وادی حسین (ع)، ایک بارونق شہرِ خموشاں
گزشتہ دنوں کراچی میں وادیِ حسین (ع) قبرستان جانا ہوا۔ داخل ہوتے ہی سب سے پہلا خیال اُن لوگوں کا آیا جو پاکستان میں ہونے والی شیعہ نسل کشی سے انکار کرتے ہیں۔ چھٹی کا دن نہیں تھا لیکن قبرستان میں خلافِ توقع لوگوں کی قابلِ ذکر تعداد موجود تھی۔ کسی قبر کے سامنے کوئی جوان بیٹھا تلاوت کر رہا تھا، کہیں پر کوئی پردہ دار خاتون سر جھکائے بیٹھی تھی، کہیں سے گریہ کی آواز آتی تھی، کسی قبر کے کے پاس سے بھرائی ہوئی آواز میں سوز و سلام پڑھے جانے کی آواز آرہی تھی اور کوئی میری طرح حیران و پریشان اِس شہرِ خموشاں کی “رونق” کا مشاہدہ کرنے میں مصروف تھا۔
مجھے بتایا گیا تھا کہ یہاں جن قبور کے اوپر علمِ عباس (ع) اور ایک عدد تعارفی کتبہ نسب ہے، یہ شہیدوں کی قبور ہیں جنہیں اِس لئے قتل کیا گیا تھا کیونکہ وہ شیعہ تھے۔ غور سے پڑھیں، قتل کئے جانے کی وجہ شیعہ ہونا تھی۔ انسان اور پاکستانی تو ہم سب ہی ہیں۔ بہرحال، شہیدوں کی قبور کی جو نشانی مجھے بتائی گئی، اُسے ذہن میں رکھتے ہوئے جب میں نے قبرستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک نظر دوڑائی تو لہراتے ہوئے علم کے پھریروں کا ہجوم اعلان کرتا نظر آیا کہ شیعہ نسل کشی ایک حقیقیت ہے۔ کیا بوڑھے، کیا بچے اور کیا جوان۔ حد تو یہ ہے کہ یہاں قتل ہونے والی خواتین کی قبریں بھی نظر آئیں۔ اِسی وادی حسین میں ایک ششماہی بتول زہراء کی ننھی سی قبر بھی ہے جو کراچی میں ایک امام بارگاہ پر بم حملے میں شہید ہوگئی تھی۔ یہ ننھی سی قبر تو میں نہیں دیکھ پایا لیکن بتول زہراء کی وہ تصویر ہم سب نے دیکھ رکھی ہے جس میں وہ کفن پہنے ہوئے بہت سکون سے سورہی ہے۔
میرے ہمراہ ایک شہید کے جواں سال بیٹے تھے، جو سر جھکائے مجھے اپنے والد کی قبر کی جانب لئے جاتے تھے۔ شہید کی زوجہ بھی ہمارے ساتھ ہی تھیں جنکی آنکھوں کی بینائی صرف پینتالیس برس کے سن میں اتنی کمزور ہوگئی کہ بغیر سہارے کے چل نہیں پاتیں۔ اِس سے پہلے کہ ہم قبر پر پہنچتے، مجھے ایک قبر کے سرہانے ایک ضعیف خاتون بیٹھی نظر آئیں۔ یہ ایک جواں سال عالمِ دین کی والدہ تھیں جو اب ہر روز اپنے جواں بیٹے کی قبر پر آکر بیٹھ جاتی ہیں، بلا ناغہ۔
پروفیسر سبطِ جعفر کی قبر نظر آئی، تعارفی کتبے پر اُن کے قتل کی مختصر تفصیل لکھی تھی۔ آگے بڑھا تو پروفیسر تقی ہادی نقوی کی قبر پر نظر پڑ گئی۔ دل بجھ سا گیا اِن ناموں کو قبروں پر لکھا دیکھ کر. شاید دل تسلیم نہیں کر پارہا تھا۔ میں چلتا تھا اور ہر کچھ دیر بعد کسی ایک شہید کی قبر میرے سامنے آجاتی تھی۔ ڈاکٹرز، وکلاء، پروفیسرز اور مشہور شخصیات کی قبریں۔ سوچ میں پڑ گیا کہ کہاں کہاں رکوں، مغرب کا وقت بھی قریب ہے۔ وقت کم ہے اور قبریں بہت زیادہ۔
