مسلمانوں کو شیعہ مخالف جبر کو ایک سنگین مسئلہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے – مستجاب حیدر
لبنانی عرب نژاد امریکی شاعرہ،ادیب اور صحافی رقیہ مقیم سڈنی نے حال ہی میں ایک آرٹیکل ” مسلمانوں کو شیعہ پہ ہونے والے جبر کو ایک حقیقت تسلیم کرنا چاہئیے ” کے عنوان سے لکھا ہے۔اور اس میں کم و بیش وہی باتیں درج کی گئیں ہیں جن کا اظہار پورے یقین اور ایک طویل مشاہدے کے بعد مجھ سمیت لگ بھگ نصف درجن لکھاریوں نے آج سے 14 سال پہلے ہی کرنا شروع کردیا تھا۔اور سوشل میڈیا پہ ہمارے فکری ایکٹوازم کا یہ بنیادی مرکز بنا۔لیکن اس وقت ہمارے ترقی پسند سرکل کے اندر بھی اسے بدقسمتی سے ٹھیک طرح سے سمجھا نہیں گیا تھا۔لیکن صورت حال بدل رہی ہے۔آہستہ آہستہ انکار کا رویہ بدل رہا ہے۔خود مغرب میں ایسی آوازیں بلند ہورہی ہیں۔رقیہ شمس الدین نے کیا لکھا ہے اس کا خلاصہ میں اپنے اردو خواں طبقے کے لئے درج کررہا ہوں
میں نے کبھی بھی ایسے مسلمانوں کے درمیان خود کو پرسکون نہیں پایا جن کے ہاں کھلے عام یا پردے میں رہتے ہوئے یہ اعتقاد پایا جاتا ہے ایک شیعہ مسلمان جس فکر و عقیدے کا مالک ہوتا ہے اس سے اسلام کو خطرہ ہے۔۔۔۔۔ایک ایسی فکر جس کے بارے میں ان کو یقین ہے کہ وہ مسلمانوں کی روح کو خطرے کے اس درجے تک لیجاتی ہے جہاں سے جہنم کی آگ بہت قریب ہوتی ہے۔یہاں تک کہ بہت سے مسلمانوں نے میرے ساتھ اس بات پہ بحث و مباحثہ بھی کیا۔بہت سے لوگوں نے اس طرح فکر کے مسلم کمیونٹیز کے اندر پائے جانے کو فرقہ واریت کے تاریخی پس مںطر کے ساتھ جوڑا۔جبکہ مغرب میں مسلمان اس بارے میں اکثر مکمل انکار کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں کیونکہ ان کا خیال یہ ہے کہ اگر شیعہ پہ جبر کو مان لیا گیا تو اس کا براہ راست فائدہ مغرب میں موجود اسلامو فوب/مسلمانوں سے نفرت کرنے والے نسل پرست متعصب لوگوں کو پہنچے گا۔اور یہ تھکی ہوئی اور کمزور دلیل اکثر فرقہ واریت سے پیدا ہونے والی وائلنس بارے بات کرنے سے گریز کے لئے استعمال کی جاتی ہے اور اس طرح سے دہشت گردی کی متاثرہ برادریوں کو جس یک جہتی اور تشفی کی ضرورت ہوتی ہے اس کا انکار کردیا جاتا ہے۔پاکستان میں ایک شیعہ امام بارگاہ پہ ہوئے خودکش بم دھماکہ سے لیکر مصر میں مسیحیوں کو نشانہ بنائے جانے تک نہ صرف شیعہ مسلمانوں کے ساتھ جو ہوا بلکہ سب اقلیتوں کے ساتھ جو ہورہا ہے اسے ذہن میں رکھتے ہوئے یہ جان لیں کہ ان کو مسلمانوں سے مکمل طور پہ الگ کرکے ان کی نوعیت کا تعین کرنا اب ٹھیک نہیں ہے۔
