جُلوس، گریہ اور ماتم، امام حُسین علیہ السلام سے جذباتی وابستگی کے مظاہر – از امجد عباس
صحیح السند احادیث میں مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! جو میرے حُسین سے محبت رکھے، تُو بھی اُس سے محبت رکھ۔
نبی گرامی قدر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے چھوٹے نواسے سے بے پناہ محبت تھی، کبھی فرمایا کہ یہ مجھ سے اور میں اِس سے ہوں، کبھی فرمایا کہ یہ میرا پھول ہے، کبھی فرماتے یہ جنتی جوانوں کا سردار ہے، کبھی حُسین بچپنے میں چلتے لڑکھڑاتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فوری سنبھالتے، کبھی کندھوں پر سوار کرتے تو کبھی رُخسار چومتے۔ (ایسی ہی محبت کا اظہار اپنے بڑے نواسے حسن علیہ السلام سے کیا)
حالات کا رُخ بدلا، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اِس نواسے کو، مسلمانوں نے کربلا کے بیاباں صحرا میں، خانوادہ اور ساتھیوں سمیت شہید کردیا، لاشہ صحرا کی گرم ریت پر پھینک دیا گیا۔ خواتین کو قیدی بنالیا گیا۔ خانوادہِ رسالت پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے۔ اُن پر بدترین مظالم ڈھائے گئے۔ چھ مہینے کے بچے تک کا سر کاٹ کر دمشق لایا گیا۔ کربلا میں ظلم کی انتہاء کر دی گئی۔
اسلام ظلم اور ظالم سے نفرت کا درس دیتا ہے۔ حضرت علی نے اپنے بیٹوں کو آخری وقت فرمایا کہ مظلوم کے ساتھی بننا اور ظالم کے مخالف۔ یہی تعلیماتِ نبوی اور قرآن مجید میں ہے۔
واقعہءِ کربلا میں اہلِ بیت نبوی پر ہونے والے مظالم کے خلاف عالمِ اسلام میں بھرپور احتجاجی تحریک اُٹھی، قاتلوں سے انتقام لیا گیا، یزیدی حکومت ختم ہو گئی۔
واقعہءِ کربلا کے بعد، ہر سال، مسلمانوں نے آپ علیہ السلام کی یاد منائی۔ آئمہ اہلِ بیت علیھم السلام ماہِ محرم میں واقعہءِ کربلا کے حوالے سے محافل کا اہتمام کرتے، جن میں بسا اوقات شعراء مرثیہ خوانی بھی کرتے۔ اہلِ بیت علیھم السلام سے محبت کرنا، اُن کا احترام کرنا، ظلم و ظالم کی مخالفت اور مظلوم کی حمیات کرنا اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔
خوشی اور غم کے جذبات فطری ہیں۔ جس قدر کسی چیز/فرد سے ہمارا زیادہ تعلق ہوتا ہے اُسی قدر یہ جذبات نمایاں ہوتے ہیں۔ کوئی انسان بہت اچھا کام کرے تو ہم اُسے ایک حد تک سراہتے ہیں لیکن اپنے دوست کوئی اچھا کام کریں تو زیادہ گرم جوشی دکھائی جاتی ہے، اچھا اپنی اولاد کا معاملہ اور بڑھ جاتا ہے۔ ظُلم کسی اجنبی پر ہو تو ہر چند ہم اُس کی مذمت کریں، لیکن غمگین شاید نہ ہوں، لیکن اپنے کسی قریبی پر ظُلم ہو تو شاید ہماری کیفیت اور ہو۔ بہت نیک لوگ دنیا سے چل بسے، ہم نہیں روتے، اپنا کوئی قریبی، جیسا بھی ہو، انسان، اُس کی وفات پر خوب روتا ہے۔
نواسہ رسول اور آپ کے خانوادہ پر بدترین ظلم ڈھائے گئے، اسلامی تعلیمات کی رو سے، اظہارِ محبت کے لیے اتنا کافی ہے کہ ہم آپ پر ظلم ڈھانے والوں سے نفرت کریں اور آپ اور آپ کے خانوادہ سے اظہارِ عقیدت و محبت کریں، آپ کا ذکر کر لیں۔ لیکن آپ کی یاد میں جلوس نکالنا، گریہ کرنا اور مرثیہ و ماتم، یہ گہری جذباتی وابستگی کے مظاہر ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے کی وفات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آنسو بہائے، فرمایا یہ پدری شفقت کا تقاضا ہے۔ یہ فقہ کا موضوع نہیں ہے، نہ ہی اسے فقہی احکام کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ہاں ایسے تمام افعال سے بنیادی دینی روح مجروح نہ ہو، یہی کافی ہے۔ا
جلوس، گریہ، رونے اور ماتم کے جواز کی شرعی دلیلیں طلب کتنے والے دوستو یہ جذباتی اعمال ہیں، اِن کو انجام دینے والوں کی حالت مجاذیب کی سی ہوتی ہے، جیسے کسی کی فوتگی ہوجائے، وہ روتا ہے، مضطرب اور بے چین ہوتا ہے، جبکہ دیگر ہمدردوں کی یہ کیفیت نہیں ہوتی۔ یہ فطری بات ہے۔ جس دن آپ کی خانوادہِ رسالت سے محبت کے ساتھ جذباتی وابستگی بھی ہوگئی تب آپ بھی اُن پر ڈھائے جانے والے مصائب سُن کر میری طرح بے ساختہ روئیں گے، ظلم کے خلاف احتجاجی ماتم میں شریک ہوں گے، وا حُسیناہ، وا حسیناہ پکار اُٹھیں گے۔ ہر انسان اپنے فہم کے مطابق جذبات کا اظہار کرتا ہے، اِن کے اظہار پر شریعت کوئی بڑی قدغن نہیں لگاتی ہاں اسلام کی بنیادی تعلیمات کی پامالی کسی صورت نہ ہونے پائے۔ جذباتی وابستگی کے اظہار کے مظاہر فقہ کا موضوع نہیں ہیں۔