امجد صابری محبت ، امن ، بین المذاہب و مسلکی ہم آہنگی اور عشق محمد و آل محمد کی بات کرنے وا لے کو خون میں نہلادیا گیا – کرن ناز
قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
محبت ، امن ، بین المذاہب و مسلکی ہم آہنگی اور عشق محمد و آل محمد ﷺکی بات کرنے وا لے کو خون میں نہلادیا گیا۔ ابھی تو خرم ذکی بھائی کی جدائی کے زخم بھی نہیں بھرے تھے کہ ہمارے روح و جسم پر امجد صابری کی شکل میں ایک اور گھاﺅ لگادیا گیا جو کبھی مندمل نہیں ہوسکتا۔ اب تو انگلیوں پر بھی شمار ممکن نہیں جتنے قیمتی ہیرے ہم گنواچکے ہیں۔ مذمت مذمت کے کھیل اور مجرموں کی گرفتاری کے عزم کے بیانات سے سچ پوچھو تو اب جی اوب گیا ہے۔ پروفیسر شکیل اوج ، وحید الرحمان ، سبط جعفر ، ڈاکٹر علی حیدر اور ان جیسے علم کی روشنی پھیلانے والوں اور مسیحاﺅں کو مذہبی جنونیت ، جہالت ، ظلم اور انتہا پسندی کے اندھیرے نگل گئے۔
سولہ رمضان کی شام کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں معروف قوال و منقبت خواں امجد صابری بھی دہشتگردوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے جس کے بعد کراچی آپریشن اور نیشنل ایکشن پلان پر ایکبار پھر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ یہ امجد صابری کا نہیں فن اور انسانیت کا قتل ہے۔ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے بیٹے اویس علی شاہ کو دو روز قبل شہر کے گنجان آباد علاقے سے اغواءکرلیا گیا ، گلشن اقبال میں احمدی ڈاکٹر کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا ، کہاں ہیں اب شہر میں قیام امن کے دعویدار؟ جہاں جماعة الدعوہ جیسی دہشتگرد تنظیم کو انسان دوست کہا جائے اور منوایا جائے ،
جہاں کالعدم تنظیموں کو جلسے جلوس کرنے کی مکمل آزادی ہو بلکہ سیکیورٹی فراہم کی جائے ، جہاں اورنگزیب فاروقی اور ملا عبد العزیز کی فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کے خلاف کھڑے ہونے والے خرم ذکی کو گرفتار کرکے نابالغ بیٹے سمیت تھانے میں بند کردیا جائے جبکہ ملزمان کی پشت پناہی کی جائے ،جہاں اقلیتوں کے تحفظ کی بات کرنے اور ریاستی دہشتگردی پر لب کشائی کی سزا میں سلمان تاثیر ، ایڈووکیٹ عبدالرحمان ، سبین محمود اور خرم جیسے نڈر لوگوں کی آواز کو ہمیشہ کیلئے چپ کرادیا جائے ، جہاں قاتل کو ہیرو بناکر پیش کیا جائے ، جہاں آپریشن کا مقصد دہشتگردوں کی نرسریاں ختم کرنے کے بجائے صرف سیاسی جماعتوں کی سرکوبی اور فتح سندھ ہو، جہاں ڈی جی رینجرز دہشتگردی میں ملوث مدارس کا دورہ کرتا ہو ، جہاں سیاسی تنظیمیں انتخابات میں کالعدم جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتی ہوں، وہاں فن اسی طرح مذہبی جنونیت کا رزق بنے گا اور علم و آگہی اسی طرح سڑکوں پر خون آلود ملے گی۔
کراچی سمیت صوبے بھر میں انتہا پسندوں اور دہشتگردوں کے بڑے بڑے مراکز ہیں جہاں سے نکل کر دہشتگرد لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں اور اطمینان سے واپس چلے جاتے ہیں ، دہشتگردوں کی یہ نرسریاں کیوں آج تک آپریشن کے دائرے سے باہر ہیں ؟ شک کی بنیاد پر کارروائیاں کرنے کے بجائے قانون نافذ کرنے والے ادارے اصلی دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کریں اور اچھے اور برے طالبان کے چکر سے باہر نکلیں۔ بہت ہوچکا ہے اب ، صرف مذمت اور نوٹس لینا کافی نہیں ، سائیں سرکار بھی ہوش کے ناخن لے اور لوگوں کی سیکیورٹی کو اہمیت د یتے ہوئے پولیس کو صحیح خطوط پر فعال کرے۔ ہم چیخیں چلائیں اپنی صوبائی حکومت کے خلاف یہ ہم کو ہی زیب دیتا ہے ،
اسے نہیں جو دارالعلوم حقانیہ کے لئے تیس کروڑ امداد کا اعلان کرے اور اپنے صوبے میں دہشتگردی اور کرپشن کے معاملے سے پہلو تہی کرے۔ صوبائی حکومت کی بڑی ذمہ داری ہے کہ صوفیائے کرام کی اس سر زمین سندھ کو سعودی کالونی بننے سے روکے ورنہ یہاں فنکار ، ادیب ، شعرائ، عالم اور مسیحا نہیں صرف دہشتگرد رہ جائیں گے۔
امجد صابری کے قاتل صرف وہ نہیں جو فائرنگ کرکے فرار ہوگئے بلکہ وہ نام نہاد نعت خواں اور سیلبرٹیز بھی ہیں جو ممتاز قادری جیسے مذہبی جنونی کے عاشق رسول ہونے کا پرچار کرتے تھے۔ اب امجد بھائی کی شہادت پر لائیو شو میں مگرمچھ کے آنسو بہانے کا کوئی فائدہ نہیں، کسی اور نے نہیں ان لوگوں کے جاہلانہ اسٹیٹس سے پھیلی مذہبی منافرت نے امن اور پیار کی آواز خاموش کرائی ہے۔کل ٹی وی پر خاص طور پر ایک محترمہ کو دیکھ کر میرا خون کھول رہا تھا کہ جن کے ممتاز قادری کے اسٹیٹس پر میں نے ان کی اچھی خاصی کلاس لی تھی لیکن آپ بھی جانتے ہیں کہ بے حیائی اور ڈھیٹ پن کی کوئی حد نہیں ہوتی۔
مجھے اب تک یقین نہیں آرہا کہ پوری دنیا میں ملک کا نام روشن کرنے والا ، امن و محبت کا سفیر ، اتنا قابل اور پیارا شخص اب ہم میں نہیں رہا لیکن یہ یقین بھی ہے کہ وہ شہادت کے رتبہ کا ہی سزاوار تھا۔ اللہ تعالیٰ عاشق اہلبیت ؑکے درجات میں اضافہ فرمائے۔ آمین