مذہبی بیانیہ کیسے درست ہوسکتا ہے ؟ – عامر حسینی
پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف 14 مارچ ،2016ء بروز منگل کراچی پہنچے اور انہوں نے ہندؤ برادری کے تہوار ہولی کی مناسبت سے ایک تقریب میں شرکت کی۔اس موقعہ پہ انہوں نے کہا
کوئی کسی دوسرے کو کوئی خاص مذہب اختیار کرنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتا۔کسی کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے کے لیے کہنا جرم ہے۔ آپ کسی مذہب کو برا نہ کہیں، کسی کی عبادت گاہ کو برا نہ کہیں۔۔۔ اسلام دوسرے مذہبوں اور کتابوں کا احترام سکھاتا ہے، ہمارا مقابلہ ایک دوسرے سے نہیں بلکہ خوف، بدامنی ہے۔ہمیں مندروں، کلیساؤں اور دوسری عبادت گاہوں کی حفاظت کرنی ہے۔
اس سے پہلے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اہلسنت (بریلوی) کی قدیم دینی درسگاہ جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو لاہور میں “عالم اسلام کا اتحاد ” کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہشت گردوں نے جہاد کے پاکیزہ تصور کو مسخ کردیا ہے اور پاکستان میں علماء کرام کو جہاد کے مسخ کردہ بیانیہ کو ٹھیک بیانیہ سے بدلنے میں مدد دیں۔
مسلم لیگ نواز کے سربراہ اور پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی ہندؤ کمیونٹی اور صوفی سنّی کمیونٹی کے نمائندہ اجتماعات میں کہی جانے والی مذکورہ بالا دونوں باتیں درست ہیں۔لیکن یہاں پہ سوال یہ بنتا ہے کہ اسلام جب دیگر مذاہب کا احترام کرنے،جبری طور پہ تبدیلی مذہب سے روکتا اور دوسرے مذاہب کے بارے میں اعتدال پسند رویوں کی تلقین کرتا ہے تو پاکستان کی ریاست کیا اپنے دائرہ کار میں رہ کر اس بات کو یقینی بنارہی ہے کہ اس ملک کے کسی بھی حصّے اور کونے میں کسی ایک مسلک،فرقے اور مذہب کے خلاف کوئی فرقہ وارانہ پروپیگنڈا نہ ہو،متشدد رویوں اور تقریروں کا انعقاد نہ ہو اور نہ ہی کسی کو کافر فرقہ قرار دیکر اس کے خلاف باقاعدہ سیاسی و سماجی اور عسکری بنیادوں پہ مہم چلانے کی اجازت دی جارہی ہو؟ اگر اس کا سرسری سا جائزہ لے لیا جائے تو صاف پتا چلتا ہے کہ اس بات کی جانب سرے سے کوئی کوشش ہی نہیں کی جارہی۔
مثال کے طور پہ پاکستان کے طول و ارض میں ایک طرف تو کالعدم تنظیم اہل سنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان کے دفاتر مکمل طور پہ فعال ہیں۔یہ تنظیم پورے ملک میں جلسے ،جلوس، تربیتی سیشن کا انعقاد کررہی ہے۔اس کی مرکزی ،صوبائی،مقامی قیادت کے بیانات ملکی اخبارات کی زینت بن رہے ہیں۔اور یہ تنظیم اپنے زیر نگرانی درجنوں مدارس،اسکول،چند ایک کالجز تک چلارہی ہے۔اس تنظیم کے پیٹرن ان چیف مولوی محمد احمد لدھیانوی جو کہ فورتھ شیڈول میں ہیں لیکن ان سے وفاقی وزیر داخلہ نہ صرف ملاقات کرتے ہیں بلکہ اس تنظیم کا وہ دفاع بھی کرتے ہیں۔وہ ہمیں دہشت گردی اور فرقہ پرستانہ تشدد اور انتہا پسندی سے پیدا ہونے والی ہلاکت خیزی کے درمیان فرق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس تنظیم کے ساتھ مسلم لیگ نواز نے 2008ء سے اتحاد قائم کیا ہوا ہے اور اس وقت سے لیکر ابتک اس تنظیم کی سرکاری سرپرستی جاری و ساری ہے۔
میاں نواز شریف نے کہا کہ دہشت گردوں نے جہاد کے پاکیزہ تصور کو مسخ کردیا اور اسے دہشت گرد بیانیہ سے ہم آہنگ کردیا۔اور ان کا کہنا تھا کہ علمائے کرام متبادل بیانیہ لیکر سامنے آئیں۔اب ہمارے سامنے مشکل یہ ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے ہماری زرا مدد نہیں کی کہ وہ کونسے لوگ ہیں جنھوں نے جہاد کی پاکیزہ شکل کو مسخ کیا ؟ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف شاید بھول گئے ہیں کہ پاکستان میں تصور جہاد کو مسخ کرنے کا فریضہ 80ء میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے مسخ کیا تھا اور وہ اس حکومت کا حصّہ تھے اور جنرل ضیاء الحق ان کو اپنی عمر لگ جانے کی دعا دیا کرتے تھے۔اور ان کو شاید یہ بھی بھول گیا کہ جہاد کا مسخ کردہ تصور شد ومد سے پوری دنیا کے اندر سعودی فنڈڈ مدرسے، تنظیمیں،ادارے پھیلارہے ہیں اور یہی وہ سعودی عرب ہے جس کی پناہ میں میاں نواز شریف سب سے زیادہ سکون محسوس کرتے ہیں۔
