حق جمہور اور خلافتی بریگیڈ – فرخ عباس حسینی
جب سے جھنگوی جیتا ہے پوشیدہ جھنگوی المعروف اہل لبرل والجماعت گینگ والے جمہوریت میں اکثریت کی راۓ کے احترام کا درس دے رہے ہیں – بنیادی انسانی حقوق کو کسی بھی قسم کے نظام میں اکثریت کی محتاجی کی ضرورت نہیں ہوتی –
مثال کے طور پر پاکستان میں مردوں کی اکثریت خواتین پر تشدد کو اپنا حق تصور کرتی ہے تو اس بنیاد پر خواتین پر تشدد کو اکثریت کی راۓ مان کر اس پر خاموشی اختیار کر لینی چاہیے ؟
چلیں اس بات کو تھوڑا اور آگے بڑھاتے ہیں جیسا کہ ہولو کاسٹ کے دوران نازی جرمن یہودیوں کے قتل عام کو درست جانتے تھے اور ان کی ” اکثریت ” یہودیوں کے قتل عام پر متفق تھی تو کیا یہ اکثریت کی راۓ کے آگے سر تسلیم خم کرنے کا فارمولا یہاں بھی لاگو کیا جا سکتا ہے؟ یقیناً نہیں –
ایک ایسی تنظیم جس کی بنیاد ہی ایک مسلک کی تکفیر اور قتل عام پر رکھی گیی ہو اور پھر اس جماعت کے مختلف چہروں کی جانب سے اس مخصوص مسلک سمیت بریلوی، احمدی ، ہندو ، مسیحی سمیت تمام مسالک اور مذاہب پر یکطرفہ حملے جاری ہوں تو یہاں یہ اکثریت کی راے کے آگے سر تسلیم خم کرنے کا مشورہ بکواس کے سوا کچھ نہیں – یاد رہے یہ کالعدم تکفیری تنظیم پاکستان میں رہنے والے شیعہ ، بریلوی، احمدیوں ، ہندووں اور مسیحوں کے زندہ رہنے کے حق کے بھی خلاف ہے اور ایسا اس جماعت سے جڑے لوگ سینکڑوں بار اپنے قول اور عمل سے ثابت کر چکے ہیں –
اور حیران کن بات یہ ہے کہ اس تکفیری کالعدم تنظیم کا موازنہ ایک ایسی تنظیم کے ساتھ کیا جا رہا ہے جس نے گزشتہ انتخابات میں نا صرف اہل سنت امید واروں کو پارٹی ٹکٹ جاری کیے بلکہ ہر موقع پر وہ اہل سنت بھائیوں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے – جبکہ جس کالعدم تنظیم کے تکفیری دہشت گرد کی کامیابی کو حق جمہور سے تعبیر کیا جا رہا ہے وہ بھی ٹکٹ تو جاری کرتے ہیں مگر وہ ٹکٹ ذرا وکھرے ٹائپ کا ہوتا ہے جس میں خود کش حملہ آوروں کو جنت کے ٹکٹ جاری کرنا سر فہرست ہے –
یہ حق جمہور بریگیڈ اور توازن بریگیڈ دونوں دراصل ان لوگوں کا ٹولہ ہیں جو اپنی زندگی میں کسی نہ کسی طرح اس تکفیری فکر سے جڑے رہے ہیں اور ابھی تک انکی رگوں میں تکفیریت کا زہر رواں ہے – یہ ایک جانب تو جمہوریت کو کفر گردانتے ہیں اور ووٹ ڈالنے کو شیطانی عمل قرار دیتے ہیں اور جب اس تکفیری فکر سے جڑا کوئی شخص اسی نظام کی کمزوری اور سقم کی بنیاد پر کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ جمہوریت کے علمبردار بن کے سامنے آجاتے ہیں – اس فکر کو خود بھی پہچانیں اور باقیوں کو بھی انکی پہچان کروایں – شکریہ