حافظ سعید اور جماعت دعوہ کی مخالفت کیوں نہ کی جائے ؟
ایک صاحب نے اپنی فیس بک وال پہ سٹیٹس لگایا ہے کہ پاکستانی اہل تشیع سے درخواست ہے کہ حافظ سعید کے خلاف امریکی محاذ کا حصّہ مت بنیں۔حافظ سعید کوئی فرقہ پرست قاتل نہ تھا۔اس کی آواز صرف کشمیر کے لئے تھی۔اگر اہل تشیع بھی اس کے خلاف محاذ کھولیں تو اتنا ضرور سوچ لیں کہ آپ اپنے ہی پل کو گرارہے ہیں۔یہ تاریخی غلطی ہوگی “
پھر اسی طرح کے حافظ سعید اور جماعت دعوہ بارے کچھ اور سٹیٹس بھی شئیر کئے گئے ہیں۔آئیں زرا اس موقف کی تھوڑی سی تحلیل کرتے ہیں
“حافظ سعید کے خلاف امریکی محاذ کا حصّہ مت بنیں “
جماعت دعوہ /لشکر طیبہ /تنظیم دعوت والارشاد 80ء کی دھائی میں افغان جہاد کے دوران تشکیل پائی تھی اور کنگ سعود یونیورسٹی سعودی عرب سے پڑھ کر آنے والے پروفیسر حافظ سعید اور ان کے کچھ اور سلفی وہابی ساتھیوں نے افغانستان میں قائم سوشلسٹ حکومت اور اس کی حفاظت کے لئے آنے والی سوویت یونین کی افواج کے خلاف پنجاب سے نوجوانوں کو پاک۔افغان سرحد پہ قائم سی آئی اے،آئی ایس آئی کی زیرنگرانی تربیتی کیمپوں مین مسلح تربیت دیکر لڑنے کے لئے تیار کرنے والی ایک تنظیم دعوت والارشاد کی بنیاد رکھی گئی ۔80ء کی دھائی تک یہ امریکی فنڈڈ پروجیکٹ تھا جسے جہاد افغانستان کا نام دیا جارہا تھا۔
آج آپ کسی بھی جہادی تنظیم اور اس کی حمایت کرنے والی مسلم سلفی و دیوبندی تنظیم سے پوچھیں کہ بھئی آپ امریکی ڈالر لیکر امریکی سامراجی کیمپ کے ایجنڈے کو پورا کررہے تھے اور امریکی محاذ میں آپ نے شامل ہوکر پوسٹ کولڈ وار مین جو کچھ ہورہا ہے اس میں سہولت کار کا کردار ادا کیا۔آپ کا جہاد امریکی پروجیکٹ تھا تو یہ کہیں گے کہ امریکہ کے اپنے مقاصد تھے اور اسلام پسند تنظیموں کے اپنے مقاصد تھے اگر اس میں کہیں پہ کوئی اشتراک کا پہلو نکل آیا تو اس سے یہ کہاں سے ثابت ہوگیا کہ ہم امریکی ایجنڈے اور امریکی محاذ پہ کام کررہے تھے۔آپ آئی ایس آئی کے سابق افسران جو کہ پاکستان کی “تزویراتی گہرائی ” کی پالیسی کے خالق تھے اور جنھوں نے کشمیر ایشو کے حل کے لئے “جہاد کشمیر پروجیکٹ” تخلیق کیا ان سے سوال کریں کہ انھوں نے امریکی سرمایہ دارانہ کیمپ کا ساتھ کیوں دیا تو وہ ایسے بہت سے دلائل آپ کے سامنے رکھیں گے جن کا لب لباب یہ ہوگا کہ امریکہ اور مغربی دنیا کے افغان پروجیکٹ مین شمولیت کے اپنے مقاصد تھے اور ہمارے اپنے اور ہم نے قومی مفاد میں یہ سب کیا اور امریکی کیمپ کا حصّہ بن گئے۔
آج ہمیں یہ کہا جارہا ہے کہ اگر آپ حافظ سعید اور جماعت دعوہ کی مخالفت کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ جماعت دعوہ اور حافظ سعید کے خلاف قائم کردہ امریکی محاذ کا حصّہ ہیں۔اس کا ایک اور بھی مطلب نکلتا ہے۔کہ حافظ سعید اور جماعت دعوہ کی اگر آپ مخالفت کرتے ہیں تو آپ ہندوستان کی نریندر مودی کی حافظ سعید اور جماعت دعوہ کے خلاف چلائی جانے والی مہم کا حصّہ بن رہے ہیں۔اور اسی کا ایک اور مطلب بھی نکال لیں کہ اگر آپ حافظ سعید کے مخالف ہیں تو آپ پاکستان اور اس کے مفادات کے مخالف ہیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ اہل تشیع کو جب ان صاحب نے مخاطب کیا تو اس سے ان کی مراد کیا تھی؟ کیا ان کا مخاطب اہل تشیع کی مذہبی قیادت تھی؟ کیا وہ عام شیعہ کو مخاطب کررہے تھے۔شیعہ کمیونٹی پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی بھارت اور افغانستان کے حوالے سے “تزویراتی گہرائی ” کی پالیسی بارے ویسے ہی تحفظات رکھتی ہے جیسے پاکستان کے اہل سنت بریلوی رکھتے ہیں۔اور ان کا موقف بہت واضح ہے کہ جہاد افغانستان اور جہاد کشمیر کے نام پہ پاکستانی ملٹری اسٹبلشمنٹ نے دیوبندی اور سلفی مسالک کے اندر سے ایسا عسکریت پسند نیٹ ورک کھڑا کردیا جس نے پاکستان میں دونوں کمیونٹیز کو مارجنلائز کیا ۔
پاکستان میں جہاد ازم ، عسکریت پسندی ، سعودی فنڈنگ اور دیگر بہت سے عوامل نے پاکستان کے تکثریت پسند سماج کو تیزی سے یک نوعی اور مونو لتھک بنانے کا کام کیا۔اس جہاد ازم ، عسکریت پسند نیٹ ورک نے پاکستان میں پہلے سے مارجنلائزڈ ہوئی کرسچن ، ہندؤ ، سکھ اور احمدی کمیونٹی کو اور دیوار سے لگایا اور ان کو خاموش کرانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
حافظ سعید اور ان کی جماعت دعوہ پاکستان کو سعودی عرب بنانے ، پاکستان کو ایک ریڈیکل وہابی ریاست میں بدلنے کی مہم کو اگے بڑھانے میں پوری طرح سے ملوث ہے۔اور وہ پاکستان کے اندر جس عسکریت پسندی اور اسلام کے نام پہ جن خیالات کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں ان سے اس ملک کے سواد اعطم اہلسنت، شیعہ ، کرسچن ، ہندؤ اور دیگر اقلیتوں کو سوائے یک نوعی معاشرتی زندگی قبول کرنے کے اور کوئی راستہ نہیں رہے گا۔
حافظ سعید اور جماعت دعوہ پاکستانی ریاستی اداروں میں اس لابی کے تزویراتی اثاثے ہیں جس کے نزدیک پاکستان کے اندر موجود بلوچ ، سندھی ، سرائیکیوں ، گلگت بلتیوں،ہزارہ اور پشتونوں کو اپنی قومیتی و نسلی شناختوں ، کلچر سے دستبردار ہونے کا اعلان کرنے کی ضرورت ہے اور ان کی پاکستانیت کا مطلب ہی ان شناختوں کی نفی ہے اور وہ پاکستان کے حکمران طبقات کے ترقی ، قومی سلامتی کے تصورات اور ان تصورات کے تحت چلائے جانے والے نام نہاد ترقیاتی پروجیکٹس کے زریعے سے اپنی شناخت ،بقاء کو لاحق خطرات پہ اپنی رائے کا اظہار کرنا چھوڑ دیں اور فوجی آپریشنز، جبری کمشدگیوں،ماڑ دھاڑ ، نسل کشی پہ خاموشی اختیار کرلیں۔حافظ سعید کے نزدیک بلوجستان کی نمائندگی شاہ زین بگٹی ، سرفراز بگٹی ، سردار ثناء اللہ زھری کرتے ہیں۔مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں قومی ، نسلی جبر کی مرکز میں علمبردار جو قوتیں ہیں حافظ سعید اور ان کی جماعت ان سے مکمل ذہنی ہم آہنگی محسوس کرتی ہے۔
حافظ سعید کا گلوبل جہاد ازم کے بارے میں اگر رویہ متعین کرنے کی ضرورت ہے تو ان کے اور ان کی جماعت کے خیالات القاعدہ اور اس کی قیادت بارے خیالات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔وہ اسامہ بن لادن کو اسلام کا سچا پیرو ، مجاہد اور اسے شہید اعظم قرار دیتے ہیں اور اس کے مرنے پہ پورے ملک ميں غائبانہ نماز جنازہ بھی پڑھواتے ہیں۔حافظ سعید تحریک طالبان افغانستان کے بھی سب سے بڑے حامی ہیں۔اور پاکستان میں جو تنظیمیں اپنے تئیں جہاد کررہی ہیں جسے پاکستان کی ریاست دہشت گردی کہتی ہے اس بارے میں ان کا رویہ کیا ہے ؟
ان کے بیانات ، تقریریں ملاحظہ ہوں کہ وہ اسے راء، موساد ، سی آئی اے کی کاروائی قرار دیتے ہیں۔جبکہ پاکستان کے اندر شیعہ کے خلاف دشمنی اور نفرت کی بدترین تکفیری مہم چلانے والی تنظیم اہلسنت والجماعت/ سپاہ صحابہ پاکستان کے ساتھ وہ دفاع کونسل پاکستان کے اندر بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ وہ اس تنظیم کی قیادت سے گہرے رشتے رکھتے ہیں اور جب وہ کوئٹہ جاتے ہیں تو ان کے سٹیج پہ رمضان مینگل سے لیکر ہر وہ کردار بیٹھا ہوتا ہے جو بلوچستان میں شیعہ ہزارہ کی نسل کشی میں ملوث ہے۔
حافظ سعید کا شام بارے کیا موقف ہے ؟ اس حوالے سے ان کے رسالے “الحرمین ” اور “ہفت روزہ اخبار ” جرار ” کا مطالعہ کافی ہوگا۔پاکستان میں رہنے والے اہلسنت و جماعت سواد اعظم المعروف بریلوی بارے اس تنظیم کے خیالات کیا رہے ہیں ؟ اور اس تنظیم نے کیسے اہلسنت کو مارجنلائز کرکے پاکستان میں سعودی وہابائزیشن کو منظم انداز میں چلایا ہے اس کے لئے آپ کو اس تنظیم کے اشاعتی مرکز کی 90ء کی دھائی سے لیکر ابتک کی شایع ہونے والی کتابوں اور رسالوں کا جائزہ لینا ہوگا۔یہ تنظیم شام میں ” نصرہ فرنٹ ” سمیت سعودی عرب، قطر کی حمایت یافتہ ہر سلفی جہادی تنظیم کی حمائتی ہے۔
اور یہ یمن پہ سعودی جارحیت کی بھی حمائتی ہے۔یہ مڈل ایسٹ میں جاری اس وقت مسلح تصادموں میں غیر جانبدار نہیں ہے وہاں پہ اس کا ووٹ سعودی عرب کے کیمپ میں ہے اور یہاں حافظ سعید اور جماعت دعوہ کی مخالفت کو امریکی محاذ میں شرکت کہنے والے کیا ہمیں یہ بتائیں گے کہ وہاں مڈل ایسٹ میں اسد کے خلاف لڑنے والوں کا (داعش کو چھوڑ کر ) امریکی کیمپ بھی حامی ہے تو کیا حافظ سعید اور ان کی جماعت بھی سعودی عرب کی حمائت کرکے کیا امریکی کیمپ کی حمایت کی مرتکب نہیں ہورہی ہے۔
حافظ سعید صرف کشمیر میں جہاد ازم کے تحت کام نہیں کررہا ہے ،وہ نام نہاد جہاد ازم کی آڑ میں پاکستان کے اندر مظلوم قومیتوں ، غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف بھی سرگرم عمل ہے، وہ جہاد ازم کے نام پہ افغانستان میں مداخلت کا حامی ہے ، وہ پوری دنیا میں جہاد ازم کے نام پہ عسکریت پسندی کا حامی ہے اور وہ ریڈیکل وہابی ازم کی آئیڈیالوجی کو پوری دنیا میں ایکسپورٹ کرنے کے پروسس اور پروجیکٹ کا ایک حصّہ ہے۔وہ خارج کرنے والے پاکستانی نیشنل ازم اور تکفیریت کے قریب جاپڑنے والی اسلام پسندی پہ مبنی آئیڈیالوجی کا علمبردار ہے۔
کہتے ہیں ” اہل تشیع ” کو سوچ لینا چاہئیے کہ وہ اگر حافظ سعید کی مخالفت کریں گے تو خود ہی اپنے پل کو گرادیں گے ۔اس ملک میں 22 ہزار سے زائد شیعہ اپنی شناخت کے نام پہ مارے گئے، 45 ہزار سے زائد صوفی سنّی سواد اعظم اہلسنت اس دہشت گردی کا نشانہ بنے جسے جہاد کے نام پہ روا رکھا گیا اور آج تک اس کی مذمت کے خلاف آئیں بائیں شائیں ، اگر مگر ، لیکن ،چونکہ چناچہ کے ساتھ گول مول موقف رکھنے والے جن کی مساجد و مدارس تک آج بھی اس ملک کی سب سے بڑی تکفیری اور فاشسٹ تنظیم کے لئے کھلے ہیں اس کے ساتھ اتحاد ہے حافظ سعید اور ان کی جماعت کا اور دفاع پاکستان کونسل طاہر القادری کے دھرنے کے موقعہ پر بھی اسلام آباد جادھمکتی ہے اور جب ایک مرتبہ پھر عمران خان کال دیتا ہے اسلام آباد لاک کرنے کی یہ وہاں پہ جلسہ کرتے ہیں۔حافظ سعید اور ان کی جماعت حقیقت میں کبھی صوفی سنّی اور اہل تشیع کی نسل کشی کے خلاف پل نہیں بنے اور ان کے اتحادوں کی ساخت نے بتایا کہ وہ کس کے ساتھ ہیں ؟
مجھے نہیں معلوم کہ اہل تشیع کمیونٹی حافظ سعید کو امت مسلمہ کا غم خوار بناکر پیش کرنے والوں کی درخواستوں پہ کان دھرے گی یا نہیں لیکن مجھے کم از کم اپنی سنّی کمیونٹی کے بارے میں بخوبی علم ہے کہ اس نے کبھی بھی نام نہاد جہاد ازم اور عسکریت پسندی کے حق میں اپنا وزن نہیں ڈالا۔جہادی نیٹ ورک اور تکفیریت کا کاروبار دیوبندی اور وہابیوں کی پاکستان میں امپائر بنانے اور اس ملک کے صوفی سنّی اکثریت آبادی کو اقلیت میں بدلنے کا پروجیکٹ ہے جس کی اہلسنت سواد اعظم کی اکثریت نے کبھی حمایت نہیں کی ہے۔سٹیٹس لکھنے والا شاید جانتا تھا اس لئے اس نے کم از کم صوفی اہلسنت کو مخاطب کرنے کی کوشش نہیں کی۔ویسے ایسے سٹیٹس جب اپ ڈیٹ کئے جاتے ہیں تو ساتھ ساتھ یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ان کو اپ ڈیٹ کرنے والوں کی ہمدردیاں کہاں ہیں اور ان کے کمیونسٹ اور لیفٹ ازم کی قلعی بھی ایک دم سے کھل جاتی ہے۔ایسے سٹیٹس نسل کشی کا شکار ایک مجبور ، محکوم ، پسی ہوئی اور کچلی ہوئی کمیونٹی کے لئے دبے لفظوں میں دھمکی بھی ہوتی ہے کہ اگر تم نے حافظ سعید ، مسعود اظہر ، کمانڈر فضل الرحمان خلیل اور ان جیسے اور لوگوں کے خلاف موقف اپنایا تو رہی سہی کسر ان کے لوگ پوری کردیں گے۔
حافظ سعید کو مہان اور نابغہ بناکر پیش کرنے والوں سے ایک سوال یہ بھی بنتا ہے کہ “جہاد کشمیر پروجیکٹ ” میں کشمیریوں کی مسلح گوریلا آزادی کی لڑائی میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ اور حزب المجاہدین کشمیری ونگ میں کیا کمی اور خامی تھی کہ پاکستان میں اس پروجیکٹ کی نگرانی کرنے والی قوتیں پہلے حرکۃ الانصار پھر جیش محمد اور اس کے بعد لشکر طیبہ کو سب سے عزیز ڈارلنگ بنانے کے منصوبے پہ عمل پیرا ہوئیں ۔ ویسے کشمیر کی قومی آزادی کی تحریک کو جہاد ازم اور اسلام ازم سے جوڑنے سے یہ کیس عالمی برادری میں ویسے ہی خراب ہوا جیسے فلسطین کی قومی آزادی کی تحریک میں گلوبل جہاد ازم کے داخلے سے فلسطین کا کیس بگڑ گیا۔
دہلی کے لال قلعے پہ جھنڈا لہرانے ، ” ہندؤ کا ایک علاج ۔الجہاد الجہاد ” جیسے نعرے حافظ سعید اور اس کی جماعت نے کیا نہیں لگائے تھے کہ اسے ایک امن پسند شخصیت بناکر پیش کیا جارہا ہے۔باقی باتیں اپنی جگہ پہ اصل حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کی وہابی اسٹبلشمنٹ اور پاکستان میں جہادی لابی کا ایک اہم مہرہ بین الاقوامی دباؤ کا شکار ہے اور یار لوگ اسے بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