مولوی عبدالوحید عرف ایاز ںطامی : بیمار ذہنیت تخریب محض لاتی ہے – عامر حسینی
ایاز نظامی کے نام سے ” ارتقاء فکر ” اور “فری تھنکرز ” کے نام سے بنے پیجز پہ ایک شخص کی تحریریں سامنے آنے لگیں اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور لوگوں کی تحریریں بھی سامنے آنے لگیں۔میں نے جیسے ہی یہ تحریریں پڑھنا شروع کیں تو مجھے نجانے کیوں ایسے لگنے لگا کہ ایاز نظامی اور ان کے پیروکار لکھاری اسلام کے حوالے سے اس کی تاریخ اور اس کے احادیث بارے مجموعے پہ جو بات چیت کررہے ہیں وہ دیوبندی مکتبہ فکر کے اندر سے جنم لینے والے “اہل قرآن/مماتی/چکڑالوی/غلام اللہ خانی اور اس سے آگے تمنا عمادی،محمود عباسی کے گروپ سے مستعار ہیں اور یہ تحریریں کوئی ایسا شخص سامنے لارہا ہے جو دیوبندی مدرسے سے ہی پڑھا ہوا ہے۔
دیوبند میں اے ہسٹاریکل یعنی نفی تاریخ کی طرف مائل حلقہ موجود ہے اور خود ہم سرسید احمد خان ، غلام احمد پرویز کے ہاں بھی یہ رجحانات بخوبی دیکھتے ہیں اور زرا کم شدت کے ساتھ یہ رجحان ہم نظام الدین فراہی،ان کے شاگرد امین احسن اصلاحی اور اصلاحی کے شاگرد غامدی کے ہاں دیکھتے ہیں۔اور مسلم تاریخ میں اس اے ہسٹاریکل نکتہ نظر کی کئی اور مثالیں ہمیں مل جاتی ہیں۔اس کا سب سے زیادہ رجعتی ری ایکشنری اور سب سے زیادہ منفی اور فسطائیت کی حد تک پہنچ جانے والا رجحان وہ ہے جو مذہب کے خلاف ہی اعلان جنگ کردیتا ہے۔اور میں عرصہ دراز سے تحقیق و مشاہدے کے بعد اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ مذہب بارے یہ انتہائی ری ایکشنری رجحان یا تو آگے چل کر عسکریت پسند مذہبیت میں بدلتا ہے یا پھر یہ اینٹی مذہب فسطائیت میں بدل جاتا ہے۔اور یہ دونوں رجحان ایک دوسرے کی آکسیجن بن جاتے ہیں۔
یہاں پہ ایک تضاد اور بھی ہے۔ایسے ری ایکشنری ،رجعتی جو کہ مذہب کے خلاف ” انتہا پسندی، رجعت پرستی، تنگ نظری،عقل مخالف ، سائنس مخالف ” اور دیگر وجوہات گنواتے ہوئے اعلان جنگ کرتے ہیں اور ان کا دعوی یہ ہوتا ہے کہ یہ ریفارم ازم ، احیائے علوم کی تحریک لائيں گے لیکن اس کے بالکل برعکس نتائج رونما ہوتے ہیں۔یہ اصلاح پسندی کی بجائے ایک دوسری انتہا پسندی کو چھوتے ہیں۔انتہائی سطحی پن اور گراوٹ ان کے ہاں جنم پاتی ہے۔اور بہت سے آسیب ان کو چمٹ جاتے ہیں۔میں اکثر کہتا ہوں کہ مذہب کے خلاف اعلان جنگ کرنے والے ہوں یا بنیاد پرستی کے جھنڈے تلے مذاہب کے درمیان تصادم کے قائلين ہوں یہ حقیقت سے زیادہ پرچھائیوں سے لڑتے ہیں اور ایک دوسرے کی طاقت کا سبب بنتے ہیں۔ اور ان کی وجہ سے سماج انارکی کا شکار تو ہوسکتا ہے اس میں مثبت سمت کوئی بڑی سماجی تبدیلی کے نشان دور دور تک نظر نہیں آتے۔اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایاز نظامی سمیت پاک و ہند میں “مذہب کے خلاف جنگ :” کا اعلان کرنے اور اس حوالے سے لوگوں کو اشتعال میں لانے اور اکسانے والا ہر قدم اٹھانے کا نتیجہ کیا نکلا ہے؟
برصغیر میں روشن خیالی اور قدامت پرستی کے درمیان نظریات کا جدال نوآبادیاتی دور سے جاری ہے۔بلکہ اگر اس سے بھی آگے سفر کریں تو ہمیں اس کا سراغ مغلیہ دور اور اس سے پہلے خاندان غلاماں کے ادوار حکمرانی میں بھی مل جاتا ہے۔بلکہ چلتے چلتے روشن خیالی ، ترقی پسندی ، صلح کلیت ، بین المذاہب ہم آہنگی ، تکثریت پسندی کی روایت کو اکبّر،فیضی، دار شکوہ،میاں میر ، بلھے شاہ،شاہ حسین، اور نظریاتی طور پہ وحدت الوجودیت سے مختص کردیا گیا اور جبکہ فرقہ پرستی،رجعت پسندی، انتہا پسندی،تاریک خیالی ،جدال مابین المذاہب ، یک نوعی مذہبیت، تنگ نظری کو اورنگ زیب،شاہ اسماعیل،سید احمد بریلوی، دار العلوم دیوبند وغیرہ کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔
سرسید کی روشن خیالی اگرچہ نوآبادیاتی روشن خیالی تھی جس میں سامراجیت، نوآبادیت اور انگریز حکمران اشرافیہ اور ہندوستان میں مغلیہ دور کی اشرافیہ کی باقیات کے درمیان معاہدہ عمرانی کی تلاش کی گئی تھی لیکن سرسید کی جدیدیت کی تحریک کے اندر سے ایک سامراج دشمن،سرمایہ دار مخالف ، نوآبادیاتی نظام مخالف عقلیت پسند روشن خیال اور حریت پسند فکر پہ استوار تحریک نے بھی جنم لیا۔ اور یہی تحریک آگے چل کر ہندوستان میں کمیونسٹ ،سوشلسٹ، لیفٹ اور لبرل خیالات پہ مبنی تنظیموں کی بنیاد ثابت ہوئی۔یہ تحریک تخریب محض پہ مشتمل نہ تھی اور نہ ہی اس نے مذہب کے خلاف فی نفسہ کسی جنگ کا اعلان کیا۔بلکہ اس نے سیکولر ازم کی تحریک میں مذہب کی ریاستی امور سے الگ کئے جانے کا مطالبہ کیا۔
اور اس کا نظریاتی جدال دار العلوم دیو بند ، جماعت اسلامی ، ندوۃ العلماء ، دارالعلوم بریلی ، شیعی تھیاکریٹک دانشوروں ،صحافیوں ، ادیبوں اور لکھاریوں سے جاری رہا۔اس زمانے میں اس جدال سے ہٹ کر افراط و تفریط کے مظاہرے بھی دیکھنے کو ملتے رہے۔ایک طرف ہندؤ مہا سبھائی دانشور تھے،دوسری طرف عیسائی مشنری تھے اور تیسری طرف بنیاد پرست مسلم ملّا تھے جو ایک دوسرے کے مذاہب کو دنیا بھر کی خرابیوں سے بھرا ہوا دکھانے کی کوشش کررہے تھے اور انہی میں سے ایسے منحرف ،ری ایکشنری لوگ جنم لیتے تھے جو خود نفس مذہب کے خلاف واہیات حد تک بولنے لگتے تھے۔
ہمارے سامنے راج پال کی مثال موجود ہے،اس زمانے ميں اگر کسی کو علم ہو تو اپنے عبدالماجد دریا آبادی بھی مذہب کے خلاف محاذ کھول بیٹھے تھے۔یہ ایک انتہا تھی پھر یہ دیوبندی عالم مولوی اشرف علی تھانوی کی کوششوں سے واپس آئے لیکن ان کے مزاج میں جو اشتعال اور جو تیزی تھی اس نے اب ایک دوسری انتہا پکڑلی۔عبدالماجد دريابادی نے ترقی پسند تحریک کے بڑے بڑے نام ، انگارے لکھنے والے ادبیوں اور خود سرسید ، ایسے ہی سعادت حسن منٹو کے خلاف کیا کیا زھر اگلا وہ اب تاریخ کا حصّہ ہے۔یعنی الحاد کی حالت میں مذہب پہ گولے برسائے اور جب دیوبندی اسلام کی جانب پلٹے تو پھر اسلام کے خیالی دشمن تلاش کرلئے اور یہ دشمن تھے سجاد ظہیر،احمد علی، ڈاکٹر رشید جہاں،سعادت حسن منٹو، سرسید احمد خان، اور درجنوں لوگ جن کو اسلام کا دشمن اولین قرار دے ڈالا گیا۔
