سانحہ مردان یونیورسٹی اور پسِ پردہ حقائق – حیدرجاوید سید
مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں 13 اپریل کو رونما ہوئے المناک واقعہ کی تحقیقات کسی جوڈیشنل کمیشن سے ہو یا جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم کے ذریعے، بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا معصوم طالب علم مشعال خان کے والدین اور خاندان کو انصاف ملےگا؟ آگے بڑھنے سے قبل مجھے جامعہ بنوریہ کراچی کے مفتی نعیم احمد کا شکریہ ادا کرنا ہے جنہوں نے ہفتہ کے روز دوٹوک انداز میں کہا “توہینِ مذاہب و مقدس شخصیات کے قانون کا غلط استعمال ہورہا ہے۔ فیصلہ کرنے کا اختیار ریاست کو ہے۔
شواہد سے ثابت ہوا کہ مردان یونیورسٹی کا طالب علم کسی قسم کی گستاخی میں ملوث نہیں تھا”۔ مفتی صاحب قبلہ نے یہ بھی کہا میں مشعال کو شہید ہی کہوں گا۔ دوسری طرف سوشل میڈیا کی بعض ویب سائٹس دہرا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اولاََ یہ کہ اس سانحہ میں ابتدائی طور پر یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ اسلامی جمیعت طلبہ پختون پی ایس ایف اور تحریک انصاف کے ایک کونسلر ( یہ صاحب تحصیل کونسل مردان کے رکن ہیں اور اس وقت مشعال کے مقدمہ قتل میں گرفتار) کا نام بھی آیا تو اب ان کی ایما پر ایک رپورٹ گردش کر رہی ہے جس میں سارا ملبہ پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن پر ڈال کر سبھی کردار اپنا دامن بچانا چاہتے ہیں۔
ثانیاََ یہ کہ بعض فیس بکی دانشور ( ان میں سے اکثر منہ بگاڑ کر انگریزی بولنے کے مرض میں مبتلا ہیں اور بیرون ملک مقیم ہیں) اپنی تحریروں میں یہ ثابت کرنے پر جتے ہوئے ہیں کہ مقتول مشعال کوئی ملحد ٹائپ نوجوان تھا۔ اس دلیل کے حق میں ان کے پاس فقط ایک بات ہے کہ مشعال خان تین سال ماسکو یونیورسٹی میں پڑھتا رہا۔ اس بودی دلیل پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے مگر کالم کے دامن میں گنجائش نہیں سو فی الوقت اتنا ہی کہ “دانشورو اگر معلومات نہ ہوں تو پرواز کا شوق نہ پالا کرو” ۔ ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ مشعال خان نے بی ایس سی کے بعد ماسکو یونیورسٹی میں کیمکل انجنیئرنگ کی تعلیم کے لئے داخلہ لیا لیکن پھر اپنے حالات (وہی جو ہر محنت کش خاندان کے نوجوان کے ہوتے ہیں) اور چند مشکلات کی وجہ سے وہ واپس لوٹ آیا اور اس نے مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں داخلہ لے لیا۔
مشعال اور اس کے چند دوست یونیورسٹی کی فیسوں (یہ خیبر پختونخواہ کی دوسری سرکاری یونیورسٹیوں کی نسبت تقریباََ 400 گنا زیادہ ہیں) میں اضافے، وائس چانسلر کی عدم تعیناتی اور یونیورسٹی میں جاری کرپشن کے خلاف تحریک منظم کر رہے تھے۔ اس حوالے سے اس نے اپنے قتل سے ایک دن قبل ایک پشتو ٹی وی کو انٹرویو بھی دیا تھا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے چند بڑے اس منظم ہوتی تحریک سے خوفزدہ تھے۔ کہا جارہا تھا کہ یونیورسٹی میں پچھلے تین سال کے دوران ہونے والی مختلف موضوعات کی کانفرنسوں اور ٹھیکوں کی آڑ میں کروڑوں روپے کی کرپشن ہوئی اور مشعال اور اس کے ساتھیوں کے پاس اس کے دستاویزی ثبوت موجود تھے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے پہلے تو اس کے ہم خیال پختون پی ایس ایف سے مدد مانگی۔ جس کے ضلعی عہدیدار وں نے مشعال سے ملاقات کر کے تحریک چلانے سے باز رہنے کا مشورہ دیا جسے مسترد کر دیا گیا۔
اس پر پختون پی ایس ایف دو حصوں میں بٹ گئی ۔ ایک دھڑا مشعال کے ساتھ تھا اور دوسرا انتظامیہ کے ساتھ۔ پہلے وار کی ناکامی کے بعد اک مذہبی تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کے برادران سامنے آئے اور انہوں نے مشعال اور اس کے ایک دوست پر (عبداللہ نامی یہ طالب علم 13 اپریل کے حملے میں زخمی ہوا ہے) ملحد اور قادیانی ہونے کا الزام لگا دیا۔ 12 اپریل کو مشعال نے یونیورسٹی کے ساتھیوں سے کہا مجھ پر الحاد کا الزام یا میرے دوست پر قادیانی ہونے کا، دونوں درست نہیں۔ انتظامیہ کے کچھ لوگ گھناؤنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اس نے اس حوالے سے شعبہ ابلاغیات کی ایک اہم شخصیت کا نام بھی لیا( یہ نام کالم نگار کے علم میں ہے مگر چونکہ ابھی تحقیقات ہو نا ہیں اس لئے تحریر نہیں کر رہا)۔ 12 اپریل کا پورا دن یونیورسٹی میں یہ الزام پر لگا کر پرواز کرتا رہا کہ مشعال ملحد اور گستاخ ہے۔ اس کے کچھ دوستوں نے اسے گھر چلے جانے کا مشورہ دیا تو اس نے مستر کر دیا۔
اس دوپہر اور شام دونوں وقت اس نے اپنے ہاسٹل کی کینٹین سے دوستوں کے ساتھ کھانا کھایا۔ 13 اپریل کی صبح یونیورسٹی کھلی تو انتظامیہ کے کچھ اہلکار چند بیرونی افراد کے ہمراہ یونیورسٹی میں ہنگامہ اٹھائے ہوئے تھے۔ اس ہنگامے میں پختون پی ایس ایف ، اسلامی جمعیت طلبہ، آئی ایس ایف اور جمعیت علمائے اسلام کے ہمدرد پوری طرح شریک تھے۔ اس مرحلہ پر دو کام ہوئے۔ پہلا یہ کہ جھوٹے الزامات پر مشتعل کیے گئے طلبا اور بیرونی عناصر کا ہجوم یونیورسٹی اہلکاروں کی قیادت میں مشعال اور عبداللہ کے ہاسٹل کی طرف روانہ ہوا۔ ثانیاََ یہ کہ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ رجسٹرار نے کسی پیشگی اجازت اور حکم کے بغیر ایک نوٹیفیکیشن جاری کر کے یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر ڈال دیا۔ اس نوٹیفیکیشن کے مطابق مشعال پر توہینِ مقدسات کے الزامات ثابت ہونے پر یونیورسٹی نے اس کا داخلہ منسوخ کر دیا ہے۔ اسی رجسٹرار نے قبل ازیں مشعال کے الزامات کے حوالے سے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنے کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا تھا۔ یونیورسٹی کے رجسٹرار دونوں نوٹیفیکیشنز کو اختیارات سے تجاوز اور جعل سازی قرار دے چکے ہیں۔
مختلف طلبا تنظیموں، تحریک انصاف کے تحصیل کونسلر اور اس کے ساتھیوں اور یونیورسٹی اہلکاروں کے ہجوم نے مشعال کو اس کے کمرے میں تشدد کا نشانہ بنایا، کمرے سےباہر لایا گیا تو اس موقع پر طلبا کا ایک چھوٹا گروپ اسے پولیس کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتا دیکھائی دیا ۔ سازشی ٹولے کو محسوس ہوا کہ کہیں باقی طلبہ بھی یہی بات نہ کرنے لگ جائیں اس لئے بلوائیوں کی قیادت کرنے والوں میں سے تین افراد نے مشعال کو اٹھا کر نیچے پھینک دیا۔ کہا یہ جارہا ہے کہ نیچے پھینکنے سے قبل اسے گولی یا گولیاں ماری گئیں۔ چند عینی شاہدین کہتے ہیں کہ گولی اوپر کمرے کے باہر برآمدے میں نہیں بلکہ نیچے گرائے جانے کے بعد ماری گئی۔ اس حوالے سے دو نام سامنے آ رہے ہیں۔
ایک پختون پی ایس ایف کے مقامی صدر کا اور دوسرا ایک مذہبی طلبہ تنظیم کے اس اس سرگرم رکن کا جو 12 اپریل کو یونیورسٹی میں جگہ جگہ طلبہ و طالبات کو اکٹھا کر کے یہ دعویٰ کر رہا تھا کہ مشعال اور اس کے ساتھی ملحد و گستاخ ہیں۔ مشعال کو اس کے موبائل لوکیشن سے ٹریس کرنے کی اطلاع بھی ہے۔ اور اس ضمن میں مردان میں تعینات ایک پولیس افسر کا نام لیا جارہا ہے۔ مشعال کے سفاکانہ قتل کے 2 گھنٹے بعد پشاور کے کور کمانڈر کے حکم پر ایک خفیہ ایجنسی کے ذمہ داران نے پولیس کی موجودگی میں اس کے کمرے سے اس کا موبائل اور لیپ ٹاپ اپنی تحویل میں لے لیا۔ ماہرین کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اس کے موبائل اور لیپ ٹاپ سے ایسا کوئی مواد نہیں ملا جو الحاد یا گستاخی کے زمرے میں آتا ہو۔ نہ ہی دونوں سے کوئی ایسی پوسٹ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی۔ مگر اس دوران مشعال کے نام سے ایک جعلی فیس بک اکاونٹ سے توہین آمیز کمنٹس اور پوسٹوں کا سلسلہ جاری رہا اس جعلی اکاونٹ بارے خود مشعال 23 دسمبر 2016 کو اپنے فیس بک اکاونٹ تفصیلی وضاحت کر چکا تھا۔
بنیادی طور پر اب تحقیقات کرنے والوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس جعلی اکاؤنٹ بنانے والے کے ساتھ ان افراد کو بھی گرفتار کریں جو گستاخانہ مواد کے حوالے سے دعویدار ہیں اور سکرین شاٹ پھیلاتے رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جعلی اکاؤنٹ 13 اور 14 اپریل کی رات 11 بج کر پچاس منٹ تک آپریٹ ہوتا رہا۔ جبکہ مشعال کو قتل ہوئے گیارہ گھنٹے گزر چکے تھے۔
ایک معصوم طالب علم یونیورسٹی میں فیسوں میں اضافے، وائس چانسلر کی عدم تعیناتی اور یونیورسٹی میں ہونے والے مالیاتی فراڈ کے خلاف ساتھیوں میں شعور بیدار کرنے کے جرم میں کیا قرار دیا گیا اور کس انجام سے دوچار کیا گیا۔ یہ خون رولانے والی المیہ داستان ہے۔
مردان یونیورسٹی کے سانحہ کے بعد جناب عمران خان، بلاول بھٹو، محترمہ مریم نواز اور خود وزیراعظم کا ردعمل بہت حوصلہ افزاہے۔ مگر کیا محض مذمت، دلجوئی اصلاح احوال کا ذریعہ بن پائیں گے؟ میری دانست میں اس حوالے سے مفتی نعیم کا بیان نیا بیانیہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ریاست اپنے فرض ادا کرے۔ ایسا قانون بنایا جائے کہ گستاخی کے من گھڑت الزامات لگانے والوں کے خلاف بھی گستاخی کے قانون کے مطابق کارروائی ہو۔ ثانیاََ یہ کہ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ رجسٹرار سمیت ان افراد کو بھی تحویل میں لیا جائے جن پر کرپشن کے براہ راست الزامات ہیں اور کہا جارہا ہے کہ وہی اصل میں اس ساری سازش کے تانے بانے بننے والے بھی تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ یا پختون پی ایس ایف محض یہ کہہ کر دامن نہیں بچا سکتیں کہ وہ تنظیمی طور پر اس سانحہ میں ملوث نہیں۔ ان کے کارکنان ملوث بھی تھے اور گرفتار بھی ہوئے ہیں۔ سانحہ کی ویڈیو موجود ہے۔ مجرموں کی صاف نشاندہی ہوتی ہے۔ کیا ہم امید کریں کہ صوبائی حکومت اپنے وعدے کے موجب مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے گی اور کیا مردان کے ضلعی ناظم کے پراسرار کردار کے بارے میں بھی کوئی تحقیقات ہوں گی؟