خورشید تاباں : 7 مئی 2016ء – عامر حسینی

آشوب تھا بہت اور خامشی اس سے کہیں تھی زیادہ تو اس نے شاید یہی کہا ہوگا

ایسے آشوب میں کس طرح سے چُپ بیٹھا جائے
خون میں تاب و تبِ حوصلہ داراں بھی تو ہے
سات مئی 2016ء بس چند گھنٹوں کی دوری پہ کھڑی ہے اور اسے امر ہوئے پورا ایک سال ہونے کو ہے۔رام ریاض نے نے اپنے رشک قمر کی جدائی کو سرسوں کی رت سے یاد رکھا ہوا تھا اور ہم نے اپنے ماہ کامل کی جدائی کے لئے بیساکھ کو یاد رکھا ہوا ہے۔
کھیتوں میں سرسوں کی رت پھر آپہنچی
آج تجھ بن دیکھے پورا سال ہوا

وہ شام ایسی ہی تھی جب ۔۔۔۔۔
اس نے پوچھا تھا کہ سر بیچنے والا ہے کوئی
ہم نے سر نامۂ جاں نذر گزارا ہے کہ ہم
فیس بک ، ٹوئٹر پہ پیغامات کی صورت لوگ اپنے اپنے دلوں پہ چھائی خزاں کی رتوں کو مجسم کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔وہاں کراچی میں ایف ایم ریڈیو کی ایک صدا کار جسے مئی کی سات تاریخ بھول گئی ہے مگر امر ہونے کا مہینہ اور ہفتہ یاد ہے بھی ایسا مواد اکٹھا کررہی ہے جو اس شہید وفا کی شخصیت اور فکر کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرتا ہو اور وہ اپنی مدھر اور سوز سے بھری صداکاری سے لوگوں کو بتائے کہ کون اس دن قتل ہوا تھا اور کس کا خون اس دن بہا تھا اور کیوں بہا تھا؟

کئی نوجوان لڑکے لڑکیاں جنہوں نے اس خورشید کی روشنی سے چمکنا سیکھا تھا وہ اپنی ضو فشانی کو اور تیز سے تیز کررہے ہیں تاکہ ان لوگوں کی آنکھوں کو خیرہ کرڈالیں جنہوں نے ان کے خورشید کو بجھانے کی کوشش کی تھی اور اب ایسے کئی اور خورشیدوں کی روشنیاں ان کے قساوت بھرے قلوب میں نفرت اور گہرا کرتی ہیں۔

ایک نوجوان لڑکی جو سرتاپا کالے لباس میں ملبوس ہے اور اس کی آنکھوں پہ بڑے سے چشمے اسے وقت سے پہلے ہی بزرگ بناتے ہیں، سرخ و سپید چہرہ اور چنگاریاں نکالتی آنکھوں کے ساتھ ساتھ بار بار مباہلہ کرنے کی دعوت دیتی ہے۔اور وہ بڑے بڑے ظالموں اور الدلخصام کو چیلنچ کررہی ہے۔اور نجانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ جب وہ یہ کہتی ہے کہ اس کے خورشید تاباں کو اور جینا بنتا تھا، ابھی اور عمر گزارنی بنتی تھی تو گویا وہ کہہ رہی ہوتی ہے کہ جو اسے جینا بننا تھا اور جو عمر اسے گزارنی تھی وہ گزارے جاتی ہے۔

ویسے یہ جو روح علوی ہے اس کی تنہائی کا پرتو ابوذر پہ پڑتا ہے تو ہمیں تنہائی کمال پہ نظر آتی ہے اور اگر اس کی خطابت و شجاعت و بے خوبی کا پرتو شریکۃ الحسین پہ پڑے تو ہمیں تکلم اپنے عروج پہ نظر آتا ہے اور اس کی علمیت کا پرتو محمد بن علی بن حسین پہ پڑے تو وہ باقر العلوم نظر آنے لگتا ہے اور ایسے ہی ہمیں اس کا پرتوعلم و حق گوئی اپنے خورشید تاباں پہ سایہ فگن نظر آئے تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے ہم اپنے زمانے کا ایک اور میثم تمار کا ظہور ہوتے دیکھ رہے ہیں۔