ایسے ہی دو قبروں پر نظر رُک گئی۔ بمشکل بائیس سے چوبیس برس کے دو جوانوں کی قبریں۔ ایک ساتھ بنائی گئی تھیں، شاید ایک ہی دن میں قتل کئے گئے تھے۔ اِن کے بالکل قریب ایک اور جوان کی قبر تھی۔ تینوں قبروں پر جوانوں کی تصویریں لگائی گئیں تھیں، ٹو پیس سوٹ پہنے ہوئے بہت اچھی تصویریں۔ ایسی تصویریں عموما پروفیشنل سی ویز اور پروفائلز میں نظر آتی ہیں، میں نے قبروں پر آویزاں دیکھیں۔ ورثاء کے بھی تو کچھ ارمان ہوتے ہیں آخر۔
مجھے خرم زکی کی قبر نہیں مل پارہی تھی۔ میرے ساتھ آئے یوئے نوجوان نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ وہ مئی 2016 میں شہید ہوئے تھے نا، آئیں ادھر آئیں۔ وہ مہینے اور تاریخیں گنتا ہوا ایک جگہ پہنچا اور بتایا کہ یہاں ہونی چاہئے۔ وہ وہیں تھی۔ کراچی میں شیعہ نسل کشی جتنی منظم ہے، یہاں وادی حسین قبرستان میں شیعہ مقتولین کی قبریں بھی اُتنی ہی منظم ہیں۔ ترتیب وار۔
میں خرم زکی کی قبر پر کچھ دیر تو خاموش کھڑا قبر کے کتبے کو دیکھتا رہا۔ فاتحہ پڑھی اور دل ہی دل میں خرم زکی کو مخاطب کر کے کہا کہ خرم بھائی میں نور درویش ہوں، میرا اصل نام یہ ہے۔ آئیندہ خواب میں کوئی پیغام دینا ہو تو فون پر نہیں، براہ راست دے دیجے گا۔ دل چاہا کہ خرم زکی کے کتبے پر قلم سے یہ بھی لکھ دوں “ایڈیٹر تعمیرِ پاکستان بلاگ”۔
خرم زکی کی قبر پر تعارفی کتبہ اور علمِ عباس (ع) ابھی نصب نہیں کیا گیا۔ شاید کچھ عرصہ میں ہوجائے۔ خرم زکی سمیت، اِس قبرستان میں مدفون ہزاروں شیعوں کے قاتل اب بھی آزاد ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بیشتر قبروں پر سرخ علم نصب ہیں، یعنی وہ مقتول جسکے خون کا بدلہ نہ لیا گیا ہو، یا جس کا قاتل آزاد ہو۔ امام حسین (ع) کے روضے پر بھی سرخ پرچم اسی وجہ سے نصب ہے۔
خرم زکی شہید کو بھی گزشتہ سال تکفیری دیوبندی دہشتگردوں نے شہید کر دیا اور ان کے قاتل ابھی تک نا صرف آزاد گھوم رہے ہیں بلکہ شہر شہر جلسے بھی کرتے پھر رہے ہیں
مغرب کا وقت قریب تھا۔ میں اپنے ساتھ کھڑے نوجوان کے ہمراہ واپس اُسکے شہید والد کی قبر پر آیا جہاں اُسکی والدہ سرجھکائے بیٹھی تھی۔ مجھے کہا گیا کہ بھائی سلام کے دو اشعار تم بھی پڑھ دو۔ میں نے وادی حسین میں سلام پڑھا اور بے انتہا بوجھل دل کے ساتھ اِس “بارونق شہرِ خموشاں” سے باہر نکل آیا۔
نوٹ: تحریرکافی طویل ہوگئی، لیکن اختصار میرے بس سے باہر تھا۔