سنی بریلوی حضرات کی خدمت میں، بصد ادب و احترام
پاکستان کے اکثریتی مکتب سنی بریلوی کے اندر حالیہ دور میں جو شدت پسندی یا متشدد نظریات کی ایک لہر نے جنم لیا ہے، اس کا نکتہ آغاز بغیر کسی شک و شبے کے ممتاز قادری ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ متشدد رویہ کے حامل احباب نے صلح جو اور نرم رویہ رکھنے والی ایک بہت بڑی اکثریت کو واضح طور پر بائی پاس کر رکھا ہے۔ میرا اشارہ علامہ طاہر القادری اور دعوت اسلامی کے امیر مولانا الیاس قادری کی جانب ہے۔ جبکہ ایسے علماء کی بھی قابل ذکر تعداد موجود ہے جو مصلحتا اس معاملے پر خاموش ہیں۔
آپ غور کیجئے کہ وہ مکتب جو متشدد کاروائیوں یا نظریات کے پیرائے میں ایک بے ضرر شناخت رکھتا تھا، اسی مکتب کا ایک محدود دھڑا بہت تیزی سے اسی راستے پر جاتا دکھائی دے رہا ہے جہاں بات فتوے سے شروع ہوکر قتل پر ختم ہوتی ہے۔
مسالک کے مابین نظریاتی اور فکری اختلافات ایک علحدہ بحث یے۔ سنی بریلوی حضرات کے بھی ایسے لاتعداد اختلافات موجود ہیں جن پر مناظروں کی ویڈیوز یو ٹیوب پر بکھری پڑی ہیں۔ لیکن یہ ایک علحدہ موضوع ہے۔ یہ اختلافات عرصہ دراز سے پائے جاتے ہیں اور ہر مکتب کہ طرح سنی بریلوی علماء بھی اپنے نظریات کے دفاع میں اور مخالفین کی بیخ کنی میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔
لیکن جو صورتحال اب پیدا ہورہی ہے یہ مسلکی اختلافات سے متعلق نہیں ہے۔ یہ معاملہ عام بریلوی حضرات کے رویہ سے متعلق ہے۔ ممتاز قادری کی شخصیت کو “حق و باطل” کا پیمانہ بنا کر مخصوص نظریات کے حامل چند مولویوں نے جو طرز عمل اپنا رکھا ہے،اب اسکا عکس واضح طور پر سنی بریلوی حضرات کی نوجوان نسل میں آنا شروع ہوگیا ہے۔ یہ تعداد بہت نہ سہی، قابل ذکر ضرور ہے اور اس میں اضافہ ہورہا ہے۔
بات بات پر “قتل کے نعرے”، انتہائی اخلاق باختہ اسلوب، ایک ہی سانس میں عشق رسول (ص) کا اعلان اور اسی سانس میں ایک عدد گالی مخالفین کیلئے۔ میں جب باہر سے بیٹھ کر یہ سب دیکھتا اور سنتا ہوں تو مجھے یہ سب انتہائی تشویش میں مبتلا کردیتا ہے۔ ایک مکتب جس سے وابستہ اکثریت کو “اللہ میاں کی گائے” سے تشبیہ دی جاتی تھی، جن کا کل اسلام “الصلوات واسلام علیک یا رسول اللہ (ص)” سے لیکر گیارہویں شریف کی نیاز تک ہوا کرتا تھا، اب ایک محدود گروہ بات بات پر 27 گولیوں کی دھمکیاں دے کر اس پورے مکتب کا ہائی جیک کرتا نظر آتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یہ گروہ خود سے اختلاف رکھنے والے اپنے ہم مکتب حضرات کو بھی خوب آڑے ہاتھوں لیتا ہے۔ اس طرز عمل کو جب میں اولیاء و صوفیاء کے طرز عمل کی کسوٹی پر پرکھتا ہوں تو شائبہ ہوتا ہے کہ یہ گروہ خود کو اولیاء کا ماننے والا کس بنیاد پر کہتا ہے؟
متشدد نظریات اور سفاکیت نے پاکستان میں کیا تباہی پھیلائی ہے، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ یہ تباہی بھی ایک فکری شناخت کے حامل مکتب میں پائی جانے والی ایک محدود تکفیری فکر رکھنے گروہ نے پھیلائی۔ سوچیں کہ اگر پاکستان کے اکثریتی مکتب میں موجود ایک گروہ بھی اسی راہ پر چل نکلا تو کیا صورتحال ہوگی؟ کبھی کبھی تو محسوس ہوتا ہے کہ “اس گروہ” کو جان بوجھ کر اس جانب دھکیلا جارہا ہے۔
رسول اکرم (ص) سے ہم سب کو والہانہ محبت ہے، رسول کریم (ص) کی ذات ہر مسلمان کی عقیدت کا مرکز ہے، لیکن یہ کیسی منطق ہے کہ ایک مخصوص گروہ خود کو عشق رسول (ص) کا کاپی رائیٹ ہولڈر سمجھ کر ہر دوسرے مسلمان کے ایمان کا فیصلہ کرتا پھرے، قتل و قتال کے نعرے لگاتا پھرے اور یہ باور کرواتا پھرے کے عشق رحمت للعالمین (ص) کا مظاہرہ، صلہ رحمی کی بجائے اکھڑ پن، سفاکیت اور قتل و قتال سے کیا جائے؟