ایاز نظامی کا کیس بھی ایسا ہی ہے۔مولوی عبدالوحید نے دار العلوم عربیہ اسلامیہ بنوریہ ٹاؤن کراچی سے درس نظامی کی تعلیم حاصل کی اور تخصص فی الفقہ کا اعزاز حاصل کیا،مفتی کا ورس کیا اور امتیازی نمبروں سے پاس ہوئے۔جن دنوں یہ دار العلوم بنوریہ میں داخل ہوئے وہ بھٹو صاحب کا آخری دور تھا اور جلد ہی جنرل ضیآء الحق تشریف لے آئے اور اس زمانے میں ایاز نظامی مولوی یوسف لدھیانوی سے متاثر ہوئے اور ان کے راستے سے یہ مولوی حقنواز جھنگوی،ضیاء الرحمان فاروقی وغیرہ سے بھی متاثر ہوگئے۔ساتھ ہی اس زمانے میں محمود عباسی ، تمنا عمادی ، طاہر کاندھلوی، غلام اللہ خان ، عبداللہ چکڑالوی کے نظریات و افکار کو ایک بار پھر کافی عروج ملا۔اصل میں دیوبند کے اندر اس گروہ کی بنیادیں ڈالنے میں سچ کہا جائے تو مولوی عبدالشکور لکھنوی کا بڑا ہاتھ تھا۔
لکھنؤ میں شیعہ اور اہلسنت کے علماء کے درمیان ایک فکری مجادلہ ہمیشہ سے جاری رہتا تھا۔جمہور اہلسنت تاریخ اور احادیث کے مجموعے سے ہی اپنے دلائل مرتب کرتے اور علماء اہل تشیع کا جواب دیا کرتے اور اب بھی جمہور علماء اہل سنت کا یہی طریقہ ہے۔جمہور اہلسنت نے یہ کبھی نہیں کیا کہ انہوں نے کتب تاریخ اور سیر و احادیث و تفاسیر میں مشاجرات صحابہ یا ایسے آثار جن کا ظاہر اہل تشیع علماء کو فائدہ دیتا ہو اس کا انکار کردیا ہو بلکہ وہ شیعی تعبیر کو ماننے سے انکار کرتے تھے اور ان کے نزدیک ثقہ روایات پہ اہل تشیع سے اختلاف تعبیر پہ ہوتا تھا۔اور ایسے ہی علماء دیوبند کا جب علمائے بریلی ، فرنگی محل ، بدایوں ، رام پور ، لاہور سمیت صوفی سنّی علماء سے حیات النبی،استغاثہ لغیر اللہ ، اور دیگر فروعی مسائل پہ اختلاف ہوتا تو صوفی سنّی علماء اپنے ثبوت مين تاریخ و احادیث و دیگر اولین آثار سے دلیل لاتے تو علمائے دیو بند کا جمہور اس کی تعبیر سے اختلاف کرتا نہ کہ تاریخ کو ہی غلط قرار دینے پہ تل جاتا۔مگر یہ روایت دیوبند مکتبہ فکر میں سامنے آئی اور ہم نے دیکھا کہ مولوی عبدالشکور لکھنوی نے اپنی کئی ایک کتابوں میں بخاری کے اسی سے زیادہ راویوں کو شیعہ ، قدریہ ،خارجی ،جہمی قرار دیتے ہوئے کئی ایک روایات کو مسترد کردیا۔
انہوں نے بخاری کے استاد شیبہ ، عبدالرزاق وغیرہ کو شیعہ قرار دے ڈالا،من کنت مولاہ کی حدیث کا انکار کردیا گیا، انا مدینۃ العلم ،،،، جیسی احادیث کا انکار کیا گیا جبکہ جمہور علمائے اہل سنت ایسی کئی روایات احادیث کی تعبیر پہ شیعہ علماء سے اختلاف کرتے تھے ناکہ ان کا انکار۔یہ رجحان دیوبند میں ترقی پکڑتا گیا۔یہاں تک عبداللہ چکڑالوی ، غلام اللہ خان ، مولوی غلام حسین پجھرواں فاضل دار العلوم دیوبند (بلغۃ الحیران والے ) محمود عباسی اور تمنا عمادی اور پھر آگے چل سو چل کافی لوگ اس کے پیروکار بن گئے۔
