شکار پور حملہ، کالعدم تکفیری دیوبندی جماعتوں کا بڑھتا اثر رسوخ
میرا نام عثمان ہے، بلوچستان سے آیا ہوں
اگر شکار پور میں زندہ پکڑا جانے والا خود کش بمبار بھی دوسرے بمبار کی طرح ہلاک ہوگیا ہوتا تو کل سے اب تک ہم شاید وہی مفروضے دہرا رہے ہوتے کہ حملے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے، حملہ کرنے والے مسلمان تو کیا انسان بھی نہیں ہیں اور آخری دہشتگرد کے خاتمے تک تعاقب جاری رہے گا وغیرہ وغیرہ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ حملے کی ذمہ داری حسبِ معمول تحریک طالبان، جند اللہ، جماعت الاحرار یا لشکر جھنگوی قبول کرتی اور پھر حملہ آوروں کی تصویریں بھی جاری کرتی لیکن ہماری اکثریت اِس ذمہ داری کو نظر انداز کرکے بیرونی سازش کے نعرے لگاتے ہوئے اندرونی مسئلے پر غور کرنے سے انکار کر دیتی۔
لیکن چونکہ حملہ آور زندہ پکڑا گیا تو اِس بارمعاملہ تھوڑا مختلف ہے۔ حملہ آور سے لیکر اُسے کوئٹہ سے شکار پور بھیجنے والے تک، سب اندرونی ہیں، بیرونی کچھ نہیں۔ عثمان نامی حملہ آور سوات کا رہنے والا تھا اور اُس نے کراچی کے مدرسہ ابو ہریرہ سے تعلیم حاصل کی تھی۔ مدرسہ کن مخصوص نظریات کا حامل ہوگا، یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔
خود کش بمبار کی حیثیت چلتے پھرتے بم جیس ہوتی ہے، یہ درخت کے پتے کی طرح اُگتے اور جھڑ جاتے ہیں اور پھر نئے پتے پھوٹ پڑتے ہیں۔ اصل محرک درخت کی جڑ اور جڑ کو ملنے والا پانی ہے۔ دہشتگردی ختم کرنی ہے تو اس جڑ اور اسکی سپلائی لائین کو کاٹنا ہوگا۔ غور کرنا ہوگا کہ بلوچستان میں رمضان مینگل اور ولی الرحمن فاروقی آزاد کیوں ہیں؟ اندرون سندھ میں اسی کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کو سرگرمیاں جاری رکھنے کی چھوٹ کیوں ملی ہوئی ہے؟ اور سب سے اہم یہ کہ مدرسہ ابو ہریرہ جیسے مدارس میں آخر پڑھایا کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ ایک دن عثمان کی صورت نکلتا ہے؟
اِن باتوں پر غور کرینگے تب ہی سمجھ سکیں گے کہ خود کش بمباروں کو بلوچستان سے کس نے روانہ کیا، شکار پور میں ہوٹل میں کس نے ٹھہرایا، پیسے کس نے دیئے، نشے کا انجشن کس نے لگایا اور پھٹنے کیلئے موٹر سائکل پر بٹھا کر مسجد تک کون لایا۔
سہولتکار کسی ایک شخص کا نام نہیں، ایک مربوط نیٹورک کا نام ہے جو ابو ہریرہ مدرسے جیسے مدارس سے لیکر اُن تکفیری تنظیموں تک پھیلا ہوا ہے جو کبھی سپاہ صحابہ، کبھی جماعت الاحرار، کبھی طالبان اور کبھی جند اللہ کی صورت کاروائی کرتی ہیں۔