اداریہ تعمیر پاکستان : کابل میں شیعہ ھزارہ نسل کشی: شیعہ کمیونٹی اپنی ایڈوکیسی مہم خود چلائے

kabul-hazara-blast-afp-600

کابل میں ایک سو سے زیادہ شیعہ ھزارہ تکفیری دیوبندی دہشت گردوں کے خودکش بم دھماکوں کے نتیجے میں اس وقت شھید ہوگئے جب وہ بامیان صوبے کو بجلی کے ایک بڑے منصوبے سے باہر کرنے کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔

ادارہ تعمیر پاکستان اس الم ناک واقعہ پہ شیعہ ہزارہ کمیونٹی سے تعزیت کرتا ہے اور گہرے رنج وغم کا اظہار کرتا ہے۔اور اس موقع پہ پاکستانی میڈیا کی جانب سے اس دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں کی مذھبی شناخت کو چھپانے کے ساتھ ساتھ قاتلوں کی مذھبی شناخت کو حسب سابق چھپانے کے عمل کی مذمت کرتا ہے ۔

اس المناک واقعے کے بعد نیشنل و انٹرنیشنل میڈیا اور پاکستانی و عالمی برادری کا جو مجموعی ردعمل ہے اس نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ ہم کچھ باتوں پہ بہت ہی واضح ہوں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اس حملے کا نشانہ افغان ھزارہ ہیں ۔ جبکہ حملہ کرنے والے تکفیری دیوبندی ہیں ۔لیکن اس معاملے میں صرف تکفیری دیوبندی گروپ ہی مجرم نہیں ہے بلکہ اس کا کچھ الزام افغان حکومت پہ بھی ہے جو کہ ایک منظم طریقے سے شیعہ ھزارہ افغان کو بجلی کی فراہمی سے محروم رکھ رہی ہے ۔ اور اس میں پاکستانی اسٹبلشمنٹ بھی مجرم ہے جس نے ان تکفیری دیوبندی دہشت گردوں کو پال پوس کر بڑا کیا ہے ۔

ہمیں سب سے اہم چیز جس کا ادارک کرنےکی بہت اشد ضرورت ہے ۔ نائجیریا سے لیکر انڈویشیا تک اور وہاں سے بیلجیم سے لیکر آسٹریلیا تک شیعہ خون کی ارزانی پہ معذرت خواہوں کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ مغرب اور گلف عرب کے پروپیگنڈا نیٹ ورک جیسے الجزیرہ و سی این این وغیرہ ہیں وہ شیعہ نسل کشی اور تکفیری سلفی ۔دیوبندی دہشت گردوں کے کردار کو بار بار اور مستقل بدیانتی کے ساتھ شیعہ ۔سنی لڑائی قرار دیتے ہیں اور اس طرح سے وہ شیعہ نسل کشی کا جواز فراہم کرتے ہیں ۔

گزشتہ مہینے ۵۰۰ کے قریب شیعہ عراق اور اب افغانستان ہوئے صرف دو حملوں میں مارے گئے ۔اور افسوسناک بات یہ ہے کہ شیعہ مخالف اس تکفیری لہر کا کوئی سنجیدہ اور دیانت دارانہ تجزیہ سامنے نہیں آیا۔

وہ جو شیعہ نسل کشی کو ابہام کی نذر کرتے ہیں یا اسے غیر دیانت دارانہ بائنری کے زریعے سے جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو کھلی آزادی ملی ہوئی ہے ۔ ہمارے پاس جبران ناصر جیسے اور سعودی نمک خواری میں آگے آگے سی این این کے پنڈتوں کی کمی نہیں ہے جن کو شیعہ نسل کشی کے اندر بھی مغالطہ آفرین بائنری نظر آتی ہے اور یہ جوش خطابت یا صحافتی حیلہ گری کے سہارے مظلوم کو بھی زبردستی ظالم بنانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ ان جیسوں کو فری ہینڈ دیا جانا اور بڑے پیمانے پہ ان کو پروجیکشن ملنا خود ریاست کے دہشت گردی کے خاتمے کے دعوؤں پہ سوالیہ نشان لگاتا ہے ۔

شیعہ نسل کشی کی جانب چھپائے جانے کا رحجان , اس کو شیعہ ـسنی بائنری کے آئینے میں دیکھے جانے کی روش یا اس کی جانب معذرت خواہانہ رویہ والی صورت حال اس وقت تک جاری رہے گی جب تک شیعہ کمیونٹی بطور کمیونٹی اپنے ہونے کا شعور نہیں پالیتی ۔ شیعہ کمیونٹی کو ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا جو ان کا خون بیچتے ہیں اور انکے کاز پہ تھوکنے کے لیے دیوانہ وار گھومتے ہیں ۔ شیعہ کمیونٹی کو اپنا مقدمہ خود لڑنے کی صلاحیت حاصل کرنا ہوگی اور اس کی ایڈوکیسی مہم بھی خود چلانی ہوگی نہ کہ یہ فریضہ این جی او ٹائپ تنظیمیوں یا ناکام رینٹ اے کاز لیفٹیوں کو سونپ دینی چاہیے ۔ ان کو عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کی حکمت عملی پہ کام کرنا ہوگا ۔ اور ’ شیعہ نسل کشی ‘ کی اصطلاع کو رائج العام بنانا ہوگا ایسے کہ کوئی اسے نظر انداز نہ کرسکے جسے تعمیر پاکستان کے مدیروں نے اپنے خون پسینے و آہوں سے آگے بڑھایا ۔

Comments

comments