میں کیسا مسلمان ہوں بھائی
حسین حیدری ممبئی کے رہنے والے ہیں اور بدقسمتی سے ان کا جو خاندانی پس منظر ہے وہ شیعہ ہے اور یہ ایک ایسی بات ہے جو کسی شخص کی کہی ہوئی بات کو دارالعلوم دیوبند اور سعودی وہابی اینٹی کلچر کے غالب اثر کے سبب ویسے ہی مشکوک بنادینے کے لئے کافی ہوتی ہے۔لیکن ہندوستان کیوں کہ ایک بہت بڑا ملک ہے اور وہاں ابھی کسی کی بھی کہی ہوئی بات کو بہت سارے لوگ اس کے خاندان کے مذہبی پس منظر کو جانے بغیر اس کی قدر وقیمت کو مانتے ہیں تو ایسے میں اس نے ایک نظم کی باز گشت بہت سنی جارہی ہے۔ممبئی میں “کمیون” کے نام سے ایک پرفارمنگ آرٹ فورم ہے اور اس فورم پہ ایک پروگرام اپنی کہانی سناؤ کے نام سے ہے اور یہ کم از کم ممبئی کی اربن مڈل کلاس میں بہت مقبول پروگرام ہے اور اسی پروگرام میں حسین حیدری جب اپنی کہانی سنانے آئے تو انھوں نے ایک نظم سنائی:
ميں کیسا مسلمان ہوں بھائی
میں سجدہ کرنے والا ہوں یا جھٹکا کھانے والا ہوں
میں ٹوپی پہن کے رہتا ہوں یا داڑھی اڑاکے رہتا ہوں
مجھ میں گیتا کا ساربھی ہے،ایک اردو کا اخبار بھی ہے
اپنے ہی طور سے جیتا ہوں،دارو،سگریٹ بھی پیتا ہوں
دنگوں میں بھڑکتا شعلہ میں کرتے پہ خون کا دھبا میں
مندر کی چوکھٹ میری ہے،مسجد کے قبلے مرے ہیں
گوردوارے کا دربار میرا یسوع کے گرجے میرے ہیں
سو میں سے میں چودہ ہوں لیکن یہ چودہ کم نہیں پڑتے ہیں
پورے سو مجھ میں بستے ہیں اور میں پورے سو میں بستا ہوں
مجھے ایک نظر سے دیکھ نہ تو میرے ایک نہیں سو چہرے ہیں
سو رنگ کے ہیں کردار میرے،سو قلم سے لکھی کہانی ہوں
میں جتنا مسلمان ہوں بھائی اتنا ہندوستانی ہوں
حسین حیدری کی یہ نظم فروری کے دوسرے ہفتے کمیون ممبئی فورم کے آفیشل فیس بک پیج پہ پوسٹ ہوئی اور ایک دن میں 2000 لوگوں نے اسے آگے شئیر کردیا۔ہندوستانی اخبارات میں یہ نظم شایع ہوئی اور پھر اس پہ بھانت بھانت کے تبصرے ہونے لگے۔ہندوستان کا مقبول انگریزی بلاک سکرول کے میگزین میں جیوتی پونمی نے ایک آرٹیکل لکھا جس میں حسین حیدری کے حوالے سے کہا گیا کہ اس کو اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ اس نے جو نظم جو طرف اس نے خود اپنے لئے کہی ہے اس پہ اسقدر شور کیوں مچا ہوا ہے؟ اور حسین حیدری یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ نظم انھوں نے اپنے اوپر لکھی ہے اور یہ کوئی احتجاج میں لکھی گئی نظم نہیں ہے۔
حسین حیدری ایک چارٹر اکاؤٹنٹ تھے اور انھوں نے دسمبر 2015ء میں نوکری چھوڑی اور کل وقتی گیت نگار اور سکرین رائٹر بن گئے۔حسین حیدری کچھ بھی کہیں لیکن اصل میں ان کی یہ نظم مسلمانوں کے بارے سٹیریو ٹائپ خیالات کے اظہار کے خلاف ایک احتجاج کی علامت بن گئی ہے۔ہندوستانی مسلمانوں کے ہاں بھارتیا جنتا پارٹی اور ہندؤ فاشزم کی جانب سے مسلمان کمیونٹی کو دہشت گرد، انتہا پسند، رجعت پرست اور پیورٹن بناکر پیش کرنے کے رجحان کے خلاف ردعمل پایا جاتا ہے۔وہ اس بات پہ بھی سیخ پا ہیں کہ ہندوستان میں وہابی ازم اور دیوبندی ازم کی جانب سے جو اسلامی خلافت اور اسلامی ریاست کا یوٹوپیا پیش کیا جاتا ہے اس کا پجاری ہر ایک مسلمان کو بناکر دکھایا جارہا ہے۔
