پاکستان میں شیعہ پروفیشنلز کی نسل کشی جاری

14925413_1593689087607194_7306562789449337547_n

ایسی تصاویر عموما کسی بڑے پروفیشنل ادارے کی ویب سائیٹس پر، ملٹی نیشنل کمپنیز کے بروشرز میں یا کسی بزنس میگزین میں معاشیات یا بزنس سے متعلق مضمون میں نظر آتی ہیں۔ تصویر دیکھ کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ صاحب تصویر یا صاحبِ مضمون بہت پڑھا لکھا اور تجربہ کار آدمی ہے۔

اِن دو سگے بھائیوں کی تصویر دیکھ کر میرے ذہن میں بھی ایسا ہی خاکہ اُبھرا۔ میں اگر انکی قابلیت اور پروفیشنل تفصیل نہ بھی پڑھتا تب بھی ان کے چہروں پر سوائے تعلیم، شعور اور انتہائی معصومیت کے اور کچھ نہ دیکھتا۔ ان میں سے ایک کا نام نیر مہدی زیدی اور ایک کا نام ناصر زیدی ہے۔

اِن دونوں بھائیوں نے فیصلہ کیا تھا کہ محرم اپنے شہر اپنے ملک میں اپنے خاندان کے ساتھ کرینگے۔ ایک برطانیہ سے آیا اور ایک امریکہ سے۔ تیسرا بھائی کراچی میں ہی رہتا تھا۔ تینوں بھائی، ایک دوسرے کی محبت میں اکٹھے ہوئے، قاتلوں نے امام حسین (ع) سے محبت رکھنے کے جرم میں قتل کردیا۔ حملہ خواتین کی مجلس میں کرنے آئے تھے، اندر نہ داخل ہوپائے تو باہر موجود مردوں پر گولیاں برسا دیں۔

یہ بے ضرر چہرے اپنی تمام تعلیم اور ساری زندگی کی محنت سمیت خاک میں ملا دئے گئے۔ بالکل اُسی طرح جیسے سینکڑوں شیعہ ڈاکٹرز اور ان گنت وکیل، دانشور اور پروفیشنلز سرراہ قتل کردئے گئے۔

کاش یہ اُن کافر ملکوں میں ہی رہتے، وہیں محرم اور مجلس بپا کر لیتے، کم از کم زندہ تو رہتے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان تو شیعہ نسل کشی کے حوالے سے میر انیس کے اِس مصرعے کی عملی تصویر ہے:

“ہم سے کسی نے یہ بھی نہ پوچھا کہ کیا ہوا”

Source:

http://urdu.shafaqna.com/UR/29120

Comments

comments