اداریہ تعمیر پاکستان : مدرسہ اصلاحات نافذ کئے بغیر سول سروسز اور پاکستان آرمی کمیشن کے دروازے مدرسوں کے لئے کھولنا درست نہیں
وزیر اعظم پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی جنرل (ریٹائرڈ) ناصر جنجوعہ نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران یہ انکشاف کیا ہے کہ حکومت پاکستان عنقریب دینی مدارس کے گریجویٹس کے لئے سول سروسز اور پاکستان آرمی میں کمیشن حاصل کرنے کی اجازت دے رہی ہے اور اس سے دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلباء کو مین سٹریم میں آنے کا موقعہ ملے گا۔
بظاہر دینی مدارس کے طلباء کو سول سروسز اور کمیشن حاصل کرنے کی اجازت دینے کا عمل بہت اچھا نظر آتا ہے اور دینی مدارس کے طلباء کو مرکزی دھارے میں لانے کی بات بھی بہت مثبت لگتی ہے لیکن یہاں پر کچھ خدشات ایسے ہیں جن کو دور کئے بغیر سول سروسز اور پاکستانی فوج میں کمیشن کی اجازت دینی مدارس کے طلباء کو دینے کا مطلب سول سروسز اور پاکستان آرمی جیسے اداروں میں فرقہ وارانہ بنیادوں پہ تقسیم کو تیز کرنا اور اس حوالے سے ریاستی اداروں کو مزید کمزور کرنے کا سبب بنے گا۔
موجودہ حکومت ہو یا گزشتہ حکومتیں وہ دینی مدارس کے لئے درکار اصلاحات کو تاحال نافذ کرنے اور ان سے مطلوب تبدیلیوں کو لانے میں ناکام رہی ہیں۔ مدرسہ ریفارم پروجیکٹ کے نام سے 2002ء میں ایک پروجیکٹ شروع کیا گیا تھا جس کے لئے ابتداء میں 71 ملین ڈالر مختص کئے گئے تھے اور یہ فنڈز وفاقی وزرات مذہبی امور کی مدد سے مدارس کے اندر علوم جدیدہ کی تدریس پہ خرچ کئے جانے تھے لیکن 2009ء اور پھر 2011ء میں ایسی خبریں سامنے آئیں کہ مدرسہ ریفارم پروجیکٹ کی فلم ڈبوں میں بند کردی گئی۔
https://www.theguardian.com/…/pakistan-stalls-madrassa-refo…
http://www.hindustantimes.com/…/story-U59IfO1EU6M87TXeEodpV…
جبکہ مدرسہ ایجوکیشن ریفارم پروجیکٹ کے تحت جو پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ بنایا گیا تھا،یہ بورڈ پاکستان میں مختلف فرقوں کے بورڈز کے تحت چلنے والے دینی مدارس کو اپنے دائرے میں لانے میں ناکامی سے دوچار ہوا جبکہ غیر معروف یہاں تک کہ بعض کاغذوں میں بنے ماڈل دینی مدارس جو اس بورڈ کے تحت متعارف کرائے گئے ان میں سے کئی ایک کے ہاں بڑے پیمانے پر فنڈز کی خورد برد سامنے آئی اور اس بورڈ نے دینی مدارس میں اصلاحات کے عمل کو قطعی آگے نہیں بڑھایا۔اور ایک طرح سے یہ بورڈ پروجیکٹ بھی ناکامی کا شکار ہوا۔اور یہ بات بھی نوٹ کرنے والی ہے کہ اس بورڈ کا چئیرمین اس وقت ایک ایسا دیوبندی ہے جس کے تحریک طالبان بارے خیالات کافی حد تک جہاد ازم اور تکفیر ازم کے ہمدردوں سے ملتے جلتے رہے ہیں۔اور یہ بنوریہ ٹاؤن میں قائم جہاد ازم اور تکفیر ازم کے علمبردار مدرسے کے بانی کے داماد کا بیٹا ہے۔
https://tribune.com.pk/…/sacked-embezzlement-model-seminar…/
https://www.questia.com/…/pakistan-us-take-on-the-madrassahs
ویسے بھی آج کل وفاقی وزیر مذہبی امور تکفیریوں اور جہادیوں کے ارد گرد منڈلاتے رہتے ہیں اور ان کے دور وزرات میں سعودی مذہبی اسٹبلشمنٹ کے لوگوں کے پاکستان آنے جانے میں بہت اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ایسی صورت حال میں مدرسہ اصلاحات کے نافذ ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے۔
حکومت پاکستان ابتک مدارس کو آنے والی بیرونی فنڈنگ اور مدارس خاص طور پہ وفاق المدارس و اہلحدیث مدرسہ بورڈ یا جماعت اسلامی کے مدرسہ بورڈ کے تحت چلنے والے سینکڑوں مدارس میں عسکریت پسندی، وہابی-دیوبندی تکفیر ازم اور جہاد ازم کی تبلیغ کو روکنے میں یکسر ناکام رہی ہے۔سندھ حکومت نے سندھ کے اندر ایسے مدارس کی لسٹ وزرات داخلہ کو ارسال کی جو براہ راست دہشت گرد تنظیموں کے لئے بھرتی، سہولت کاری اور جہاد کے نام پہ دہشت گردی کی تبلیغ کرتے ہیں لیکن اس پہ بھی کوئی عمل نہیں کیا جاسکا۔
http://www.newslens.pk/urdu-right-wing-parties-reject-new-…/
نیشنل ایکشن پلان کے نکات پہ عمل درآمد ابتک ایک سوالیہ نشان ہے۔حکومت پاکستان مدرسہ اصلاحات میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ ایسے میں اگر وہ اصلاحات کو نافذ کئے بغیر مین سٹریم کرنے کے نام پہ سول سروسز اور پاکستان آرمی کے کمیشن کے دروازے دینی مدارس کے لئے کھولتی ہے تو پاکستان کی سول سروسز اور پاکستان آرمی جو پہلے ہی جدید اداروں سے آنے والے ایسے نوجوانوں سے خالی نہیں ہے جو تکفیر ازم اور جہاد ازم سے ہمدردی رکھتے ہیں اور باقاعدہ لابی کی شکل اختیار کئے ہوئے ہیں مزید تقسیم اور مزید انتشار کی طرف جائیں گی۔اس لئے اس بارے میں انتہائی غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ مدرسہ ریفارم کو نافذ کیا جانا بہت ضروری ہے۔