ہم سب کمرشل لبرل – عامر حسینی
جارج آرویل نے اپنے ایک مضمون ” سیاست،انگریز اور زبان ” میں یہ مشاہدہ کیا تھا کہ “زبان کی بدعنوانی اور سیاست کی بدعنوانی ساتھ ساتھ چلتی ہیں اور ایک دوسرے کو مدد دیتی ہیں۔آرویل نے اس باہمی گٹھ جوڑ کو اپنے ناول ‘1984’ میں بہت زبردست طریقے سے دکھایا۔اس ناول میں صیم نامی ایک کردار جو کہ ٹرتھ ڈیپارٹمنٹ میں ایک نئی “لغت” کی تشکیل پہ کام کررہا ہوتا ہے اور وہ اس ناول کے مرکزی کردار ونسٹن سمتھ (حکمران پارٹی کا چھوٹا سا کارکن) کا دوست ہے،وہ کہتا ہے: لفظوں کی تباہی بہت ہی پیاری چیز ہے۔۔۔۔۔۔کیا تم نہیں دیکھتے کہ نیوز پیک کا حتمی مقصد خیال کی حد کو تنگ سے تنگ کرتے چلے جانا ہے۔آخر میں ہم ادبی اعتبار سے خطرناک سوچ کو ہی ناممکن بناڈالیں گے۔کوئی بھی تصور جس کی کبھی بھی ضرورت ہوسکتی ہے وہ ٹھیک ایک لفظ میں بیان کیا جاسکے گا اور اس کے سب دیگر ذیلی مطالب نابود کردئے جائیں گے اور پھر ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فراموش کردیا جائے گا۔
ہر سال چند ہی الفاظ اور شعور کی حد کم سے کم ہوتی چلی جائے گی۔یہاں تک کہ اب بھی مجرمانہ سوچ کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔یہ محض ازخود ڈسپلن میں آنے اور ازخود حقیقت کو کنٹرول کرنے کا نام ہے۔لیکن مستقبل میں یہ بھی کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔انقلاب اس وقت مکمل ہوجائے گا جب “زبان” کامل ہوجائے گی”
اس ملک میں جہاد ازم،تکفیر ازم اور مذہبی بنیاد پرستی کے سعودی ماڈل کو گود لینے والے ریاستی ہرکارے جو لائن دیتے ہیں اسے پاکستانی کمرشل لبرل مافیا اور نواز حکومت کے چرن چھونے میں طاق لبرل نقاب چڑھائے صحافی اور سوشل میڈیا پہ ان کے لئے ہمہ وقت کوشاں چیلے فوری طور پہ میں سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پہ ایک غالب ڈسکورس بنانے کے لئے کوشاں ہوجاتے ہیں۔
مثال کے طور پہ مسلم ليگ نواز کی حکومت ،اس کے اسٹبلشمنٹ میں بیٹھے اتحادیوں نے یہ لائن دینا شروع کی کہ بدنام زمانہ تکفیری دیوبندی تنظیم اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان ایک بدلی ہوئی جماعت ہے۔اسے مرکزی سیاسی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے اور اس کے سرپرست محمد احمد لدھیانوی بہت ہی پرامن، مدبر،صاحب بصیرت عالم دین ہیں تو لبرل کمرشل مافیا نے اس ڈسکورس کو مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پہ آگے بڑھانا شروع کردیا ہے۔وفاقی وزیر داخلہ اس بدنام زمانہ تکفیری و جہادی ٹولے کو دہشت گرد ماننے سے انکاری ہوتا ہے اور ان سے اپنی ملاقاتوں کا دفاع کرتا ہے تو اس کے فوری بعد کمرشل لبرل مافیا اس کی لائن کو آگے بڑھاتا ہے۔