Interview with Pakistani bankers, 11 April 2017
[xix] Interview with the author, 12 January 2017
[xx] Interview with the author, 11 April 2017
[xxi] Interviews with students and graduate of Al Huda in the period between July 2016 and January 2017
[xxii] Aliyah Saleem, Al-Huda school is an institute of Islamist zeal, The Australian, 16 December 2015, http://www.theaustralian.com.au/…/3e71ba2b82c906211b7b3b6bc…
[xxiii] Farhat Hashmi, How To Guard Your Husband’s Honor As Allah Has Commanded, Quran For All, 26 July 2008, https://farhathashmi.wordpress.com/…/how-to-guard-your-hus…/
[xxiv] Email to the author, 26 January 2017
[xxv] Faiza Mushtaq, A Controversial Role Model for Pakistani Women, South Asia Multidisciplinary Academic Journal, Vol 4, 2010
[xxvi] Interview with the author, 13 January 2017
[xxvii] http://www.alhudapk.com/
[xxviii] Al Huda International Welfare Foundation, https://www.alhudapk.com/
[xxix] Interview with the author, 13 January 2017
[xxx] Interview with the author, 13 January 2017
[xxxi] Ibid. Mushtaq, p. 193
[xxxii] Ayesha Saleem, Aliyah Saleem’s life at the Islamic women’s institute, The Times, 14 December 2015, http://www.thetimes.co.uk/tto/life/article4638802.ece…
[xxxiii] Ibid. Sadaf Ahmad, Identity matters
[xxxiv] Ibid. Sadaf Ahmad, Identity matters
[xxxv] Anonymous, Does Al-Huda have strains of Taliban ideology within its teachings? The Express Tribune, 9 December 2015, http://blogs.tribune.com.pk/…/does-al-huda-have-strains-of…/
[xxxvi] Tim Craig, Pakistan is still trying to get a grip on its madrassa problem, The Washington Post, 16 December 2016, https://www.washingtonpost.com/…/e626a422-a248-11e5-9c4e-be…
[xxxvii] Declan Walsh, Tashfeen Malik Was a ‘Saudi Girl’ Who Stood Out at a Pakistani University, The New York Times, 6 December 2015, http://www.nytimes.com/…/in-conservative-pakistani-city-a-s…
[xxxviii] Tim Craig, Abby Phillip and Joel Achenbach, From pharmacy student to suspected San Bernardino terrorist: The baffling journey of Tashfeen Malik, The Washington Post, 5 December 2015, https://www.washingtonpost.com/…/c14a4b6e-9b80-11e5-94f0-9e…
[xxxix] Sara Mahmood and Shahzeb Ali Rathore, Online Dating of Partners in Jihad: Case of the San Bernardino Shooters, RSIS Commentary, 18 January 2016, http://www.rsis.edu.sg/wp-content/uploads/2016/…/CO16006.pdf
[xl] William Finnegan, Last Days, Preparing for the apocalypse in San Bernardino, The New Yorker, 22 February 2016, http://www.newyorker.com/…/preparing-for-apocalypse-in-san-…
[xli] Khaled Ahmed, Daughters of Al Huda, 21 August 2010, The Express Tribune, http://tribune.com.pk/story/41523/daughters-of-al-huda/
[xlii] Interview with the author, XXX
[xliii] Ibid. Saleem, Al Huda
[xliv] Shamila Ghyas, Al-Huda mightn’t be linked to terrorism, but Farhat Hashmi’s misogynistic and Shiaphobic institute is a hub of radicalization, The Nation, 10 December 2015, http://nation.com.pk/…/al-huda-mightn-t-be-linked-to-terror…
[xlv] Ibid. Saleem, Al Huda
[xlvi] Ibid. Saleem, Al Huda
[xlvii] Al Huda International Welfare Foundation, Official Statement on California Shooting, Undated, http://www.alhudapk.com/officialstatement
[xlviii] Interview senior Pakistani counter-terrorism official, 15 April 2017
[xlix] Sharmeen Obaid-Chinoy, Islamic School for Women Faithful or Fundamental? Globe and Mail, 2 March 2012, https://amityindias.blogspot.jp/…/islamic-school-for-women-…
[l] Ibid. Mushtaq, New Cliamants, p. 212
[li] Ibid. Obaid-Chinoy
[lii] Al-Huda International, When Disaster Strikes, 2005
[liii] Interview with the author, 23 February 2017
[liv] John Goodard and Noor Javed, Canada tells Muslim speaker to stay home, imam says, The Star, 22 June 2010, https://www.thestar.com/…/canada_tells_muslim_speaker_to_st… / Ibid. Choudhary
