عرب ممالک میں قائم ملوکیت کو بچانے کیلئے پاکستان میں ایران کیخلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، قاری عبدالرحمان

n00559510-b

قاری عبدالرحمان کا تعلق کوئٹہ سے ہے اور وہ جامعہ مسجد کوئٹہ کے خطیب ہیں، آپ صوبہ بلوچستان میں ایک جانی پہنچانی شخصیت اور اتحاد امت کے داعی ہیں۔ دار الامور اسلامی کوئٹہ کے سیکرٹری جنرل کے بھی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے سابق نشرواشاعت کے مسول رہے ہیں اور مولانا مودودی کی کتابوں کا پشتو میں ترجمہ بھی کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ وقت کیلئے جماعت اسلامی کے مدارس کمیٹی کے سیکرٹری بھی رہے ہیں۔ سحر عالمی نیٹ ورک اور عربی چینلز میں بطور مہمان کے بھی خدمات انجام دیتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے جمہوری اسلامی ایران میں اہل سنت کے مسائل سے متعلق پاکستان میں ہونیوالے پروپیگنڈے اور سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے ان کیساتھ ایک اہم انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: کوئٹہ میں ایک اور قیامت ٹوٹ پڑی، اس سانحہ پر کیا کہتے ہیں اور کسے اسکا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔؟


قاری عبدالرحمان:
جی یہ ایک نہایت ہی المناک واقعہ ہے، بلوچستان خصوصاً کوئٹہ کے شہریوں کو اس واقعہ نے ہلا کر رکھ دیا ہے، اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، بلوچستان ایک حساس صوبہ ہے، کوئٹہ دارالحکومت ہے، پوری دنیا کی نگاہیں اس شہر پر ہیں اور سب کوئٹہ کو ہی ٹارگٹ کئے ہوئے ہیں۔ گذشتہ روز مولانا شیرانی نے قومی اسمبلی میں جو بیان دیا ہے، اس نے پوری امت مسلمہ کی ترجمانی کا حق ادا کیا ہے۔ میرے خیال میں اس سانحہ پر ان کا بیان ہی کافی ہے۔ اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: جی بالکل، مولانا شیرانی کا بیان نہایت ہی جاندار اور حقائق پر مبنی تھا، اس پر انکی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ کیا دوسرے بھی یہ حوصلہ رکھتے ہیں۔؟


قاری عبدالرحمان: میں سمجھتا ہوں کہ مولانا شیرانی نے پوری قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی کوشش کی ہے، پوری پاکستانی قوم کو، حکومت کو اور فوج کو مولانا شیرانی کے بیان پر توجہ دینی چاہیئے۔ نہایت اہم بیان دیا ہے، کوئی معمولی بات نہیں کی ہے۔ اس پر میں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ ایک نیک اور بڑے انسان کی گفتگو ہے، اسے اہمیت دی جانی چاہیئے۔ پاکستان کی بقاء کے حوالے سے نہایت اہم ہے، انہوں نے اپنی گفتگو میں پاکستان کو درپیش مشکلات پر بات کی ہے۔

اسلام ٹائمز: مولانا شیرانی نے چند دن پہلے پریس کانفرنس میں پہلی بار اتنا بڑا بیان دیا کہ جہاد افغانستان میں کرائے کے لوگ بھرتی کئے گئے، وہ جنگ فقط امریکی ایما پر لڑی گئی، یہاں تک کہہ گئے کہ نصاب تعلیم میں جہاد کی آیات امریکی ایماء پر شامل کی گئیں۔ آپ اس پوری صورتحال کو کس تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔؟


قاری عبدالرحمان: یہ درست بیان ہے، امریکہ سے کولیشن فنڈز لینے والے اب کیوں آنسو بہا رہے ہیں، آپ نے پیسے لئے ہیں، ان کیلئے کام کیا ہے، پھر یہ رونا دھونا کس بات کا ہے، آپ نے اسے موقع دیا ہے۔ قرآن نے تمام اصول بیان کر دیئے ہیں، ایک شخص جب اپنے آپ کو قرآن کا ماننے والا کہے، اپنے آپ کو مسلمان کہے، اس کے سامنے یہ حقائق ہیں کہ وہ کسی صورت بھی قرآن کی نافرمانی نہیں کرسکتا، قرآن نے دشمنوں کی فہرست واضح کر دی ہے، یہاں تک کہا ہے کہ ان کے ساتھ دوستیاں مت کرو، انہیں اپنے قریب مت آنے دو۔ قرآن مجید نے سب بیان کر دیا ہے۔ یہاں تک کہا ہے کہ یہ ہمارے دشمن ہیں، انہیں دشمن تسلیم کر لو۔ ہم نے قرآن سے انحراف کیا ہے، جس کی سزا بھگت رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ مکتب دیوبند جہاد سے متعلق اپنے بیانیہ میں تبدیلی لا رہا ہے۔ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ جہاد کشمیر پھر جہاد افغان ہوا، اب افغان جہاد کو کرائے کا جہاد کہنا، تو کیا دیوبند حضرات نے اپنے بیانیہ میں تبدیلی کر دی ہے۔ اگر ایسا ہے تو اسکے پیچھے اب کیا سوچ کارفرما ہے۔؟


قاری عبدالرحمان: جی دیوبند کا موجود حالات کے تناظر میں موقف اسلامی نہیں ہے، مکتب دیوبند نے آج تک خالص اسلامی ریاست کے حوالے سے کوئی مطالبہ نہیں کیا ہے، وہ آج بھی کہتے ہیں کہ ہم دارالحرب میں ہیں، ہم سیکولر سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور ہمیں سیکولر سیاست کیلئے ہی جدوجہد کرنی چاہیئے۔ اس بابت میں متعدد علماء ہیں، انہوں نے دیوبند کے اس موقف کی نفی اور مذمت کی ہے، دیوبند حضرات مسلکی اعتبار سے ہمارے لئے قابل تقلید تو نہیں ہوسکتے، دیوبند حضرات کا یہ بیان کہ کشمیر میں جہاد نہیں بلکہ فساد ہے اور افغانستان کی بابت میں طالبان کے بارے میں ان کا بیان تھا کہ یہ جہاد ہے، جب امریکہ کے خلاف طالبات لڑنے کیلئے میدان میں آئے تو انہوں نے کہا کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مسعود کے خلاف فتویٰ دیا کہ ان کے خلاف طالبان کا جہاد حق ہے، مسعود کے شہید ہونے کے بعد اور امریکہ کے آنے کے بعد پوری دنیا کے مذہبی افکار والے لوگوں نے ان کا ساتھ دینا چھوڑ دیا۔ ملا محمد عمر کو کہنا پڑا کہ دیوبند نے ایک وقت تک سپورٹ کیا اور حوصلہ دیا، لیکن عین موقع پر ہمارا ساتھ چھوڑ دیا۔ ملا محمد عمر کے بیانات آن ریکارڈ ہیں، اس پر محققین اور پڑھے لکھے لوگوں کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ قوم کے دانشور اور علما سوچیں، یہ دوطرفہ بیانات امت مسلمہ کیلئے نقصان دہ ہیں، ایک بات پاکستان میں حق ہے تو آخر تک حق ہے، وہ سات سمندر پار بھی حق ہے، باطل اس وقت ہوسکتی ہے جب ہم عقائد، نظریات اور نصب العین میں انحراف دیکھیں گے۔

اسلام ٹائمز: ایسی صورتحال میں مولانا شیرانی کی سپورٹ بنتی نہیں، کہیں وہ تنہا نہ ہوجائیں۔؟