کمرشل لبرل مافیا کی ایک اسلام آباد کی این جی او پاکستان میں تزویراتی گہرائی کی پالیسی کے خالقوں اور ہدائیت کاروں پہ مشتمل سابق جرنیل ، بیوروکریٹس اور تکفیری و جہادی لیڈروں کو ایک میز پہ بٹھاتی ہے اور پھر تکفیری و جہادیوں کو مین سٹریم کرنے پہ سوچ و بچار شروع ہوتی ہے اور نواز حکومت کا پرچارک جنگ-جیو میڈیا گروپ اپنے ٹی وی کے پروگرام ” شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ” میں اس کی خصوصی تشہیر کرتا ہے۔
اور ایسے ہی سابق آئی جی پنجاب جیو چینل پہ ایک اور جہادی ہرکارے سیلم صافی کے پروگرام”جرگہ” میں تکفیری دہشت گرد تنظیم ‘اہلسنت والجماعت’ کے وکیل صفائی بنتے اور پنجاب میں لشکر جھنگوی کے خاتمے کا دعوی کرتے ہیں یہ اور بات کے اگلے ہی روز لاہور میں مردم شماری کے لئے جانے والے فوجیوں پہ حملہ ہوتا ہے اور اس کے کچھ روز بعد فوج کے کومبنگ آپریشن میں لاہور میں داعش کا ایک بڑا سرغنہ مارا جاتا ہے۔
مسلم لیگ نواز کی حکومت تکفیری تنظیم اہلسنت والجماعت کو مین سٹریم کرنے اور اس کے سرپرست محمد احمد لدھیانوی کو عظیم مدبر ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے اور اس کے لئے اس نے اپنے زرخرید صحافی، تجزیہ نگاروں،کالم نگاروں،دفاعی تجزیہ نگاروں اور اس کے ساتھ سوشل میڈیا پہ بلاگرز کی ایک فوج ظفر موج کو ٹاسک سونپ دیا ہے۔
ویب بلاگ ” ہم سب ” جس کے مالک جنگ میں کالم لکھنے والے اور نواز حکومت سے انعام و اعزاز پانے والے وجاہت مسعود ہیں۔جنھوں نے بڑھاپے میں صحن میں نلکا لگوایا ہے اور اسے چلانے کا کام ان سے تو ہوتا نہیں ہے اس لئے یہ کام ان کی بغل میں تکفیریت کی گٹھی لیکر پیدا ہونے والے بچے سرانجام دے رہے ہیں اور وجاہت مسعود ان درجنوں صیم کی طرح ہیںجو “لغت” تیار کرنے میں لگے ہیں جس کا مقصد خیالات کی حد مقرر کرنا اور ایسا بیانیہ تشکیل دینا ہے جس میں فسادیوں کو “صلح کار ” اور تخریب کاروں کو “سفیر امن” کہا جائے اور سب یہی بولی بولنے لگ جائیں۔اور یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ ان انتہا پسندوں، رجعت پرستوں، تکفیری فاشسٹوں اور ان کی تنگ نظری پہ مبنی سوچ کی عکاسی کرنے والی تقریروں، بیانات اور ان کے کردار کی طرف توجہ دلائیں تو یہ کوئی جواب دے سکیں۔ان کی رٹ بس یہی ہے کہ یہ امن پسند ہیں،سفیر ہیں امن کے، ماڈریٹ ہیں اور پاکستان کے اندر پھیلی تکفیری دہشت گردی کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
