اداریہ تعمیر پاکستان: شیعہ نسل کشی: کراچی امام بارگاہ پہ خواتین کی مجلس پہ تکفیری دیوبندی دہشت گردوں کا بم سے حملے پہ لبرل اشرافیہ کی خاموشی مجرمانہ ہے
کراچی کی ایک امام بارگاہ درس عباس میں خواتین کی مجلس عزا اپنے اختتام کو پہنچی اور شیعہ خواتین نے امام بارگاہ سے باہر
آنا شروع کردیا تو اتنے میں موٹر سائیکل پہ سوار کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان/ اہلسنت والجماعت کے تکفیری دیوبندی دہشت گرد نمودار ہوئے اور انہوں نے گرینڈ پھینک دیا-اس کے دھماکے سے ایک کمسن 13 سالہ بچّہ موقعہ پہ بھی جاں بحق ہوگیا جبکہ 7 عورتیں زخمی ہوگئیں-مجلس عزا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی بہن حضرت زینب رضی اللہ عنھا کی یاد میں منعقد کی گئی تھی،جوکہ واقعہ کربلاء کے وقت موجود تھیں اور انہوں نے بعد میں کوفہ اور دمشق کے درباروں میں اہل بیت رضوان اللہ اجمعین کا مقدمہ کامیابی سے لڑا تھا
اس واقعے میں یہ تو طے ہے کہ یہ حملہ ایک مرتبہ پھر داعش کی اتحادی تکفیری دیوبندی دہشت گرد گروپ اہلسنت والجماعت/لشکر جھنگوی پہلے بھی معصوم ، پرامن اور غیر مسلح شیعہ شہریوں کو نشانہ بناتی رہتی ہے لیکن اس مرتبہ یزید پرستوں نے بہت واضح عورتوں اور بچوں کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے-
پاکستان کی لبرل اشرافیہ جو کہ انسانی حقوق کی چمپئن بنتی ہے،وہ سیرل المیڈا پہ دو روزہ سفری پابندی بارے شیعہ نسل کشی سے کہیں زیادہ فکرمند ہے-جب شیعہ عورتیں ایک بس میں سب سے الگ کرکے ہلاک کردی گئیں تھیں تو بھی کوئی ایک بھی لبرل اشراف عورت ایسی نہ تھی جس نے اتنا کنسرن شو کیا ہو جتنا انھوں نے سیرل المیڈا پہ بیرون ملک سفری پابندی پہ کیا تھا-شرمین عبید چنائے ، عاصمہ جہانگیر ، شیری رحمان سمیت لبرل ہیومن رائٹس دیویوں نے تادم تحریر کراچی میں ہوئے اس واقعہ پہ ایک سنگل ٹوئٹ تک نہیں کیا ہے-کیا پاکستان کی یہ لبرل اشراف دیویاں ایک عورت کی عصمت دری کئے جانے کے بعد قتل کردئے جانے کی اس کہانی پہ فلم بنانے کی ہمت کریں گی ،جسے اس لئے پامال کرنے کے بعد پھانسی دی گئی کہ اس نے ایک تو مذہب تبدیل کیا اور وہ شیعہ ہوگئی جبکہ دوسرا شادی بھی اس نے ایک شیعہ مرد سے کرلی-تبدیلی مذہب جیسا ایشو کیا ایک اہم سماجی ایشو نہیں ہے؟ اگر یہ ایک اہم سماجی ایشو ہے تو پھر تو پاکستان کی لبرل اشراف این جی اوز کو اس پہ کوئی تحقیقی رپورٹ مرتب کرنے یا دستاویزی فلم کیوں نہیں بناتیں؟