بریلوی مسلک کی جو مسلکانہ بنیادوں پہ مذہبی سیاست ہے اس کے چہرے کو بگاڑنے اور اسے بہت زیادہ متشدد راستے پہ ڈالنے میں پاکستان کی ریاست میں اپنی جڑیں رکھنے والی اسی لابی کا بڑا ہاتھ ہے جس نے ہمیشہ اردو ، دو قومی نظریہ اور اسلام کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔77ء کی تحریک میں ملٹری اسٹبلشمنٹ نے پی این اے کی ایجی ٹیشن کو اس وقت تک کامیاب نہ ہوتا پایا جبتک انھوں نے اس کمیونٹی کے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عقیدت ، محبت اور جذبات کا استحصال نہ کرلیا اور نظام مضطفی کا نعرہ بلند کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر بریلوی مذہبی جماعت جمعیت علمائے پاکستان ، جماعت اہلسنت پاکستان کے علمآء اور مشائخ اس تحریک کے لئے بریلوی استعارے متعارف نہ کراتے تو یہ تحریک سٹریٹ پالٹیکس میں پھس ہوکر رہ جاتی اور پنجاب کے شہروں میں وہ آگ نہ بھڑکتی جس مین بھٹو جیسا سحر انگیز لیڈر کی سیاست بھی جل گئی تھی اور بریلویوں کو بتدریج جنرل ضیآء الحق کے گیارہ سالہ دور مین یہ احساس ہوگیا تھا کہ جنرل ضیاء الحق نے ان کو استعمال کیا ہے اور اس ساری جنگ میں فائدہ ملٹری اسٹبلشمنٹ، سعودی نواز سلفی اور دیوبندی سیاسی جماعتوں کو ہوا ہے اور اس کا اگر بہت ٹھیک ٹھیا ادراک کسی شخصیت کو ہوا تھا تو وہ علامہ شاہ احمد نورانی تھے۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہ ضیآہ الحق کے سخت ترین مخالف ہوئے، اور ضیاء الحق کی عبوری کابینہ میں بھی شمولیت نہ کی ،ان کی پارٹی کو صیاء الحق نے بڑے منظم انداز سے توڑا ، اور پھر میاں نواز شریف نے بریلوی مکتبہ فکر کے کئی ایک مولویوں اور پیر صاحبان کو اپنے جال مين پھنسایا اور پنجاب میں بریلویوں کی سب سے مضبوط ترین پارٹی جے یو پی کے اتنے ٹکڑے کئے کہ آج وہ بریلوی سیاست میں کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہی۔
خود شاہ احمد نورانی اپنی زندگی کے اخری سالوں میں جماعت اسلامی کی سیاست کے محتاج ہوکر رہ گئے،جبکہ اس دوران بریلوی سیاست کا غالب چہرہ بتدریج ایک طرف تو پرو نواز شریف ملّا بنے ، اور دوسری طرف اس کا غالب چہرہ کراچی سے اٹھی ایک تنظیم سنّی تحریک بنی ، اس تنظیم کو ابھارنے میں خود پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ تھا اور اس نے بریلوی سیاست کو متشدد بنانے اور اس کے صوفی سنّی چہرے کو بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔
اس نے ایک موقعہ پہ مولانا شاہ احمد نورانی کی گاڑی پہ ڈنڈے برسائے ، ان کی توہین کی اور پھر یہی سب سے زیادہ تکفیری روش لیکر سامنے آئی۔یہ متشدد تنظیم تکفیری دیوبندی دہشت گردی کے سامنے تو کبھی ٹھہر ہی نہیں سکتی تھی اور نہ ہی یہ اپنی تنظیم اور پرتشدد مشینری کے اعتبار سے اس قابل ہی نہیں ہے کہ کوئی بڑی مزاحمت یہ پیدا کرسکتی لیکن اس نے بریلوی مسلک کے مذہبی نوجوانوں کو متشدد بنانے میں اہم کردار ضرور ادا کیا ہے۔
دعوت اسلامی، منہاج القرآن اور خاموش سنی بریلوی علماء کو اس معاملے کی نزاکت پر زیادہ سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے،اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔
نوٹ: مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں اور نہ کسی کے عشق رسول (ص) پر سوال اٹھانا، آپ کا عشق مولا (ص) سلامت رکھیں۔ بس مقصد اتنا تھا کہ جن دوستوں کے ساتھ بچپن میں مائیک پر کھڑے ہوکر نعتیں پڑھتے ہوئے انکی مسجد کیلئے چندے مانگے ہیں، انکو تشدد کی راہ پر جاتا دیکھ کر کچھ عرض کردوں۔ باقی جیسا آپ بہتر سمجھیں۔