ہمارا کلیم وقت ایسا تھا کہ اس نے ‘عام آدمی ‘ کے محاورے میں بات کی۔اس نے عام فہم انداز میں ورناکیولر زبان میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنا شروع کیا جسے گلی ،محلے کے مرد و عورت دونوں نے سمجھنا شروع کردی تھی۔اس نے مذہبی جنون کو مذہب ثابت کرنے والوں کو للکارا اور اس نے اپنی تھیالوجی کو کسی کا ” کفر ” ثابت کرنے کی بجائے انسانیت کی تکریم کے لئے وقف کردیا اور اس نے ہر وقت کے شداد،فرعون،قارون،بلعم باعور کو للکارا اور ان کو ایسے وقت میں چیلنج کیا جب ان کو چیلنج کرنے میں لوگوں کو جان ،مال، اولاد میں کمی کا خوف دلاتا تھا۔اور اس کی بہادری اور للکار وقار علم سے سرفراز تھی اور اس نے باب العلم کے سامنے زانوئے تلمذ کیا ہوا تھا۔

وہ ایک آدمی تھا۔کبھی کبھی اپنے جد کی سنت پوری کرتے ہوئے بیوی بچوں کو بھی میدان عمل میں لے آیا کرتا تھا اور اس نے کبھی اپنے ساتھ کھڑے لوگوں کی گنتی نہیں کی تھی اور لوگوں کی کمی یا زیادتی اس کے اپنے راستے سے ہلنے کا سبب بننے والی نہیں تھی۔وہ مثل فواد حسین اور عکس قلب عباس تھا اور اسی لئے اس کے ہاں انسانیت بلند ترین درجے پہ پائی جاتی تھی مگر وہ اپنے تمام تر علم و عرفان کے باوجود ایلیٹ ازم / اشرافیت کے سخت خلاف تھا۔ایک چائے کے عوامی ڈھابے پہ تھا جب اس کے قاتل وہاں پہنچے اور اس پہ گولیوں کی برسات کرگئے۔اور اپنے عوامی انداز کے ساتھ ہی وہیں مٹی پہ گرا اور اس کی پیاس اپنے لہو سے بجھا کر حسینیت کی سنّت پوری کرگیا۔آسمان کے تارے اس کی اس ادا پہ رشک کرتے تھے اور آسمانوں کا مہتاب اس زمین پہ گرے چاند کی سرخ روشنی کے آگے شرمایا شرمایا لگتا تھا۔

آج اس کے کہے ہوئے لفظوں کی صداقت سب پہ ازخود واضح ہے اور کسی منطقی ، دلائل سے مسجع و مقفع گفتگو یا تحریر کی محتاج نہیں ہے۔اس کے آباء کا پیشہ سپاہ گری تھا اور اس نے بھی یہی سوچا تھا کہ وہ بھی یہی پیشہ اپنالے گا اور پھر تقدیر اسے لیکر بھی تو دیکھو کہاں گئی جہاں مفادات کی عینک سے امریکی فنڈڈ پروجیکٹ برائے افزائش عسکریت پسندی کو جہاد فی سبیل اللہ اور تزویراتی گہرائی کے طور پہ دیکھے جارہے تھے اور آبپارہ کی حال میں سفید کلر کی عمارت اس کا مسکن بن گئی لیکن وہ زیادہ دیر اس عمارت میں قید نہ رہ سکا۔وہ وہاں سے نکلا تو پھر ٹھہرا کہیں نہیں۔

