حنا شاہنواز /صادقین ، سنناہٹ اور تیزایبت

میں ایک بیمار آدمی ہوں ، معدے کی تیزایبت کا شکار  پھر بھی چین سموکر، پیروں ،ہاتھوں اور سر کے مسلسل درد کا شکار مگر مرے دل اور دماغ تروتازہ رہتے ہیں اور ان میں خیالات و احساسات کے باہمی میلاپ سے بھانبڑ مچا ہی رہتا ہے۔جب ان کے مارے جانے کی خبر مجھ تک پہنچی اور ان کی مرنے سے پہلے اور مرنے کے بعد کی تصویریں مرے انباکس میں نمودار ہوئیں تو میں اپنی محبوبہ سے اس کے آن لائن ہونے کے باوجود ہم کلام نہ ہونے پہ جھگڑا کرنے میں مصروف تھا اور وہ مجھ سے کہہ رہی تھی کہ مجھے بتاؤ کہ “کافکا کیا ہے؟ میں جل کر اس سے کہہ رہا تھا کہ میں تمہارا منشی لگا ہوں کیا اور وہ لاڈ سے کہہ رہی تھی کہ کیا نہیں ہو؟ میں نے اسے ریختہ پہ عاصم بٹ کا ترجمہ کی ہوئی کافکا کی کہانیوں کا لنک دیا اور کہا جاکر وہاں پڑھ لو۔

جانتا ہوں وہ وہاں کبھی نہیں جائے گی اور بس مجھ سے سننا چاہتی تھی چاہے کوئی بھی بکواس کافکا کے نام پہ اس سے کردوں۔لیکن اس دوران حنا شاہنواز کی من موہنی تصویریں اور 26 سالہ دو بچوں کی ماں صادقین کے مارے جانے کی خبر نے مجھے اتنا بے چین کیا کہ میں اپنا سارا رومان اور ساری لگاوٹ بھول گیا اور بار بار تصویروں کو تکتا اور خبر کو الٹ پلٹ کر پڑھنے لگا تھا۔مری محبوبہ بھی جان گئی کہ میں بات کرنے کے موڈ میں نہیں رہا اور اسے نے بھی یک دم مجھے “گڈ نائٹ ” کہہ دیا۔

کیا اتفاق ہے کہ آج صبح جب اٹھا تو ایک کیفے پہ کچھ نوجوان ملنے آئے، ان میں ایک نوجوان اپنے بریک اپ کے ہاتھوں بڑا پریشان تھا اور جانے والی پہ سارے الزامات دھرے جارہا تھا اور میں اسے سمجھانے لگا ہوا تھا کہ تم عورت کو ایک جیتا جاگتا وجود سمجھو اور آزادی سے محبت کرنے کی سمجھ لو تو تمہیں سامنے والے کے ساتھ ہوئے کنٹریکٹ میں اگلے کے مساوی فیصلہ لینے کے اختیار کی سمجھ آئے نا۔اگر عورت کاموڈیٹی نہ ہوتی تمہاری نظر میں تو تم کبھی نہ کہتے کہ “بہن کی ل۔۔۔۔۔ی دغا کرگئی ” اپنے اندر سے تشکیک کا کیڑا نکالو تو تمہیں عورت پورے جیتے جاگتے دل و دماغ کے ساتھ ایک مکمل انسان نظر آئے اور تم اپنے سے الگ ہونے کے بعد بھی اس کا احترام کرنا سیکھ لو۔میں اس سے یہ باتیں کررہا تھا تو نجانے کہاں سے مرے ذہن میں پابلو نرودا کی نظم “باڈی آف ویمن”کی یہ لائنیں پردے پہ چلتے فلم کے مناظر کی طرح چلنے لگیں:

I was lone like a tunnel. The birds fled from me,

and nigh swamped me with its crushing invasion.

To survive myself I forged you like a weapon,

like an arrow in my bow, a stone in my sling.

اور ایک دم سے کافکا کی اپنی محبوبہ ملینا کو لکھے خط کی یہ لائن مرے ذہن میں در آئی

I believe that woman takes the lead, as for example she demonstrated in the Garden of Eden – where as usually happens she was ill rewarded for doing so.

حنا شاہنواز اور صادقین جیسی عورتیں کیا کرتی ہیں، کہ وہ لیڈ کرتی ہیں ایسے جیسے باغ عدن میں حوّا نے رہنمائی کی تھی اور کیا ہوا ان کے ساتھ اس کا صلہ ان کو ان کے لہو کے خراج کی صورت میں ملا۔نزار قبانی کی جھلی عورت کہتی ہے کہ مرد ان کو زمین میں گاڑنے کے درپے رہتے ہیں اور اس کی بہن اپنے پسند کے مرد کے نہ ملنے پہ خودکشک کرلیتی ہے اور اس کی محبوبہ بلقیس بیروت میں سفارت خانے میں ہوئے بم دھماکے میں ماری جاتی ہے۔مجھے ناظم جکمت کی نظم ” ہماری عورتوں کے چہرے ” یاد آنے لگی۔

Mary didn’t give birth to God.

Mary isn’t the mother of God.

Mary is one mother among many mothers.

Mary gave birth to a son,

a son among many sons.

That’s why Mary is so beautiful in all the pictures of her.

That’s why Mary’s son is so close to us, like our own sons.

The faces of our women are the book of our pains.

Our pains, our faults and the blood we shed

carve scars on the faces of our women like plows.

And our joys are reflected in the eyes of women

like the dawns glowing on the lakes.

Our imaginations are on the faces of women we love.

Whether we see them or not, they are before us,

closest to our realities and furthest.

Nazim Hikmet

مایا اینجلو کی “فنومنل ویمن ” اور ناظم حکمت کی ہی “اے لٹل گرل ” اور محمود درویش کی نظم ” ریٹا اور بندوق ” مجھے یہ سب کچھ حنا شاہنواز اور صادقین کے مارے جانے پہ ہی کیوں یاد آرہا ہے،وہاں کوئی بڑی ٹریجڈی کا تذکرہ تو نہیں ہے بلکہ یہ ان بڑے شاعروں اور شاعرات کے ہاں ان کی رومانوی زندگی کی جھلکیاں ہیں۔

ریٹا تمہارے اور مرے درمیاں

یہ اک بندوق کیسی ہے

ریتا تمہارے اور مرے درمیاں

یہ تصویریں اور تتلیاں سی کیسی ہیں

 محمود درویش

پھر ان کے درمیان میری مجبوبہ ساری کی قلم تھامے کومل کومل سی انگلیاں اور ان کی پوروں کو چوم لینے کی خواہش کیسی ہے؟ اور ان سب کے درمیان حنا کی لاش کے چہرے سے ٹپکتا خون کیوں اسقدر رومانوی منظر کو خوفناک اور وحشت زدہ سا بنادیتا ہے؟ کیا مرے معدے کی تیزابیت مری حس جمالیات کو خون آشامی سے لتھڑے مناظر میں گڈ مڈ کرکے ایک مرتاض منظر نامہ تشکیل دیتی ہے؟

ان میں کہیں بندوقیں تانے ، گالیاں بکتے، لاٹھیاں برساتے دشت بلوچستان میں ایف سی کے شیر جوانوں کی گھیر دار بلوچ کشیدہ کاری سے مزین شلوار قمیص پہنی عورتوں کے معصوم مگر ڈرے ڈرے سے چہروں کے نقوش آن ٹپکتے ہیں اور کہیں سے جبری گمشدگی سے واپس آنے والا شاعر مجھے کہتا ہے کہ ” اس کی لکھی نظم اس کی نہیں ، فلاں کی ہے، فلاں کی ہے اور اعتذار چھاپ دو ” اور اس کی آنکھوں سے جھلکتا خوف مری آنکھوں کی پتلیوں میں سکین ہوجاتا ہے۔اور استاد محمد راحموں کی بیٹی کا معصوم چہرہ خشک گھاس پہ بچھی دری اور بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھی چند عورتوں کے چہروں سے ٹپکتی مفلسی سب مجھے اپنی طرف کھینچتی ہیں اور مرے دماغ کے کینویس میں یہ اتنی ساری تصویریں ماتمی ماتمی رنگ لئے ہیں۔

ان میں شکیلہ مجیب کی اپنے بیٹے کو پکارتی آنکھوں کی تصویر کہاں رکھوں اور 12 ہزار گمشدہ بلوچوں کی مائیں بہنوں ، بیویوں اور پھر پانچ جبری گمشدہ شیعہ نوجوانوں کی ماؤں کے دکھی چہروں کے لئے جگہ تلاش کرنے میں دل خوں ہوتا ہے اور یہ سب تصویریں عورتوں کی ہیں جن سے جڑے کرداروں کو سامنے لانے میں مرے معدے کی تیزایبت اور شدید ہوجاتی ہے کیونکہ اس دوران گھٹیا سے تمباکو سے بنی سگریٹیں مقررہ کوٹے سے کہیں زیادہ پھونکی جاتی ہیں اور بڑھیا تمباکو کی بنی سگریٹوں کو خریدنے سے بچوں کی فیس اور گھر داری چلانا مشکل ہوجاتا ہے۔

اگر تمباکو پھونکنا بند کرتا ہوں تو دماغ کی رگ پھٹنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔مفلسی جبری گمشدہ کردئے جانے سے کہیں زیادہ بڑا خطرہ ہے کیونکہ چھوٹے چھوٹے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے مائیں بیسوا بنتی ہیں اور اس دوران کوئی غیرت مند ان ماؤں کو گولی مارسکتا ہے۔عباس زیدی کہتا ہے کہ کراچی اور ڈیرہ اسماعیل خان میں کچھ شیعہ مرد جو مارے گئے شیعہ شناخت کے سبب اب ان کی عورتیں جسم بیچتی ہیں اور بچوں کا پیٹ پالتی ہیں۔

سر کا درد اور بڑھ جاتا ہے اور تیزابیت معدے کی اور تیز ہوجاتی ہے۔میں کچھ اور بیمار نظر آنے لگتا ہوں۔گل کہتی ہے شادی کی پہلی رات گزری نہیں تھی اور وہ طلاق یافتہ ہوکے گھر بیٹھی تھی کیونکہ اس کا شوہر ابنارملٹی کی حدوں کو چھو رہا تھا اور اس سے “خون کے چھینٹوں کی نشانی ” دئے جانے کا مطالبہ ناکامی سے دوچار ہوا تھا۔اور اب تعلیمی ادارے میں ہر مرد اسے رکھیل بنانا چاہتا ہے اور ایسے اس کی غمگساری کا وعدہ کیا جاتا ہے۔

میں اپنی مجبوبہ ساری کو یہ سب باتیں بتاکر غمزدہ کرنے سے باز رہتا ہوں۔اس کے گرد محبت کی ایسی فنتاسی بننا چاہتا ہوں جس میں سب سامان طرب کا ہو اور المیہ کا گزر نہ ہو مگر ایسا بھلا کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔دمے کی مرض سے ہانپتی کانپتی ،کھوں کھوں کرتی وہ استانی کہتی ہے کہ اسے بھی اپنی باڈی کو مسلسل گھورے جانے کے خوف سے نجات کیسے ملے اور مرد کب فون پہ اس سے اورل سیکس کے مطالبے بند کریں گے۔کیا یہ محض رانوں کی سنسناہٹ کا قصّہ ہے؟

سعادت حسن مر بھی جائے تو منٹو مرنے کا نام نہیں لیتا ہے۔ایف سی والے اس بلوچ عورت کی جھونپڑی میں گھسے ایک ہاتھ سے بندوق اس کی طرف کئے دوسرے ہاتھ سے اس کی چھاتیاں ٹٹولتا ہوا وہ چھے فٹ کا نوجوان اسے ہڑکایا کتا لگتا ہے اور وقفے وقفے سے ” پاکستان زندہ باد ” کے نعرے اس کے کانوں کے پردے پھاڑے جاتے ہیں اور یہ مسلمانوں کے غالب آنے کا ایک انوکھا اور جنسی لذت سے بھرا دلچسپ واقعہ ہے۔اور اس پہ لاہور کے بٹ صاحب کہتے ہیں وہ بلوچی لباس پہنے حرافہ راء کی ایجنٹ تھی جسے پامال کرنے میں ہی کامیابی ہے۔شازیہ مری کو فتح کرنے والا میجر ترقی کرکے شاید فور سٹار جنرل بنادیا گیا ہو۔

اور اس فتح پہ جلنے کڑھنے والا 80 سال کا بوڑھا ایک غار پہ برسنے والے بموں اور اندر پھیلائی جانے والی زھریلی گیس سے نجانے کہاں غائب ہوا کہ بس عینک اور اس کی لاٹھی کی کچھ باقیات ہی بچ پائی تھی۔ٹکڑوں میں چلنے والی یہ فلم مرے ذہن میں کھلبلی مچاتی ہے تو میں باہر سے اور شانت نظر آنے لگتا ہوں۔کریمہ بلوچ کی آواز اور تیز ہوجاتی ہے۔فرزانہ بلوچ زور زور سے زاکر مجید پکارتی ہے اور زرینہ بلوچ اپنے شوہر شبیر بلوچ کی سلامتی کی دعائیں مانگتی ہے۔

سول سوسائٹی لاہور گریژن کا دورہ کرتی ہے اور اورنگ زیب فاروقی کراچی پریس کلب کے عہدے داروں سے پھول کے بوکے وصولتا ہے۔بنگالی عورتیں ، بلوچ عورتیں ، سندھی عورتیں ، سرائیکی عورتیں ، کشمیری عورتیں، فلسطینی عرب عورتیں، عراق و شام کی عورتیں ان سب کو دیکھ کر بندوقوں والوں کی رانوں میں سنساہٹ بڑھتی ہے اور شہوت زور مارتی ہے اور مری تیزایبت میں اور اضافہ ہونے لگتا ہے۔

Source:

حنا شاہنواز /صادقین ، سنناہٹ اور تیزایبت

Comments

comments