رقیہ شمس الدین کہ یہ خیال بھی ہے کہ جب مڈل ایسٹ اور شمالی افریقہ ( جنوبی ایشیا کو بھی شامل کیجئے ) میں ملحدوں،اقلیت جیسے شیعہ، علوی،کرسچن، احمدی وغیرہ ہیں کا معاملہ آتا ہے تو امریکی مسلمانوں کا غالب طرز فکر۔ڈسکورس کے ساتھ مسئلہ یہ بنتا ہے کہ وہ ان کی خصوصی محکومیت اور ان پہ ہونے والے جبر کو تسلیم نہیں کرتا۔ملحد اور اقلیتی گروپوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے،مارا جاتا ہےاور ان کے گھروں، اسکولوں اور عبادت گاہوں کو مکمل تباہ کردیا جاتا ہے اور اس کی وجہ ان گروپوں کی آئیڈیالوجی، ان کا ناستک پن اور الحادیت ہوتی ہے۔اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے۔
رقیہ شمس الدین کا کہنا ہے کہ اینٹی شیعہ مائتھالوجی کا جہاں تک سوال ہے تو شیعہ مخالف افسانہ طرازی کا سب سے نمایاں اور مقبول طرز شیعہ ازم کو “یہودی سازش ” قرار دینا ہے جس کے مطابق شیعہ مذہب کی ایجاد اسلام کی بنیادی تعلیمات کو تباہ کرنے کے لئے کی گئی اور پھر اس کا تعلق فارس اور فارسی مذہب زرتشتیت سے جوڑ دیا جاتا ہے۔اس نظریہ اور اس جیسے دوسرے شیعہ مخالف افسانوں کے ساتھ ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے ماضی اور حال میں شیعہ پہ کفر کا فتوی لگاتے ہوئے شیعہ اور سنّی کے درمیان شادی بیاہ کو بھی حرام قرار دیا اور اس کی تعلیمات کو خلاف اسلام بلکہ پورے شیعہ مذہب کو اسلام کے خلاف قرار دے ڈالا۔بلکہ مسلمانوں میں کچھ ایسی شخصتیں بھی ہیں جنھوں نے شیعہ کے قتل کا فتوی دے ڈالا ہے۔اور رقیہ شمس الدین یہاں پہ ہماری توجہ ایک اور اہم معاملے کی جانب کراتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف ” خیالات کے اختلاف ” کا معاملہ نہیں ہے۔کیونکہ اس طرح کی غلط فہمیوں اور فرقہ وارانہ فتوؤں اور اس پوری مہم سے شیعہ مسلمانوں کو مرتبہ انسانیت سے ہی گرادیا جاتا ہے او ان کے خلاف یہ نفرت دشمنی مين بدل کر ان کے خلاف حملوں میں بدل جاتی ہے۔بلکہ ان کی عبادت گاہوں کو بھی پوری دنیا میں نشانہ بنایا جاتا ہے۔
انتہاپسندی کے خلاف جو طرز فکر مسلم کمیونٹی کے اندر رجحان ساز دانشوروں اور لکھاریوں اور سماجی کمپئن چلانے والوں نے پیدا کیا اس میں شیعہ کمیونٹی کے خلاف ہونے والی پرتشدد کاروائیوں کا انکار عملی طور پہ موجود تھا۔اور یہ اس حقیقت کے باوجود موجود تھا کہ شیعہ کے خلاف ، شیعہ کے گھروں، شیعی مذہبی قیادت اور اس کے پیروکاروں اور عبادت گاہوں پہ حملے مڈل ایسٹ،شمالی افریقہ، جنوبی ایشیاء اور جنوب مشرقی ایشیا میں بڑے پیمانے پہ رپورٹ ہوتے تھے۔لیکن اس مسئلے کی شدت کا احساس ہونا اس وقت ہوا جب یورپ میں شیعہ کمیونٹی کو نشانہ بنایا جانے لگا۔حال ہی میں مالمو سویڈن میں ایک شخص پہ شیعہ امام بارگاہ کو آگ لگانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے اور اس پہ دہشت گردی کے ارتکاب کی فرد جرم عائد کی ہے۔سڈنی میں دو آدمی عمر القطبی اور محمد کیاد کو 2015ء میں شیعہ مسجد میں بم نصب کرنے اور چاقوؤں کے ساتھ 25 افراد پہ حملہ کرنے کے جرم میں 20 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ان دونوں ملزموں نے تسلیم کیا ہے کہ وہ دہشت گردانہ اقدام کی تیاری کررہے تھے۔اس منصوبے کے سامنے آنے کے ایک سال بعد میلبورن میں شیعہ کمیونٹی کی مسجد کو پٹرول بم سے نشانہ بنایا گیا جبکہ دیوار پہ داعش کی چاکنگ بھی سامنے آئی ہے
آسٹریلیا کی شیعہ کمیونٹی نے فرقہ وارانہ منافرت اور ٹارگٹ شوٹنگ پہ مبنی یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جس کا سامنا کیا ہے۔2015ءمیں بریڈ فورڈ میں ایک شیعہ مسجد پہ ” شیعہ کافر” دیواروں پہ رنگ دیا گیا۔برطانیہ میں بننے والی ” ٹیل میئرنگ اینٹی مسلم اٹیک ز” نے شیعہ مخالف منافرت کو نمایاں کرنے والا ایک ٹیگ بنایا اور زور دیا کہ اس کے خاتمے کے لئے سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
حسن حفیظ ایک لیکچرر ہیں اور مڈل ایسٹ یں تقابلی سیاست و انٹر کمیونل ریلشنز پہ تحقیق کرتے ہیں نے ” دی اسلامک منتھلی ” جریدے سے بات چیت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلم دنیا میں فرقہ وارانہ شناختوں پہ خاموشی کی ذیلی پیداوار شیعہ مخالفت کو معمول کی بات سمجھنے کا رویہ ہے۔حسن حفیظ کا کہنا ہے کہ شیعہ مخالفت انتہا پسندی کے راستے یا حکومتی پالیسیوں کے زریعے سے سامنے آنے تک محدود نہیں رہی بلکہ آہستہ آہستہ یہ مرکزی اسلامی ڈسکورس /طرز فکر بنتا جارہا ہے۔سوشل میڈیا سے لیکر اسلامی یونیورسٹی سوسائٹیز تک ہم انٹرا اسلامی تعصب کو ایک نارمل رویہ بنتے دیکھ رہے ہیں۔تکفیر ازم اب معاشرے کا نارمل ڈسکورس بن گیا ہے۔
حفيط کا کہنا ہے کہ اینٹی شیعہ ازم شیعہ ہونے کے خاتمے کے ساتھ ایک ایسا اصول ہے جس کا انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے والی برادریوں میں سے شیعہ برادری کو نہ صرف سامنا ہے بلکہ شیعہ برادری کے خلاف وائلنس کا انکار بھی انتہا پسندی کے خلاف پائے جانے والے مسلم طرز فکر کا غالب رجحان ہے۔یہ کافی نہیں ہے کہ شیعہ کو متشدد حملوں کا متاثرہ سمجھا جائے۔شیعہ مسلمان جوکہ کل مسلم آبادی کا 20 فیصد ہیں ان کو ایک پوری انڈسٹری کا سامنا ہے جو ان کے خلاف نفرت پھیلانے میں مصروف ہے۔اور اس انڈسٹری میں شیعہ کے خلاف منافرت پہ مبنی لکھی جانے والی کتب سے لیکر لاکھوں ویب سائٹ، یو ٹیوب چینل، سوشل میڈیا پیجزبھی شامل ہیں اور یہ سب شیعہ مخالف تعصبات کو پھیلانے میں مصروف عمل ہیں۔شیعہ کے خلاف منافرت اور ایسے ہی دوسری اقلیتوں کے خلاف منافرت پھیلانے والے ہمیشہ یہ کرتے ہیں کہ شیعہ کو کرسچن اور یہودیوں کے ساتھ سنّی مسلمانوں کے خلاف ایک اتحاد تشکیل دینے والا بناکر دکھاتے ہیں۔