ویسے کیا یہ محض اتفاق ہے کہ صرف پاکستانی کمرشل لبرل مافیا ہی نہیں ہے جو تخریب کار، تنگ نظر، رجعت پرست تکفیری وجہادی مافیا کو امن کے سفیر اور آزادی پسند بناکر پیش کررہا ہے بلکہ ہم عالمی سطح پہ امریکی و برطانوی مین سٹریم میڈیا اور لبرل ڈیموکریسی کے بڑے بڑے علمبرداروں کو شام کے دہشت گردوں، القاعدہ کے اتحادیوں اور سعودی وہابیت کے پالنہاروں کو آزادی پسند، ماڈریٹ کہتے دیکھ رہے ہیں بلکہ کل تک ٹرمپ جو مغربی لبرلز کا سب سے ناپسندیدہ صدر تھا آج وہ ان کی ڈارلنگ بن گیا ہے صرف اس لئے کہ اس نے شام پہ مزائیل حملے کئے،وہ کہتا ہے کہ بشارالاسد نے کیمیائی ہتھیار معصوموں پہ استعمال کئے ہیں۔اور بس یہی ایک زبان بولی جارہی ہے۔بی بی سی فرانسیسی اسلامو فوبک ، شاؤنسٹ ، نسل پرست لی پین کو بھرپور کوریج دے رہا ہے۔فرائیڈمین جیسا لبرل ڈیموکریسی کا سب سے بڑا علمبردار داعش سے امریکہ کے اتحاد کی حمایت کرتا ہے۔
اور ریاض مالک بالکل ٹھیک لکھتے ہیں:
پاکستان کے اندر جماعت اسلامی، اہلسنت والجماعت اور جماعت دعوہ کے “تجزیہ کار” اور ان کے شریک کار اشرافی سول سوسائٹی کے نیولبرلز” اپنے آپ کو ” مہان سیاست کے ماہر اور تجزیہ کار “خیال کرتے ہیں جو اپنے کسی تجزیہ میں یہ بات کبھی نہیں لائیں گے کہ پاکستان کے اندر 80 ہزار سے زائد لوگ بشمول 23 ہزار شیعہ، 45 ہزار صوفی سنّی اور سینکڑوں کرسچن، احمدی ، ہندؤ ان تکفیری دیوبندی-سلفی دہشت گردوں نے مارے جن کو ” نفرت اور دشمنی ” کا پاٹھ لدھیانوی اور اس کے دیگر قائدین نے پڑھایا تھا۔اور “ہم سب” جیسے ویب بلاگ پہ تکفیری دیوبندی محمد احمد لدھیانوی سے ملاقات کا جو احوال شایع کیا گیا ہے اس کے آغاز میں یہ کہا گیا کہ “مشکل سوالات کا تحمل سے جواب دیتے ہیں اور ایسے سوالات کرنے پر اکساتے بھی ہیں” لیکن مشکل سوالات کونسے تھے؟ پوری رپورتاژ پڑھنے کے بعد بھی پتا نہیں چلتا۔
ایک نہایت بے ضرر سا سوال یہ بھی بنتا تھا کہ محمد احمد لدھیانوی ” کاروبار تکفیر ” میں آنے سے پہلے بہت ہی غریب تھے تو آج کھربوں کے مالک کیسے بنے؟ ایک سوال ویکی لیکس کے حوالے سے بنتا تھا کہ لیبیا سے 25 ملین ڈالر ان کو کس مد میں ملے تھے؟ملک اسحاق اور ان کے دیگر ساتھیوں نے ان کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ایجنٹ و دلال کہا تھا اس میں کہاں تک صداقت ہے؟ اور آخری بات یہ کہ جب وجاہت مسعود ہفت روزہ “ہم شہری” میں ایڈیٹر تھے تو ان کے مضامین میں “کالعدم جماعتوں اور فورتھ شیڈول میں شامل افراد” کی میڈیا کوریج اور ان کو سرگرمیوں کی اجازت ملنے پہ کافی تنقید ہوا کرتی تھی اور “جماعت دعوہ” پہ میری کور سٹوری کو انہوں نے اس وقت بہت سراہا تھا جب لشکر طیبہ اور اس کے ہفت روزہ اخبار “غزوہ” پہ پابندی کے دنوں بعد ” جرار” کے نام سے اخبار نکلنا شروع ہوگیا تھا۔ویسے وجاہت مسعود ” حافظ سعید ” سے اپنے نلکا چلوانے والے ایڈمنز کو کیوں نہیں ملواتے اور ان کی نرم بیانی اور مہمان نوازی اور خندہ پیشانی کا بیان “ہم سب” میں کیوں نہیں کرواتے؟ کہیں اس کی وجہ امریکیوں کی ناراضگی کا اندیشہ تو نہیں ہے؟