[lv] Interview with the author, 23 February 2017
[lvi] The Canadian Press, Al Huda Institute Canada Shuts Doors Following Terror-Related Allegations, 8 December 2015, http://www.huffingtonpost.ca/…/al-huda-institute-canada_n_8…
[lvii] Al Huda Institute Canada, https://www.facebook.com/AlHudaInstitute/
[lviii] Asra Q. Nomani, The Taliban’s ladies auxiliary, Salon, 26 October 2001, https://www.salon.com/2001/10/26/mujahida/
[lix] Interview with the author, 26 January 2017 / Farzana Hassan, Is Al-Huda willing to denounce jihad?, Toronto Sun, 8 December 2015, http://www.torontosun.com/…/is-al-huda-willing-to-denounce-…
[lx] Interviews with Muslim World League officials in 1995 in Bosnia, 1998 in Kosovo, 2001/2002 in Saudi Arabia, and 2006 in Mali
[lxi] Interview with the author, 13 January 2017
[lxii] Ibid. Mushtaq, p. 110
[lxiii] Ibid. Mushtaq, p. 106
[lxiv] Ibid. Mushtaq p. 133
[lxv] Mufti Abu Safwan (ed.), Maghribi Jiddat Pasandi aur Al-Huda International (Western Modernism and Al-Huda International), Karachi: Jamhoor Ahl-i Sunnat wal Jamaat, 2003
[lxvi] Ibid. Mushtaq, New Claimants, p. 150
[lxvii] Amna Shafqat, Islamic University Islamabad: My education in a Saudi funded university, PakTeaHouse, 11 February 2015, http://pakteahouse.net/…/islamic-university-islamabad-my-e…/
[lxviii] Interview with the author, 18 April 2017
[lxix] Email to the author, 31 January 2017
[lxx] Sadaf Ahmad, Identity matters, culture wars: An account of Al-Huda (re)defining identity and reconfiguring culture in Pakistan, Culture and Religion, Vol. 9:1, p. 63-80
[lxxi] Email exchange with the author, 18 February 2017
[lxxii] Ibod. Dorsey, Creating Frankenstein
[lxxiii] Saher Ali, Pakistan women socialites embrace Islam, BBC News, 6 November 2003, http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/3211131.stm
[lxxiv] Ayesha Siddiqa, Red Hot Chilli Peppers Islam – Is the Youth in Elite Universities in Pakistan Radical?, Heinrich Boell Stiftung, 2010, https://pk.boell.org/…/Red_Hot_Chilli_Peppers_Islam_-_Compl… / Interview with the author, 22 July 2016
[lxxv] Ibid. Siddiqa
[lxxvi] Ibid. Siddiqa
[lxxvii] Interview with the author, 22 July 2016
[lxxviii] Ayesha Siddiqa, Red Hot Chilli Peppers Islam – Is the Youth in Elite Universities in Pakistan Radical?, Heinrich Boell Stiftung, 2010, https://pk.boell.org/…/Red_Hot_Chilli_Peppers_Islam_-_Compl…
[lxxix] Pervez Hoodbhoy, The Saudi-sation of Pakistan, Newsline, January 2009, http://newslinemagazine.com/…/the-saudi-isation-of-pakistan/
[lxxx] William Dalrymple, In Pakistan, tolerant Islamic voices are being silenced, The Guardian, 20 February 2017, https://www.theguardian.com/…/islamic-state-foothold-pakist…
[lxxxi] K. K. Aziz, The Murder of History: A Critique of History Textbooks Used in Pakistan, Lahore: Sang-e-Meel Publications, 2010
[lxxxii] Kamran Ahmad, Mental blocks in Political Economy, The News, Pakistan, 3 April 2005
[lxxxiii] Sadaf Ahmad, Identity matters, culture wars: An account of Al-Huda (re)defining identity and reconfiguring culture in Pakistan, Culture and Religion, Vol. 9:1, p. 63-80
[lxxxiv] Ibid. Sadaf Ahmad
[lxxxv] Sadaf Ahmad, Al-Huda and Women’s Religious Authority in Urban Pakistan, The Muslim World, Vol. 103:3, p. 363-374
[lxxxvi] Ibid. Mushtaq, A Controversial Role
[lxxxvii] Hussein Abdulwaheed Amin, The Origins of the Sunni/Shia Split in Islam, Al Huda Newsletter, June 2008, http://www.al-huda.com/Article_3of82.htm
[lxxxviii] Ibid. Amin
[lxxxix] Interview with the author, 13 January 2017
[xc] Ibid. Mushtaq, p. 215
[xci] Email to the author, 26 January 2017