قاری عبدالرحمان: جی بالکل، ہمارا فرض العین ہے کہ ہم ان کو سپورٹ کریں، میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ دین اسلام کو حق سمجھتے ہیں، جو قرآن مجید کو دستور حیات سمجھتے ہیں، ان پر فرض ہے کہ وہ مولانا محمد خان شیرانی کو اس وقت مکمل سپورٹ کریں۔ اس آواز کو دبنے نہ دیں، ظالم اور مظلوم کے درمیان جنگ میں مظلوم کا ساتھ دیں، قرآن مجید نے ظالموں کے خلاف جہاد کا حکم دیا ہے۔ افضل ترین جہاد ظالم کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے، مولانا شیرانی حق بات کہہ رہے ہیں، کلمہ حق کہہ رہے ہیں، ان کا ساتھ دینا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: ہم نے ماضی میں بھی دیکھا کہ جس جس نے حق بات کی، اسکو منظر نامہ سے ہٹا دیا گیا، مولانا حسن جان اور مولانا سرفراز نعیمی کی شہادتیں ہمارے سامنے ہیں۔ کہیں مولانا شیرانی کا انجام بھی ان جیسا نہ ہو، ایسی صورتحال میں کیا ذمہ داری بنتی ہے۔؟


قاری عبدالرحمان: دیکھیں کہ کلمہ حق کہنے کے ساتھ ایسے مسائل اور مشکلات آسکتی ہیں، ان کو برداشت کرنا ایمان ہے، اگر مولانا شیرانی حق کہہ رہے ہیں اور جو ان کی بات کو کلمہ حق سمجھتے ہیں، ان پر فرض ہے کہ وہ ان کا ساتھ دیں۔ اگر حق سمجھنے والے ان کا ساتھ نہیں دیتے تو یہ لوگ اللہ کے سامنے جوابدہ ہوں گے، قرآن مجید تو کہتا ہے کہ کیا تمہارے سامنے ایسا شخص نہیں آیا، جس نے تمہیں راہ حق کی دعوت دی ہو۔ آج اگر مشکل دور میں مولانا شیرانی راہ حق کی دعوت دے رہے ہیں اور قوم کو راہ حق سمجھا رہے ہیں تو قوم کو ان کا ساتھ دینا چاہیئے۔ اہل دانش کو ساتھ دینا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: ہر واقعہ کے بعد الزام “را” پر لگا دیا جاتا ہے، کیا ہمارے سلامتی کے اداروں کا اب یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ فقط الزام لگائیں۔ “را” کے کارندوں اور انکے سہولت کاروں کو پکڑنا کس کا کام ہے۔؟


قاری عبدالرحمان: یہ ریاست کی ذمہ داری ہے، ریاست کے ادارے ذمہ دار ہین، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ “را” بلوچستان میں ملوث ہے۔ اسی طرح “را” نے افغانستان میں معاشی، میڈیا اور دیگر میدانوں میں پنجے گاڑھ لئے ہیں، ہمارے چمن سے لیکر یہاں تک کے بارڈر پر انڈیا کی حکومت ہے اور دوسری سائیڈ پر انڈیا کی ہی فکر اور راج چل رہا ہے۔ قندھار میں ہمارے نوٹوں پر پابندی لگا دی ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر کسی دکاندار سے پاکستانی نوٹ برآمد ہوئے تو وہ سزا کا حق دار ہوگا، اسے سزا ملے گی، اسے ملک دشمن سمجھا جائیگا۔ یہاں تک اندازہ کریں کہ ان لوگوں نے ہماری کرنسی تک کو آگ لگا دی ہے، یہ جہالت کی انتہا ہے، یہ سب بھارت کروا رہا ہے، اس حکومت کو بھارت کی آشیر باد حاصل ہے۔

وہاں پاکستان کے دشمن داخل ہوکر ہم سے انتقام لے رہے ہیں۔ بھارت ہمارے استحکام کو برباد کر دینا چاہتا ہے۔ میاں محمد نواز شریف سے متعلق جو شیخ رشید اور ڈاکٹر طاہر القادری نے بیانات دیئے ہیں وہ حقییقت پر مبنی ہیں۔ دوسرے سیاسی لیڈروں کے بیانات بھی سامنے آئے ہیں، ان بیانات کے مطابق اس ساری صورتحال کے پیچھے نواز شریف ہے، صوبہ کے امن و امان کو نواز شریف خراب کروا رہا ہے۔ وہ اپنے لاہور کے تخب کو بچانے کیلئے پاکستان کی سالمیت کو داو پر لگائے ہوئے ہے۔ مودی اور نواز شریف ایک ہیں۔ اس میں کوئی شک والی بات نہیں۔ یہ لوگ تو بھارت کیلئے کام کرنے والے ہیں۔ مودی حکومت ہر طرف سے نواز شریف کو سپورٹ کر رہی۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں بعض حلقوں کیطرف سے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ تہران میں اہلسنت کی کوئی مسجد نہیں اور کوئی بنانے بھی نہیں دیتا۔ اس میں کتنی صداقت ہے۔ آپ نے بھی ایران کے بہت سے وزٹس کئے ہیں۔؟


