جنت البقیع میں اِنہدامِ قبورِ اہلِ بیت علیھم السلام کی مناسبت سے – امجد عباس

Jannatul-Baqi_before_Demolition-1-800x445

شورش کاشمیری، مسلک دیوبند کے نقیب، پاکستان کے مشہور اہل قلم اور نامور صحافی تھے۔اُنہوں نے شاہ فیصل کے دور میں سعودی عرب میں 14دن گزارے اور اُن تاثرات کو اپنی مشہور کتاب “شب جائے کہ من بودم” میں تحریر کیا ہے۔

جنت البقیع کے حوالے سے شورش کاشمیری لکھتے ہیں

جنت البقیع میں مزارات کی حالت حددرجہ ناگفتہ بہ ہے۔ پہلو میں فلک بوس عمارتیں کھڑی کی جارہی ہیں اور بہت سی قدآور عمارتیں کھڑی ہوچکی ہیں. جس پیغمبر ص نے زندگی بھر پکا مکان نہیں بنایا اُسی کے نام لیوا محلوں میں رہ رہے ہیں لیکن جنت البقیع ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں قبروں کو رسول اللہ ص کی “ہدایت” پر یارانِ نجد نے عبرت کے نوشتے بنا رکھا ہے، گویا اسلاف کی قبروں پر “سنتِ نبوی” نافذ ہے لیکن خود زندہ بریں سنگ مرمر کے محلوں میں رہ رہی ہیں. جنابِ فاطمہ ع کی قبر پر میرے اشکبار دل کی جو حالت ہوئی عرض کرنا مشکل ہے۔ایک ویرانے میں ماں سورہی ہے، ذرا ہٹ کر امام حسن، امام زین العابدین، امام جعفرِ صادق اور امام باقر آرام کررہے ہیں. میرے یہ اشعار اسی حاضری کی یادگار ہیں

اِس سانحہ سے گنبدِ خضریٰ ہے پُرملال
لختِ دلِ رسول کی تربت ہے خستہ حال
دل میں ٹھٹک گیا کہ نظر میں سمٹ گیا
اس جنت البقیع کی تعظیم کا خیال
طیبہ میں بھی ہے آلِ پیمبر پے ابتلا
اس ابتلا کی خاطر کونین ہے نڈھال
سوئے ہوئے ہیں ماں کی لحد کے ہی آس پاس
پورِ خلیل, سبط پیمبر، علی کے لال
جس کی نگاہ میں بنتِ نبی کی حیا نہ ہو
اس شخص کا نوشتہِ تقدیر ہے زوال
کب تک رہے گی آلِ پیمبر لُٹی پُٹی
کب تک رہیں گے جعفر و باقر گستہ حال
از بس کے ہوں غلامِ غلامانِ اہلبیت
ہرلحظہ اُن کی ذات پہ قربان جان و مال
کیا یونہی خاک اڑے گی مزارات مقدس پر
فیصل کی سلطنت سے شورش میرا سوال

(شب جائے کہ من بودم: شورش کاشمیری، صفحہ 205)

بشکریہ: حیدر جاوید سید

Comments

comments