اور ایسے ان کو اسلام کا دشمن بناکر پیش کیا جاتا ہے۔جنوری 2017ء میں مسجد الحرام کے ایک امام نے اپنے 30 لاکھ ٹوئٹر فالورز کو شیعہ کے اسلام دشمن ہونے کا ٹوئٹر بھیجا۔20 سال سے جدہ کی مرکزی جامع مسجد میں امامت کروانے والے اور خطبہ دینے والے وہابی مولوی نے بھی ایسے ہی ٹوئٹ ارسال کئے۔ایک وہابی مفتی نے اپنے ٹوئٹ میں یہ سازشی نظریہ پیش کیا کہ امریکہ شیعہ کو سپورٹ کررہا ہے تاکہ گلف ممالک کو ڈرایا اور دھمکایا جاسکے۔ایسے ہی ایرانی شیعہ توسیع پسندی کا ایک افسانہ سابق شاہ سعودی عرب عبداللہ کے دور میں گھڑا گیا تھا جو مغرب اور سعودی عرب سمیت گلف حکومتوں کے درمیان یکسر مقبول ہے۔
یہ اینٹی شیعہ اور شیعہ توسیع پسندی پہ مبنی پروپیگنڈا آن لائن دنیا تک محدود نہیں ہے کہ ہم آن لائن ایسی ویب سائٹ کو بند کردیں اور الفاظ کی ظاقت سے دور ہوجائیں۔لوگ خاص طور پہ نوجوان اس سے اثر لے رہے ہیں اور یہ غالب مذہبی ڈسکورس ہے جو ان کو سیل فونز اور کمپوٹرز کے زریعے سے یہ سب بتارہا ہے۔جو بھی اسے پڑھتا ہے چاہے وہ کتنا غیر مستند کیوں نہ ہو منٹوں میں ایک سخت گیر عقیدے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔شیعہ کو غیر انسانی شکل میں دکھانے کا عمل ، شیعہ کے خلاف منافرت پھیلانے کی اجازت ہے بلکہ اسے کار ثواب اور جنت کو مستلزم کرنے والا عمل سمجھا جارہا ہے۔یہ وہ ذہنیت ہے جو شیعہ کے قتل عام کی جانب لے جاتی ہے۔یہ اسقدر زیادہ ہونے لگا ہے کہ اب اسے نارمل اور عام روٹین کا واقعہ خیال کرلیا گيا ہے۔اور اسے کسی سمت سے چیلنج نہیں کیا جارہا۔
رقیہ شمس الدین کا کہنا ہے کہ ایک طرف تو اس کمیونٹی کے مسلم ہونے کا انکار ہے تو دوسری جانب ان کو لاشوں میں بدلا جارہا ہے۔اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کمیونٹی سے اظہار یک جہتی صرف ان کے جنازوں کے جلوس کے موقعہ پہ دیکھنے میں آتا ہے۔اس صورت حال سے نکلنے کے لئے ضروری ہے کہ جو مسلم سکالرز اینٹی شیعہ پروپیگنڈا کرتے ہیں ان کو ایسا کرنے سے روکا جائے اور اس پروپیگنڈے کو مسلم گھروں تک رسائی کا جو راستہ مل گیا ہے اسے روکا جائے۔اور پھر شیعہ مسلمانوں کے اس مطالبے کو مانا جائے کہ ایک تو ان کی حالت زار کو تسلیم کیا جائے دوسرا مسلم کمیونٹی کے دوسرے فرقوں اور گروہوں کو ان کے ساتھ بڑے پیمانے پہ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔مسلم برادری کے غیر شیعہ فرقے اور عوام شیعہ کمیونٹی کے ساتھ فوری انصاف تو یہ کرسکتے ہیں ان لوگوں کا محاسبہ کریں جو شیعہ مسلمانوں کا خون گرانے کے لئے نفرت کے کاروبار کو تیز کئے ہوئے ہیں۔