چل سو چل۔اس نے ایک ڈاکٹر کے خارجی فہم مذہب کی دھجیاں اڑائیں اور پھر ناصیبت جدید کو اپنے سامنے کھڑے نہ ہونے دیا۔اس کے بعد وہ شہری آزادیوں کی ضمانت پانے اور اس کو مذہبی گروہوں کے باب میں ممکن بنانے کے لئے سول سوسائٹی ایکٹو ازم کی طرف آیا اور اس نے راہ کے ” برہمنوں ” کو للکارا جو لبرل ازم کو اپنی غیر منقسم جائے داد سمجھتے تھے اور اسے اس ملک ميں تکفیری فاشزم کی ہلاکت خیزی ” فرقہ واریت ” کا شاخسانہ لگتی تھی جو ایک ہزار مظلوموں کی حقیقی لاشوں کے مقابلے میں ازخود ظالموں کی لاشیں خودساختہ طور پہ گراکر ظالموں اور مظلوموں ميں ایک جھوٹی مساوات قائم کرتے تھے۔

خورشید تاباں نے جھوٹی مساوات قائم کرنے والی تاریک قوتوں کو بے نقاب کرنا شروع کردیا۔اس نے سول سوسائٹی کے اندر فیک اور جعلی قائدین کو بہت ٹف ٹائم دیا اور وہ سرخ عمارت کے سامنے امام التکفیر کے سامنے پہنچا اور اس کی مذمت کی۔ایسے میں سول سوسائٹی کے سب ہی بڑے نام غائب تھے اور اس نے ایک قدم سے منافقوں کے چہروں سے نقاب نوچ لئے اور آج تک وہ سب منہ چھپاتے پھرتے ہیں مگر عریانی ہے کہ چھپنے کا نام نہیں لے رہی۔اور اب تو اس کی آواز کے تتبع میں درجنوں آوازیں بلند ہورہی ہیں۔اس کا خون عدالت میں ، تھانے میں تو اب تک بے سروسامانی کے عالم میں پڑا انصاف کا منتظر ہے لیکن عوام نے اسے انصاف فراہم کردیا ہے۔وہاں اس کے گھر کراچی سے لیکر یہاں اسلام آباد تک اور اس سے آگے سکردو تک اس کی ہمنواء آوازیں بلند ہورہی ہیں۔اور سب انسانیت کے دشمنوں ، لال بریگیڈ والوں کو ، برقعہ پہن کر فرار ہونے والوں کو للکار رہی ہیں۔ اور اسے عکس کررار غیر فرار کہا جارہا ہے۔

جب یہ عالم ہو تو لکھیئے لب و رخسار پہ خاک
اڑتی ہے خانۂ دل کے در و دیوار پہ خاک

تُو نے مٹّی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا
ڈال دی میرے بدن نے تری تلوار پہ خاک

ہم نے مدّت سے اُلٹ رکھّا ہے کاسہ اپنا
دستِ زردار ترے درہم و دینار پہ خاک

پُتلیاں گرمیٔ نظّارہ سے جل جاتی ہیں
آنکھ کی خیر میاں رونقِ بازار پہ خاک

جو کسی اور نے لکھّا ہے اسے کیا معلوم
لوحِ تقدیر بجا، چہرۂ اخبار پہ خاک

پائے وحشت نے عجب نقش بنائے تھے یہاں
اے ہوائے سرِ صحرا تری رفتار پہ خاک

یہ بھی دیکھو کہ کہاں کون بلاتا ہے تمھیں
محضرِ شوق پڑھو، محضرِ سرکار پہ خاک

آپ کیا نقدِ دو عالم سے خریدیں گے اسے
یہ تو دیوانے کا سر ہے سرِ پندار پہ خاک

عرفان صدیقی

نوٹ: سید خرم ذکی کی پہلی برسی پہ لکھی گئی تحریر جن کو 7 مئی 2016ء کو تکفیری دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ کے قاتلوں نے شہید کردیا تھا۔

Comments

comments