میاں نواز شریف جب جب وزیراعظم بنے تب تب ان کے دہشت گردوں کے گاڈ فادر سے تعلقات کی کہانیاں سامنے آتی رہیں۔90ء کی دہائی میں انہوں نے اسامہ بن لادن سے پیسے لیکر بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی کوشش کی۔سعودی طرز کی اپنی بادشاہت قائم کرنے کے لئے انہوں نے 97ء میں چودھویں ترمیم لانے کی کوشش کی۔ان کے لشکر طیبہ، جیش محمد ، سپاہ صحابہ پاکستان، لال مسجد بریگیڈ سے تعلقات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ان کے بھائی اور پنجاب کے چیف منسٹر شہباز شریف اور ان کے معتمد خاص وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے پنجاب میں اہل سنت والجماعت سے انتخابی اتحاد بنایا۔اور مسلم لیگ نواز کے کم از کم 21 قومی اسمبلی کے ٹکٹ ایسے امیدواروں کو جاری کئے جن کا تعلق سپاہ صحابہ پاکستان سے رہا ہے۔حال ہی میں مسرور جھنگوی جوکہ سپاہ صحابہ پاکستان کے بانی حقنواز جھنگوی کے بیٹے ہیں کی جیت میں بھی مسلم لیگ نواز کا ہاتھ بتایا جارہا ہے۔
ان کے بھائی نے القاعدہ کے علاقائی سربراہ کو خط لکھا جس ميں ان کو پنجاب پہ حملے نہ کرنے کو کہا،جبکہ طالبان سے بھی پنجاب پہ حملہ نہ کرنے کو کہا۔میاں محمد نواز شریف ، ان کی حکمران جماعت اور ان کی حکومت کی مڈل ایسٹ بارے خارجہ پالیسی میں شام، یمن سمیت دیگر تنازعات بارے پالیسی بھی انتہائی تضادات سے بھری ہوئی ہے اور اس میں اگر کوئی ہمواریت اور یکسانیت موجود ہے تو وہ سعودی عرب نواز رویے ہیں۔حال ہی میں پاکستانی فوج کے سعودی۔یمن باڈر پہ تعنیاتی کی خبریں آئی ہیں اور یہ حکومت کی پہلے سے اعلان کردہ پالیسی کے برعکس ہے۔
میاں محمد نواز شریف پاکستان کے اندر مذہبی بیانیہ کو درست کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن پہلی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے جس مدرسے میں اور جس کمیونٹی کے سامنے مذہبی بیانیہ درست کرنے کی بات کی وہ تو پہلے ہی نام نہاد جہاد ازم اور تکفیر ازم کی متاثرہ کمیونٹی ہے اور اس کو مذہبی بیانیہ کو مسخ نہ کرنے کی سزا دی جارہی ہے۔ڈاکٹر سرفراز نعیمی “مذہبی بیانیہ” کو تکفیریت اور سلفی۔دیوبندی جہاد ازم سے ہم آہنگ نہ کرنے کی وجہ سے شہید کئے گئے اور ان کے مدرسے پہ خودکش حملہ کیا گیا تھا۔وہ اگر واقعی پاکستان میں مذہبی بیانیہ کو ٹھیک کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو ان کو ایک تو وفاق المدارس العربیہ پاکستان ، جمعیت علمائے اسلام (سبھی دھڑوں) کے نمآئندوں کو یا تو جامعہ اشرفیہ لاہور یا پھر دارالعلوم جامعہ الاسلامیہ بنوریہ کراچی یا جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں جمع کرنا چاہئیے اور وہاں پہ ان سب کو جمع کرکے ان سے صاف صاف بات کرنی چاہئیے کہ وہ نجی جہاد،نجی مسلح لشکر،ہمہ قسم کی عسکریت،دوسرے مسالک کی تکفیر اور ان کے خلاف تشدد اور دہشت گردی کی راہ ہموار کرنے والی تنظیموں ،ان کے لیڈروں کا نام لیکر ان سے اظہار لاتعلقی کریں۔
اور ان سے کہیں کہ وہ سعودی عرب سے سمیت گلف سے آنے والی ہر طرح کی امداد لینے سے مکمل طور پہ انکار کریں۔وہ تبلیغی جماعت کے سربراہ مولوی طارق جمیل سے کہیں کہ وہ سپاہ صحابہ پاکستان سے لیکر ٹی ٹی پی کے تمام دھڑوں کے نظریات اور اعمال کو غیر اسلامی اور انتہا پسند و دہشت گردی قرار دیں اور اپنے متعلقین کو ان سے علیحدگی اختیار کرنے کو کہيں۔ان کو منصورہ جاکر جماعت اسلامی سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ جہاد کے مسخ کردہ تصور کی اعلانیہ مذمت کرے۔ٹی ٹی پی ،سپاہ صحابہ پاکستان سمیت عسکریت پسند گروپوں کو غیر اسلامی گروپس قرار دے اور دفاع پاکستان کونسل سے نکل جائے۔تب ہی یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف واقعی پاکستان میں مذہبی بیانیہ کو درست ٹریک پہ لانا چاہتے ہیں۔