سبھی مسلمان ڈاکٹر زاکر نائیک اور دار العلوم دیوبند کے زیر اثر سامنے آنے والے چہروں یا انڈین مجاہدین یا کشمیری مجاہدین بناکر پیش کئے جانے کا رجحان ہے اس کے خلاف ایک ردعمل ہندوستانی معاشرے کے اندر موجود ہے۔مسلمانوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس طرح کی سٹیریو ٹائپ نظریہ بندی کی مخالفت کرتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کے تکثیری چہروں کی جانب توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں اور ان کو یہ نظم اپنے خیالات کی عکاس لگی ہے۔مجھے یہ نظم اس لئے بھی دلچسپ لگی کہ میں حال ہی میں پرویز ہودبھائی کی تحریر “کیا پاکستان بطور ایک تکثیریت پسند سماج کے باقی رہ سکتا ہے” پڑھ رہا تھا جس میں انھوں نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا ” مابین المذاہب تکثیریت پسندی ” اور ” مابین الفرق الاسلام تکثریت پسندی” موجود مسلم تھیالوجی کے ساتھ ہم آہنگ ہے؟ تو وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے عملی طور پہ ہر قسم کے معاشروں میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کیا ہے لیکن
Texually and formally
نہیں اور وہاں پہ زیادہ تر ابن تیمیہ، ابن عبدالوہاب، سید احمد بریلوی،شاہ اسماعیل،رشید احمد گنگوہی،سید مودودی،سید قطب،حسن البنّا اور سید روح اللہ خمینی جیسوں کی حکمرانی اور ان جیسوں کو ہی زیادہ قبول عام ملا ہے۔ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہندوستان میں ابھی حاجی علی کے مزار پہ خواتین کے داخلے کو منع کرنے کا معاملہ ہو یا خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی کے مزار پہ عورتوں کی حاضری کی ممانعت کا مسئلہ ہو اس پہ ہندوستان کی مذہبی پیشوایت نے متنی اور رسمی طور پہ کنزرویٹو پوزیشن کو ہی اپنایا ہے۔
اور خود بریلوی ملائیت نے بھی اسی راستے کو اختیار کیا ہے اور ایک مجلس میں اور منہ سے تین بار طلاق کا لفظ نکالنے کا معاملہ ہو اس پہ بھی کوئی لچک دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔اور پاکستان کے اندر شیخ عثمان مروندی لال شہباز قلندر کے مزار پہ ہوئے خودکش بم دھماکے بعد بحث کا رخ “دھمال ” کے جائز ہونے نا ہونے کی طرف مڑگیا اور اس معاملے پہ بریلوی مذہبی قیادت نے بھی کم وبیش دیوبندی ملائیت اور سلفی ملائیت کے ساتھ کا موقف اختیار کرلیا اور اس حوالے سےپاکستانی مسلم اربن مڈل کلاس کی کئی ایک پرتوں نے بھی ملائیت کے ساتھ کا ہی موقف اپنایا۔اور یہ ایک طرح سے مذہبی فاشزم کی مکمل جیت کا سا منظر نامہ ہے۔مسلمانوں کو سٹیریو ٹائپ کرداروں میں دیکھنے اور دکھانے کا رجحان آئیڈیالوجیکل منظر نامے پہ اکثر متون میں تکثریت مخالف رائے کے غالب آجانے کے سبب بھی ہے اور بدقسمتی سے اس سبب کی طرف نگاہ کم ہی جاتی ہے۔
پرویز ھودبھائی نے ٹھیک کہا ہے کہ پاکستانی سماج کے اندر تکثریت پسندی کے حامی جدید مسلم مفکرین کی فکر کو آج کی مین سٹریم مسلم فکر میں کوئی خاص جگہ نہیں مل سکی اور سید امیر علی،سرسید احمد خان،فضل الرحمان جیسے جدید مسلم مفکرین کی فکر آج کتابوں میں بند ہوکر شیلفوں میں کہیں دب کر رہ گئی ہے۔اکبّر بادشاہ کی صلح کلیت بھی ہمارے مرکزی دھارے کا حصّہ نہیں بن پائی اور آج ہمارے ملامتی صوفیاء جیسے بابا بلھّے شاہ تھے ان کے مزاروں پہ عورت کا داخلہ منع ہے جیسے آویزاں بورڈ ہمارا منہ چڑاتے ہیں۔اور غالب ڈسکورس اگر ہے تو وہ تبلیغی جماعت کے طارق جمیل، سپاہ صحابہ پاکستان کے لدھیانوی،جاوید احمد غامدی،جماعت اسلامی کے مودودی کا ہے یا پھر حافظ سعید کا ہے۔اور یہ مسلمانوں کے اپنے اندر کی تکثیریت اور تنوع کا بھی سب سے بڑا دشمن ثابت ہورہا ہے۔
Source: