تعاقب ایک معاصر تکفیری ، یزیدی “صاحب زادہ” کا – از امجد عباس
فیس بُک پر ایک عرصے سے گجرات سے تعلق رکھنے والے (حالیہ لندن میں مقیم) ایک تکفیری مُلاں نے فرقہ واریت اور تکفیر کو ہوا دے رکھی ہے۔ یہ جذباتی طبیعت کا نیم پڑھا لکھا، مناظرانہ کتابوں اور ویب سائٹس سے غلط عبارات اور حوالے نقل کرتا ہے۔ آج اِس ظالم نے یزید پلید کے حق میں پوسٹ لگائی ہے کہ شیعہ کتاب “الروضۃ من الکافی” میں ہے کہ امام علی بن حسین (زین العابدین) نے یزید سے کہا کہ میں تیرے سامنے مجبور و لاچار ہوں، تو چاہے تو مجھے اپنے پاس رکھ لے، چاہے تو بیچ دے۔۔۔ الخ۔ مجھ سے ایک دوست نے اِس بابت دریافت کیا تو قدرے وضاحت کیے دیتا ہوں۔
روایت کی وضاحت:
یہ روایت “الکافی” کے تیسرے حصے “الروضۃ” میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ تکفیری مُلاں نے کسی مناظرانہ کتاب سے حوالہ لیا، تب غلط درج کیا اور روایت بھی آدھی نقل کی (مُلاں نے حوالہ لکھا ،فروع کافی کتاب الروضہ ص 110، جو سراسر غلط اور جہالت پر مبنی ہے)۔
پوری روایت یوں ہے کہ یزید بن معاویہ حج کے ارادے سے مدینہ میں داخل ہوا تو ایک ہاشمی کو بُلایا اور اُس سے پوچھا کہ کیا تُم یہ مانتے ہو کہ تُم میری رعیت ہو، چاہوں تو تمھیں بیچ دوں، چاہوں تو آزاد کر دوں۔ اِس ہاشمی نے انکار کیا تو یزید پلید نے اُسے قتل کروا دیا، پھر اُس نے امام علی بن حسین (زین العابدین) کو بُلایا، یہی اُن سے پوچھا تو اُنھوں نے فرمایا میں مجبور و لاچار ہوں، تُم چاہو تو بیچ دو، چاہو تو آزاد کر دو (تُم مجھے قتل بھی کر سکتے ہو اور چھوڑ بھی سکتے ہو)۔ تو یزید نے اُنھیں چھوڑ دیا۔۔۔
– اس روایت کا ایک راوی ابو ایوب الخزار (ابراہیم بن زیاد) ہے جو مجہول الحال ہے، اِس لیے یہ روایت سند کے لحاظ سے ضعیف ہے۔
– اِس روایت کا متن بھی غلط ہے، یزید پلید جب سے حکمران بنا، مرتے دَم تک شام میں ہی رہا۔
اولاً: اِس روایت کی سند اور متن دونوں درست نہیں تو یہ روایت بالکل مردود ہے۔
ثانیاً: یہ روایت اگر درست مان بھی لی جائے تو مجبوری کو ظاہر کر رہی ہے، حضرت قاری محمد حنیف ڈار صاحب نے اِس یزیدی تکفیری کو یوں جواب دیا:
انا عبد مکرہ کا مطلب ” میں ایک مجبور و بےکس بندہ ہوں ” بنتا ہے جو کہ اُن کی اُس وقت واقعی پوزیشن تھی ، اگر تیرا غلام کہنا مقصود ہوتا تو ” انا عبدک المکرہ ” فرماتے۔ جس لڑکے کے باپ سمیت سارے بھائی اورعزیز شہید کر دیے گئے ہوں ، اور خواتین اسیر ہوں ، جس نے بیماری اور نقاہت کے عالم میں وہ سب بربریت دیکھی ہو، مستورات کی چیخیں سُنی ہوں اور جس طرح مستورات نے اس پر لیٹ کر اس کی جان بچائی ہو وہ سب مناظر اس کے دل و دماغ میں نقش ۃوں ، وہ سب اذیت اس ایک جملے سے واضح کر دینا خاندانِ نبوت کا ہی خاصہ تھا ، میں تیرا ایک مجبور غلام ہوں تو اِس کے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہے ، چاہے تو خود اذیت کا سامان کرتا رہ یا کسی اور کے آگے بیچ دے۔
یہ فرعون کے سامنے بے بس نومسلم جادوگروں کا سا عالم ھے “فاقض ما انت قاض” کر دے جو فیصلہ تو نے کرنا ہے ، “انما تقضی ھذہ الحیاۃ الدنیا” تو بس اسی دنیا کے فیصلے کر سکتا ہے۔ ضیاء صاحب ، اللہ کے رسول نے منع فرمایا تھا کہ کوئی شخص اپنے غلام کو عبد اور لونڈی کو امہ نہ کہے بلکہ فتای اور فتاتی کہے۔ کیا نبی کے خاندان کا امام اپنے آپ کو کسی کا ” عبد ” کہہ سکتا ہے ؟ جبکہ وہ عبداللہ (اللہ کا بندہ) ہو۔یہ ایک طنزیہ جملہ ھے جس میں امام عالی مقام نے اپنی پوزیشن واضح کی ہے، کیا کسی کی خلافت کی بیعت انہی لفظوں کے ساتھ کی جاتی تھی ؟ ، اللہ پاک آپ پر رحم فرمائے ، خاندان نبوی پر ہاتھ ہلکا رکھیں۔
ّنوٹ:
کئی بار دوستوں نے مجھے اِس تکفیری مُلاں کی کاپی، پیسٹ والی پوسٹوں کا جواب دینے کو کہا تو میں نے یہی کہ کے ٹالا کہ یہ بندہ جاہل ہے، یہ صرف مناظرانہ کتب سے باتیں نقل کرتا ہے، اِس سے بحث فضول ہے، یہ روایت بھی اِس نے نامکمل نقل کی، ساتھ میں حوالہ غلط دیا ہے۔ میں اِس فتنہ پرور کا جواب دینا مناسب نہیں جانتا۔ یہ بندہ اب باقاعدہ یزید پلید کی حمایت کر رہا ہے، اِس کے مطابق یزید عادل حکمران اور اُس کا دفاع گویا صحابہ کا دفاع ہے۔ اللہ تعالیٰ اِسے یزید پلید کے ساتھ محشور کرے اور ہمیں امام حسین کے ساتھ۔