محمد عامر حسینی سے شفقنا اردو کی خصوصی گفتگو
محمد عامر حسینی پیشے کے لحاظ سے صحافی ہیں اور کافی عرصہ سے سوشل میڈیا پر فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے فلسفے کی ڈگری لی جبکہ سٹیٹ یونیورسٹی ماسکو سے اپلائیڈ سائیکولوجی میں ایم فل کیا۔ شفقنا اردو نے ان سے خصوصی گفتگو کی جو قارئین کے لیے پیش ہے۔
شفقنا اردو: آپ کے نزدیک کامیابی کیا ہے؟
عامر حسینی : مرے نزدیک کامیابی کا مطلب اگر کچھ ہوسکتا ہے تو وہ انسانیت کے درجے کو کسی نہ کسی سطح پہ چھولینا ہے اور میں کامیابی کو روپوں ، پیسوں اور امیر ہوجانے کے معنی میں نہیں لیتا- مجھے یہاں جناب علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کا حوالہ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کہا تھا: ہم اپنے رب کی تقسیم پہ راضی ہیں کہ اس نے جاہلوں کو مال اور ہمیں علم کی دولت سے سرفراز کیا ہے
شفقنا اردو: آپ کی زندگی میں اسلام کا کیا کردار رہا ہے اور اسلام نے کیا کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟
عامر حسینی: میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوا جہاں ہندوستانی مسلم کلچر کا چلن تھا اور ہمارا گھرانہ ہند-اسلامی تہذیب کے ارتقاء سے نکھرکر سامنے آنے والا گھرانا تھا اور پھر میں نے زمانہ طالب علمی میں فلسفہ ، تاریخ ، نفسیات اور علم بشریات سے شغف رکھنا شروع کیا اور اس ضمن میں مجھے جہاں نہج البلاغہ سے خاص شغف پیدا ہوا وہیں مرا شغف کالونیل و پوسٹ کالونیل مسلم مفکرین کی تحریروں سے بھی ہوا اور ان میں مجھے ڈاکٹر علی شریعتی نے بہت متاثر کیا بلکہ مکتب علی شناس سے مجھے وابستہ کرنے میں شریعتی کا بہت ہاتھ ہے اور ان کے اسلام کے اور مسلم معاشرے کے جو عمرانیاتی مطالعے تھے اس نے میری فکر اور سوچ پہ ہی نہیں بلکہ مری عملی زندگی پہ گہرے اثرات مرتب کئے- میں آج اگر انصاف ، عدل ، مساوات جیسے اصولوں اور ان پہ مبنی معاشرتی اقدار سے جڑا ہوا ہوں تو یہ اسی اثر کی دین ہے-
شفقنااردو: آج کے دور میں مسلمان ہونے کا کیا مطلب ہے؟
عامر حسینی: مری نظر میں آپ جس بھی عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں آپ کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ آپ انسانوں کو ان کے عقیدے کی بنیاد پہ ان سے زندگی کا حق چھین لینے کے قائل نہ ہوں- مسلم معاشروں کو ہمیشہ زوال کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب ان پہ خارجی تکفیری فکر کو مسلط کردیا گیا- اگر آپ تاریخی اعتبار سے جائزہ لیں تو آپ کو صاف پتہ چلا جائے گا کہ چنگیز خان کے ہاتھوں بغداد کی تباہی اور پورے مڈل ایسٹ و وسط ایشاء میں مسلم معاشروں کی تباہی کا سبب یہ تھا کہ مسلم سوسائٹی میں تکفیریت اور خارجیت غالب آرہی تھی- چنگیز خان کے حملے سے ایک دن پہلے بغداد میں پورا محلہ کرخ تہہ تیغ کردیا گیا تھا اور ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے زمانے میں بھی یہ فتنہ خارجیت تھا جس نے سراٹھالیا تھا اور فکری اعتبار سے یہ شیخ ابن تیمیہ تھا جس نے تکفیری اور خارجی نظریات کو مستحکم کیا اور خود مسلمانوں سے جنگ کو جہاد کا نام دے ڈالا – آج عصر حاضر میں یہ تکفیریت و خارجیت ہے جس کی بنیادیں شیخ ابن تیمیہ ، محمد بن عبدالوہاب نجدی ، شاہ اسماعیل دہلوی امام تکفیری دیوبندیہ وغیرہ کے افکار میں پیوست ہیں، یہ سب سے بڑا فتنہ ہے جس کے خلاف نبردآزما ہونے کی ضرورت ہے-
