شیعہ اور احمدی فرقوں کو ٹارگٹ بنائے جانے پہ میڈیا رپورٹنگ ۔ ایک جائزہ – مستجاب حیدر

پاکستان میں ایک ہی خبر انگریزی اور اردو میں مختلف طرح سے شایع کی جاتی ہے۔اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج پاکستان میں ایک ہی میڈیا گروپ کے انگریزی اور اردو اخبارات نے پنجاب یونیورسٹی کی 61 سالہ احمدی پروفیسر طاہرہ عبداللہ کے قتل کی خبر کو کیسے شایع کیا ہے۔ آپ اگر روزنامہ جنگ، ایکسپریس، نوائے وقت، دنیا، خبریں یا کسی اور اردو اخبار کے قاری ہیں تو آج کے اخبارات سے آپ کو کبھی یہ پتا نہیں چلے گا کہ قتل ہونے والی خاتون پروفیسر کا تعلق احمدی کمیونٹی سے تھا۔ایسے ہی اس خبر میں تو دی نیوز انٹرنیشنل نے اپنے اردو اخبار کی پیروی کی اور زرا نہیں بتایا کہ خاتون پروفیسر کا تعلق احمدی کمیونٹی سے تھا۔

https://jang.com.pk/latest/300814-lahore-female-professor-killed-in-the-punjab-colony-university

http://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2017-04-19&edition=LHR&id=3053573_43589897

ڈان میڈیا گروپ کی اردو ویب سائٹ ڈان نیوز نے ہیڈ لائن میں مقتول خاتون پروفیسر کے احمدی ہونے کا زکر نہیں کیا لیکن اس اخبار کی انگریزی ویب سائٹ ، انگریزی اخبار کی ہارڈ کاپی ميں چھپی خبر کی ہیڈ لائن میں نہ صرف احمدی شناخت کا زکر ہے بلکہ یہ اپنے قاری کو بتاتی ہے کہ کیسے گزشتہ دنوں سے احمدی پروفیشنل کی ٹارگٹ کلنگ کی جاری ہے اور چند ہفتوں میں پنجاب کے اندر یہ تیسرے احمدی پروفیشنل کا قتل ہے۔ایکس پریس میڈیا گروپ کے اردو اخبار اور اردو نیوز ویب سائٹ نے نہ تو مقتولہ کے احمدی ہونے کا زکر کیا اور نہ ہی آخر میں احمدی کمیونٹی کی پنجاب میں ٹارگٹ کلنگ بارے کوئی تذکرہ خبر میں کیا جبکہ اسی گروپ کا انگریزی ایڈیشن ٹرائبون ایکسپریس ہمیں ہیڈ لائن سے لیکر خبر کی تفصیل میں اس قتل کے فرقہ وارانہ ہونے اور اینٹی احمدی دہشت گردی کا تناظر بتاتا نظر آتا ہے۔

https://tribune.com.pk/story/1387259/ahmadi-professor-found-dead-house/

https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1104145566&Issue=NP_LHE&Date=20170419

پاکستانی الیکٹرانک میڈیا کے ٹیکرز میں اس قتل کے احمدی ٹارگٹ کلنگ سے جڑے ہونے اور ایسے ہی بلیٹن اور پرائم ٹائم بلیٹن میں بھی اس بارے کوئی تذکرہ ہمیں سننے کو نہیں ملا اور اس حوالے سے ڈان میڈیا گروپ کے ٹی وی چینل ڈان نیوز نے بھی باقی اردو اخبارات ، الیکٹرانک میڈیا کی پیروی کی۔

https://www.dawnnews.tv/news/1056146/

آسٹریلیا میں میڈیا اسٹڈیز پڑھانے والے پاکستانی نژاد پروفیسر اور فکشن رائٹر عباس زیدی نے اپنے مقالوں ” شیعہ نسل کشی پاکستان میں ” اور ” شیعہ نسل کشی پہ پاکستانی میڈیا کی رپورٹنگ ” کے عنوان سے ٹھوس ثبوت کے ساتھ یہ بات ثابت کی ہے کہ پاکستانی مین سٹریم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی شیعہ نسل کشی پہ رپورٹنگ ” ابہام، جواز ، انکار ” جیسے منفی عوامل پہ مشتمل ہے اور اکثر شیعہ شناخت کو چھپا لیا جاتا ہے یا ان کے قتل میں ملوث تکفیری گروپوں کی دیوبندی شناخت کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا۔پروفیسر عباس زیدی کا کہنا ہے کہ پاکستانی اردو و انگریزی پرنٹ میڈیا کا ایسا ہی ملتا جلتا رویہ صوفی سنّی ٹارگٹ کلنگ اور ان پہ ہونے والے حملوں پہ بھی ہے۔