ہم نے سر سید احمد خان کے ہاں بھی یہ اے ہسٹاریکل رجحان بہت طاقتور انداز میں سامنے آتے دیکھا۔اور یہی رجحان ہمیں غلام احمد پرویز کے ہاں بہت پاور فل انداز میں سامنے آگیا۔اور اسی رجحان سے ہم نے بتدریج مذہب کے خلاف انتہائی ری ایکشنری اور انتہائی نفرت انگیز رویوں کا ابھار ہوتے دیکھا ہے۔اور اس کی بہت سی وجوہات میں ایک وجہ تو سماج کے اندر پایا جانے والا بہت زیادہ جبر، تنگ نظری، قدامت پرستی ، رجعت پسندی، اور گھر ، اسکول ، بازار اور مسجد م مدرسوں میں پایا جانے والا جبر۔اور اس سے ایک جانب تو صحت مند اور توازن لئے ہوئے اصلاح پسند ، جدیدیت پہ مبنی ترقی پسند، روشن خیال رجحان جنم لیتا ہے جو فرسودہ اور رجعت پرستی کو ختم کرکے ذہنی کشادگی پہ مبنی رجحانات کو فروغ دینے کی بات کرتا ہے لیکن ایسے رجحانات بھی جنم لیتے ہیں جو بیمار ذہن کی علامت ہوتے ہیں۔یہ نفرت ، ری ایکشنری سوچ سے جنم لیتا ہے۔
ایاز نظامی /مولوی عبدالوحید اسی کیٹیگری سے سامنے آیا ۔اور ہمارے معاشرے میں ایاز نظامی اور اس کے ساتھیوں کی تحریروں اور سرگرمی نے پاکستانی سماج کے اندر روشن خیال ، ترقی پسند ، اعتدال پسند ، تکثریت پسند ، صلح کل ، متنوع شناختوں کے علمبردار معاشرے کے حامیوں کی جدوجہد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔اس رجحان نے پاکستان میں سماجی تبدیلی اور سماجی انقلاب کے لئے کام کرنے والے رضاکاروں کا راستہ کھوٹا کیا ہے۔
اور یہ راستہ کھوٹا کرنے والوں میں وہ کمرشل لبرل مافیا بھی برابر کا شریک ہے جس نے انسانی حقوق، آزادی رائے، سیکولر ازم ، لبرل ازم کا نام لیکر ایاز نظامی ، علمانہ فصیح اینڈ کمپنی کا اس وقت ساتھ دیا تھا جب ہم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے بارے میں علمانہ فصیح کو بازاری زبان استعمال کرنے پہ برا کہا اور اس کے لبرل ازم کو فراڈ کہا۔اس زمانے میں آپ ایاز نظامی،نعمان ،امجد حسین، بینا سرور ، نجم سیٹھی ، اعجاز حیدر سمیت درجن بھر لوگوں کے ٹوئٹس، بلاگ، فیس بک سٹیٹس اور کئی ایک کے اخباری کالم اٹھا کر دیکھیں یہ سب ایک پیج پہ کھڑے نظر آئے اور انہوں نے ایاز نظامی اور علمانہ فصیح وغیرہ کو ہلّا شیری دی۔
ہم نے طارق فتح کا پول بھی کھولا تھا اور آج وہ پاکستان ۔ہندوستان کی باہمی پراکسی وار میں ہندوستان کی پراکسی بنکر کھڑا ہے۔اس سے یہ بھی صاف نظر آتا ہے کہ یہ مسلم سماجوں میں کس صحت مند اصلاح پسند علمی رجحان کا فروغ نہیں چاہتے بلکہ سرے سے اس رجحان کا راستہ ہی بند کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ان کا لبرل ازم ، ان کا سیکولر ازم فراڈ اور کیرئیر ازم سے جڑا ہوا ہے۔اور مجھے سب سے زیادہ دکھ اس بات پہ ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کم علمی اور محدود کنویس کے سبب ان کی لبرل بیان بازی سے متاثر ہوجاتے ہیں اور وہ ملائیت سے لڑنے کی بجائے پرچھائیوں سے لڑنے لگتے ہیں