اموی ملحد کا اعتراف – عامر حسینی

cu_mcabwgaq43pk

نوٹ : پہلے پہلے جب “دیوبندی ملحد ” کی اصطلاح سامنے آئی تو کئی لوگوں نے مجھ سے ہنستے ہوئے پوچھا کہ بھیا کوئی ملحد ہوکر بھی “دیوبندی /وہابی /شیعہ /بریلوی ہوسکتا ہے کیا ؟ تو میں نے کہا یقین کریں میں نے کسی سابق شیعہ اور حاضر کے ملحد کو اپنے ماضی سے اتنا جڑا ہوا نہیں پایا جتنا میں پاکستان کے کئی ایک سابق دیوبندی اور عصر حاضر کے ملحدوں کے اندر شیعہ اور ان کی پوری ثقافتی مذھبی زندگی سے نفرت والے ماضی سے جڑا ہوا دیکھتا ہوں اور ان کی یہ نفرت ہی ہے جو ان کو آج کے تکفیری دیوبندیوں سے جوڑ دیتی ہے- کامریڈ سبط حسن سے آپ واقف ہوں گے ، انھوں نے “نوید فکر ” ” موسی سے مارکس تک ” “ماضی کے مزار ” ” پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء ” ” انقلاب ایران ” اور ” شہر نگاراں ” جیسی کتابیں لکھیں اور ان سب کتابوں میں انہوں نے مذہب کی مابعدالطبعیات کے زمین سے رشتوں اور ان کے پیچھے موڈ آف پروڈکشن کو بخوبی بیان کیا اور انہوں نے مذہبی پیشوائیت کے پرخچے اڑائے –

ان کے ہاں الحاد کی سماجی بنیادیں بہت مضبوط تھیں اور کبھی وہ مذہب پرستی کے مابعدالطبیعاتی فریب زدہ آدرشوں کے پاس نہیں گئے اور اپنی شیعت کو کبھی آواز نہیں دی-لیکن برصغیر کی تکثریت پہ مبنی ثقافت کو انہوں نے گالیاں نہیں دیں ، کبھی اس ثقافت میں شامل عاشورہ کی ثقافت کو انہوں نے محرم میں سوفسطائیت سے رد کرنے کی کوشش نہیں کی اور کبھی انھوں نے یہ نہیں کہا کہ شیعہ آبادی کی مذہبی آزادیوں کو چار دیواری میں بند کردیا جائے اور وہ اتنے کھلے دماغ کے آدمی تھے کہ جیل میں دیوبندی مولوی نفیس الحسینی کے ساتھ ان کی مرافقت رہی اور اس دوران نفیس حسینی نے بتایا کہ وہ عبیداللہ سندھی ، مولانا برکت اللہ بھوپالی کے زبردست مداح تھے اور جیل میں جب ایک مرتبہ عاشورہ آیا تو سبط حسن نے کہا کہ وہ شیعہ مولویوں سے جتنا باغی ہوئے ہوں سو ہوئے ہوں لیکن کربلاء والوں کی حریت فکر اور ان کی قربانیوں نے ان کو ہمیشہ انسپائز ہی کئے رکھا-

ایک مرتبہ سبط حسن نے مولوی نفیس الحسینی کو کہا کہ امویوں کی ملوکیت کے لئے اور عباسیوں کی دھوکہ بازیوں کے لئے بار بار امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی مظلومیت کا تذکرہ ہی موت ثابت ہوتا رہا-اس زمانے میں بغاوت کسی بھی مظلوم طبقے سے ابھری ہو مسلم معاشروں میں ، علم حسینیت کا ہی اٹھایا جاتا رہا-لیکن آج کے سماج کے ملحدین کے ٹولے میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے الحاد کی تیغ کے نیچے ظالموں کی بجائے مظلوموں کی گردنیں آتی ہیں اور وہ آج کی سب سے خوفناک مذہبی فسطائیت یعنی تکفیری فسطائیت کے ساتھ کھڑے ہیں- پیجا مستری نے ایسے ہی ایک ملحد کی ذہنیت کی نشاندہی کی ہے

مری (اموی الحادیت ) کا تقاضا کیا ہے ؟

تحریر : پیجا مستری

میرے الحاد کا تقاضا ھے کہ میں سب مذاھب کو یکساں برا کہوں۔ اور توازن کا تقاضا ھے کہ ھر مذھب کے بارے میں برابر کی تنقید کروں۔ حالانکہ حقیقت یہ ھے کہ میں اکثر یہ توازن قائم رکھنے میں ناکام رھتا ھوں۔ مثلا سارا سال مجھے لاتعداد پوسٹس کرنی پڑتی ھیں طالبان اور داعش جیسے شدت پسندوں کی مذمت میں۔ پورے سال میں شاید صرف ایک ادھ پوسٹ احمدیوں کے خلیفہ کی کرنی پڑتی ھے، حالانکہ ھندووں کے اتنے سارے تیوھار ھیں مگر مشکل سے ایک پوسٹ ھی ایسی کی ھوگی جس میں ان پر صحیح تنقید ھوسکے۔

بریلویوں پر تنقید کا موقعہ ملتا ھے مگر اس میں نفرت اور بیزاری کا بھرپور اظہار نہیں ھوتا۔ صرف لے دیکر سال بھرمیں ایک محرم بچتا ھے۔

اور اس میں بھی گذشتہ اتنے سالوں سے بجاے شیعوں کو برا بھلا کہنے کے ان سے اظہار ھمدردی کرنا پڑجاتا تھا۔ اپ میرا ٹوئٹر اورفیس بک وال دیکھ لیں اتنے سالوں میں صرف چند پوسٹس ایسی ھونگی جن میں ان کی مذمت کی ھو۔
عرصہ دراز بعد ایک ایسا محرم ملا جس میں اپنے الحاد کے خالص ھونے پر مہر ثبت کر سکوں اس پر بھی لوگ کہتے ھیں کہ اس معصوم بچی کی تصویریں لگاوں ۔

توازن کا تقاضا ھے کہ اس محرم پر شیعوں کی شدت پسندی ، ان کے مذھب سے کراھت اور برا۶ت کا اظہار کروں لوگوں کو بتاوں کہ سب مذھب ایک جیسے ھوتے ھیں ۔

بچی کے مرنے کا افسوس مجھے بھی ھے لیکن ابھی تو پورا سال پڑا ھے ، شیعوں نے تو ایسی کتنی مجلسیں کرنی ھیں ، فی الحال تو مجھے تطبیر کے بارے میں معلومات لینی ھیں نجانے ان ‘درندوں’ نے اج تک کتنے بچوں کو اس رسم کی بھینٹ چڑھایا ھے۔

Comments

comments