قاری عبدالرحمان: دیکھیں کہ مسجد تو وہاں بنتی ہے جہاں کسی مسلک اور فرقہ کے لوگ اقامت رکھتے ہیں، ان کی آبادی ہو، ان کا کوئی علاقہ ہو، تہران میں اہل سنت کی آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہاں جتنے بھی اہل سنت کے لوگ آتے ہیں، وہ دوسرے علاقوں سے آتے ہیں، اس لئے انہیں کوئی مسجد بنانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ وہاں مسجد ہونی چاہیے تو ان سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ پیسے اکٹھے کریں، میں جاکر مسجد بنوا کر دیتا ہوں۔ یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ ہم تمام مسالک کے لوگوں کو لیکر جائیں گے، اسی جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے لوگوں کو لیکر جائیں گے اور مولانا فضل الرحمان سے اس مسجد کا افتتاح کرا دیں گے۔ یہ کوئی مشکل نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: اس بار تو یہ بھی کہا گیا کہ عید کا اجتماع نہیں ہونے دیا گیا۔ اس میں کتنی حقیقت ہے۔؟


قاری عبدالرحمان: اصل میں بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر ایران کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کی سازشیں چل رہی ہیں، بعض عرب ممالک جو امریکہ اور اسرائیل کے غلام ہیں، وہ اختلاف ڈالتے ہیں اور یہ باتیں ان کی پیدا کردہ ہیں۔ ایران کو بدنام کرنے کیلئے یہ باتیں کی جاتی ہیں، ایران میں اہلسنت کے جید علماء ہیں، مولانا عبدالحمید صاحب ہیں، بندر عباس سے جید علماء دین ہیں، دوسرے استانوں میں علماء کی ایک تعداد ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ وہاں کے جید علماء نے تو آج تک یہ باتیں نہیں کی ہیں تو یہاں کے لوگوں کو ایسی تکلیف کیوں اٹھتی ہے۔ کیا کبھی کسی نے ایران کے کسی اہل سنت عالم دین کا ایسا کوئی مطالبہ سنا ہے۔؟ انہوں نے ایسی کوئی بات کی ہے۔؟ اگر کسی کو شک ہے تو وہ مولانا عبدالحمید کے پاس جائے اور ان سے پوچھے کہ آپ کے مسائل کیا ہیں، اگر وہ ایرانی نظام حکومت اور حکومت سے مطمئن ہیں تو آپ کو اتنی تکلیف کیوں ہے۔؟

آپ کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ آپ خواہ مخواہ میں ایسی باتیں اڑائیں۔ اہل سنت کی نمائندگی ایرانی حکومت میں موجود ہے، وہ حکومت کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ مولانا اسحاق مدنی مقام رہبری کے سیاسی مشیر ہیں، مولانا نذیر اسلامی صاحب مقام رہبری کے معاون خصوصی ہیں۔ یہ بڑے لوگ ہیں، جو وہاں ایرانی حکومت میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ انہوں نے تو آج تک کوئی شکایت نہیں کی ہے۔ ویسے آج کے جدید دور میں کوئی شکایت نہیں چھپ سکتی ہے۔ اصل مسئلہ مختلف ملکوں میں قائم ملوکیت کو بچانے کا ہے، جس کی بنا پر ایران کے خلاف اتنا بڑا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

Source:

http://www.islamtimes.org/ur/doc/interview/559510/

Comments

comments