شفقنا اردو: مسلمانوں کی غلط نمائندگی کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
عامر حسینی: دو طرح سے مسلمانوں اور اسلام بارے سٹریوٹائپس اور گمراہ کن تصورات پیش کئے جارہے ہیں-ایک طرف تو مغرب میں اسلامو فوبیا کے شکار دائیں بازو کے نسل پرست شاؤنسٹ ہیں اور دوسری طرف خود مسلم کمیونٹی کے اندر یہ سلفی اور ریڈیکل دیوبندی ، جماعت اسلامی ، اخوان المسلمین کے اندر سے اٹھنے والے تکفیری اور نام نہاد جہادی ہیں-یہ اسلام اور مسلمانوں کو سب سے زیادہ بدنام کرنے میں لگے ہیں-سلفی ازم یا تکفیری دیوبندی ازم دونوں کے دونوں اسلام کا نام لیکر اسلام کو بدنام کرنے میں لگے ہوئے ہیں-مغرب میں اسلام ازم اور اسلامسٹ اصطلاح کا چلن عام ہے اور وہان ابھی تک پوری طرح سے سلفی ازم اور دیوبندی ازم کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں اور مساجد سے پیدا شدہ خطرات کا پوری طرح سے ادراک نہیں کیا جارہا جب تک عالمی زرایع ابلاغ پہ تکفیری فاشزم کے سرچشموں کو بے نقاب نہیں کیا جائے گا مسلمانوں اور اسلام بارے غلط فہمیاں پھیلتی رہیں گی
شفقنا اردو: آپ معاشرے میں کیا تبدیلی لانا چاہیتے ہیں؟
عامر حسینی: میں پیشہ کے اعتبار سے صحافی ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ میں ادیب بھی ہوں تو اپنے قلم کے ساتھ میں معاشرے میں بہتری کا کام کرتا ہوں اور جب موقعہ میسر آئے تو ایکٹوازم بھی کرلیتا ہوں –
شفقنا اردو: آپ نئی نسل کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
عامر حسینی: نئی نسل کے لئے میرا پیغام تو یہی ہوسکتا ہے کہ وہ عصر حاضر کی ضرورتوں کا ادراک کرتے ہوئے اپنے آپ کو جملہ علوم اور ٹیکنالوجی سے آراستہ کریں اور تکفیری فاشزم کے خلاف انٹلیکچوئل جدال کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں –
شفقنا اردو: نوجوانوں کو کیا نصیحت کریں گے؟
عامر حسینی: کتاب دوستی کے کلچر کو عام کریں اور اپنے کردار کو مضبوط بنائیں
شفقنا اردو: زندگی میں کن مشکلات اور روکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا؟
عامر حسینی: روکاوٹیں اور مشکلات تو مسلم معاشروں میں بالخصوص بہت سی ہیں جن میں ایک روکاوٹ ہے ہمارے ہاں رویوں کا انتہائی غیر لچکدار ہونا اور چیزوں کو ہمیشہ بلیک اینڈ وائٹ ہی میں دیکھنا اور اس میں کٹھ ملائیت کا بڑا کردار ہے-علم دشمنی عام ہے اور اہل مال کی عزت اور اہل علم کی تذلیل شعار بن چکا ہے-ایسے میں بہت زیادہ مشکل پیش آرہی ہے ایسے خیالات کو آگے بڑھانے میں جس سے امن کا راستہ آسان ہو-پھر غدار ، کافر ، مرتد کے نعرے بہت قبولیت پانے لگے ہیں ایسے میں احترام انسانیت کا درس دینا کربلاء والوں کی سنت پوری کرنا ہے-میں ان مشکلات سے گزرا ہوں لیکن مایوس نہیں ہوں –
Source:
http://urdu.shafaqna.com/UR/26060