ویسے سوال یہ جنم لیتا ہے کہ جن حقائق سے انگریزی کے قارئین کو آگاہی دینا ایک ہی میڈیا گروپ کے انگریزی اخبار اور چینل اپنا فرض خیال کرتے ہیں اسی میڈیا گروپ کے اردو اخبار اور اردو ویب سائٹس ان حقائق کا جاننا اردو کے قاری کے لئے کیوں اہم خیال نہیں کرتے ؟ کیا یہ اردو پڑھنے والے قارئین کے ساتھ زیادتی نہیں ہے؟

اکیاسٹھ سالہ احمدی پروفیسر خاتون کا قتل ایک بار پھر ہمیں یہ یاد دھانی کراتا ہے کہ پاکستان کے اندر ایسی تنظیمیں اور گروپ مسلسل کام کررہے ہیں جو عقیدے کے اختلاف کی بنیاد پہ لوگوں سے جینے کا حق چھین لینے کی تبلیغ کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ایک زمانے میں جب احمدیوں کو ریاستی سطح پہ غیر مسلم قرار نہیں دیا گیا تھا یہ کہا جاتا تھا کہ ملک میں احمدیوں سے لڑائی کا سبب ان کی آزادانہ تبلیغ و ترویج کی کوششیں ہیں لیکن آج جب احمدی کمیونٹی ریاستی سطح پہ نہ صرف غیر مسلم قرار پاچکی بلکہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں لائی جانے والی ترمیم کے سبب وہ کسی بھی بھی طرح سے پبلک میں اپنے مذہب بارے کوئی سرگرمی نہیں کرسکتے اور یہاں تک کہ ان کو اپنے لٹریچر کو پبلک کرنے کی اجازت بھی نہیں ہے جیسے اس ملک کے کرسچن اور دوسرے مذاہب کو ہے پھر بھی احمدی کمیونٹی کی ٹارگٹ کلنگ نہیں رک رہی ہے۔

مسلم لیگ نواز کی پنجاب اور وفاق میں حکومت آنے کے بعد سے احمدیوں پہ حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔اور ہمارا مین سٹریم ميڈیا خاص طور پہ اردو میڈیا کا رویہ اس حوالے سے معاندانہ ہے۔ اور اس کی ایسے واقعات کی رپورٹنگ بھی خاصسی مبہم ہوتی ہے۔پاکستانی پارلیمنٹ کے اندر آج تک کسی رکن پارلیمنٹ ، سینٹر یا کسی حکومتی وزیر یا مشیر کو دوران اجلاس احمدی کمیونٹی پہ ہونے والے حملوں کے بارے میں کوئی بیان تک دیتے نہیں سنا گیا اور نہ ہی ان پہ ہوئے حملوں کے خلاف کوئی قرارداد مذمت سامنے لائی گئی ہے بلکہ ان پہ ہوئے حملوں کو معمول کی کاروائی خیال کیا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا پہ احمدی کمیونٹی کی خاتون پروفیسر کے قتل اور مشعال کے قتل پہ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پہ آنے والے ردعمل کے درمیان فرق پہ کئی ایک لوگوں نے تبصرے کئے ہیں۔ایک سوشل میڈیا ایکٹوسٹ مسعود قمر مقیم سویڈن کہتے ہیں کہ قتل ہونے والی خاتون پروفیسر طاہرہ عبداللہ کے وارثوں اور اہل خانہ کے پاس وہ سہولت موجود نہیں ہے جو کم از کم مشعال کے گھروالوں کے پاس تو ہے اور وہ سہولت ہے مشعال کے ( سنّی دیوبندی) مسلمان ہونے کی “۔ شاید اس لئے مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پہ بیٹھے اکثر پاکستانی انسانی ہمدردی کا راگ الاپنے والے کٹر مسلمانوں کا ردعمل وہ نہیں ہے جو مشعال کے کیس میں سامنے آيا ہے۔

پاکستان سے باہر بیٹھے مسلم پاکستانیوں میں ایسے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ بھی ہیں جن کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان میں احمدی کمیونٹی اپارتھائیڈ پروسس کا شکار ہیں اور ان کی نسلی صفائی کا عمل جاری ہے۔یہی نکتہ نظر شیعہ کمیونٹی کے انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے میڈیا رائٹس گروپ اور انسانی حقوق کے رضاکاروں کا ہے۔

Comments

comments