پاکستان کی سیکولر ، لبرل ہونے کی دعوے دار سیاسی جماعتوں کے ترجمان اور سربراہوں کے ٹوئٹر اکاؤنٹس بھی اس واقعے کے کئی گھنٹے گزرجانے کے بعد خاموش ہیں اور آج صبح کے اخبارات میں کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے اس واقعے کی مذمت کی کوئی خبر ہماری نظر سے نہیں گزری-ہم نے کچھ بڑے اشراف لبرل سیاست دانوں، اور لبرل دیویوں کے ٹوئٹر اکاؤنٹس چیک کئے اور دیکھنے کی کوشش کی کہ اس واقعہ پہ ان کا کیا ردعمل ہے لیکن مایوسی ہوئی-یہ کوئی اتنا بڑا واقعہ ان کو لگتا نہیں ہے-اس واقعے میں زخمی ہونے والی عورتیں جمیلہ ، سلمی اور غوثیہ سے ان کو کوئی ہمدردی نہیں ہے-اسی طرح سے جو 13 سالہ لڑکا اس واقعے میں شہید ہوگیا ، اس سے بھی ان کو کوئی دلچسپی نہیں لگتی-ماسٹر آف ٹوئٹ حضرت عاصم باوجودہ دامت برکاتہ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی خاموش ہے-حضرت والا شان نے ایک جگہ بھی نہیں کہا کہ بزدل راء کے ایجنٹ اب ہماری عورتوں پہ حملہ کرنے لگ گئے ہیں اور ہم پاتال تک ان کا پیچھا کریں گے-ویسے کیا یہ شیعہ عورتیں “ہماری ” جیسے سابقے کی حقدار بھی ہیں کیا نہیں ؟ ہمیں تو اس میں بھی کافی شک لگتا ہے-
اسی طرح ملک کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کو کالعدم تنظیم اہلسنت والجماعت کے دہشت گردوں کو بجانے میں زیادہ دلچسپی ہے اور اس معاملے میں حکومت ، بہت زیادہ طالبان نواز میڈیا اور عدلیہ بھی ایک ہی طرف نظر آتے ہیں
تکفیری دیوبندی نفرت کا ہرکارہ، مفتی نعیم (جامعہ بنوریہ کا سب سے بدنام مولوی ) اکثر شیعہ مسلمانوں کو اپنا عقیدہ چاردیواری میں بند کرنے کو کہتا رہتا ہے اور اس کے اس نفرت انگیز پرچار کی کئی ایک کمرشل لبرل حمایت کرتے ہیں-جب کبھی عزاداری کی مخالفت کا معاملہ سامنے آتا ہے تو اس بات میں تمیز کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ مخالفین میں سے چھنگویوں یعنی مفتی نعیم جیسوں اور کمرشل لبرل مافیا میں فرق کیسے کیا جائے – دونوں گروپ عزاداری کی مخالفت کرتے ہیں اور اسے ایک وحشیانہ عمل گھیٹوز میں بند کرکے کیا جانے والی رسوم میں سےخیال قرار دیکر سرعام کرنے کی مخالفت کرتے ہیں-
وہ اب کہاں ہیں جب چار دیواری میں بند عورتوں اور بچوں پہ بم پھینکے گئے اور ان کو مارنے کی کوشش کی گئی –ان کی پیغمبر علیہ السلام اور ان کے اہل بیت سے اسقدر دشمنی بڑھ گئی ہے کہ ان کے زکر کرنے والی عورتوں کو معافی نہیں دی گئی اور ان پہ بم پھینک دیا گیا-اور پہلے پہل الیکٹرانک میڈیا میں اسے کریکر پھینکنے کا عمل کہا گیا اور صحافتی بددیانتی کا ارتکاب کیا گیا-ہلکے سے کریکر یا آتشی بسکٹ پھٹنے سے ایک بچّہ اور سات خواتین و بچے زخمی نہیں ہوتے-
“وحشیانہ” یا “بربریت ” تو بہت ہلکا لفظ ہے ، اس طرح کے سنگین جرائم کو بیان کرنے کے لئے اور عزاداری مخالف تکفیری دیوبندی اور کمرشل لبرل مافیا کے کیمپ کے لئے لفظ “بددیانت ” کا استعمال بھی بہت ہی معمولی ہے-