امجد صابری کی والدہ کا بیان

13516529_10208330675799044_8791413081327572359_n

امجد صبح سحری کے پروگرام سے واپس آیا تو میں نے اُس کو آواز دے کر اپنے پاس بلایا اور پروگرام میں رونے کی وجہ پوچھی تو اُس نے بے ساختہ کہا کہ ’’اماں دل بہت اداس ہورہا ہے‘‘۔ میں نے اُسے اپنے پاس بلایا اور اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا کہ کیا بات ہے مُنے تم اتنے بڑے ہوگئے کہ اماں سے باتیں چھپاؤ گے۔

یہ بات سنتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسو جھلکے اور کہنے لگا امی بس دل بہت عجیب ہورہا ہے اور پتہ نہیں بس اللہ خیرکرے ، آپ فکر نہ کریں انشاء اللہ کل تک سب ٹھیک ہوجائے گا بس اپنا خیال رکھیں ، آپ کو اپنے پوتے پوتیوں کی خوشیاں دیکھنی ہیں۔ یہ کہتے ہوئے وہ مسکرایا اور مجھے تسلی دے کر اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔

مگر نہ جانے کیوں میرا دل بہت عجیب سا ہوگیا ، ایسا لگ رہا تھا کہ کلیجہ باہر آجائے گا، میں اُس کے کمرے میں گئی اور امجد کو آواز دی کہ امجد بیٹا ذرا بات سُنو ، وہ کمرے سے باہر آیا تو کہنے لگا اماں خیریت تو ہے کیوں پریشان ہورہی ہیں ؟ وہ میرے پاس آیا اور مجھے میرے کمرے میں لے کر گیا اور مجھے تسلیاں دینے لگا۔ میری جب گھڑی پر نظر پڑی تو صبح کے 8بج گئے تھے میں نے اُس کو بولا کہ جاؤ تم سوجاؤ ، تمھیں صبح جلدی اٹھنا ہے اور پھر پورا دن مصروف رہو گے۔

اُس نے مسکراتے ہوئے کہا اماں ایک دو دن کی بات ہے پھر تو بس سکون کی نیند سونا ہے، ساری تھکن دور ہوجائے گی اور یہ جو آپ میری فکر کرتی ہیں نا اس کی عادت ختم کردیں ، یہ کہہ کر اُس نے میری آنکھیں بند کروائیں اور اپنے کمرے میں چلا گیا، اُس روز وہ اپنی حمد “کرم مانگتا ہوں ، عطاء مانگتا ہوں “مستقل گنگناتا رہا۔

جاتے جاتے مجھ سے پوچھنے لگا اماں یہ مغفرت کا عشرہ چل رہا ہے نا ؟ میں نے کہا ہاں تو کہنے لگا اللہ ہماری عبادتوں کو قبول کرے اور ہم سب کی مغفرت کا اعلان کردے، آمین ۔۔ صبح میری جب 11 بجے کے قریب آنکھ کھلی تو امجد اٹھا ہوا تھا اور کمرے کے ایک کونے میں بیٹھا ہوا تھا، میں نے اُس سے طبیعت پوچھی تو کہنے لگا جی ابھی تو ٹھیک ہے۔

اپنے بچوں کو اٹھایا اور کہا کہ مجھے دادا کا کلام ’’لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی‘‘ سناؤ ، جس پر میرے پوتے نے کہا کہ بابا آج نہیں کل سنا دوں گا آج میرا دل نہیں چاہ رہا، جس پر اُس نے بے ساختہ جواب دیا کہ “ابھی بابا فرمائش کررہے ہیں کہ تو نہیں سنُا رہے پھر جب تمھارا سنانے کا دل چاہے گا تو میں نہیں سنوں گا‘‘۔

بس اسی اثناء ظہر کی اذان ہوئی اُس نے فرمائش پر لال کرُتا نکلوا کر پہنا، نمازادا کرکے کہیں کام سے جانے کی تیاری کرنے لگا، میں نے نماز سے فارغ ہوکر اُس سے پوچھا بیٹا کہاں جارہے ہو، تو اُس نے برجستہ جواب دیا کہ ’’ابا کے پاس ‘‘میں نے کہا صبح سے کیا فالتو بکے جارہا ہے، تو ہنستے ہوئے کہنے لگا اماں فکر نہیں کرو میں واپس ضرور آؤں گا، میں نے اُسے نکلتے ہوئے تاکید کی کہ زیادہ دھوپ میں مت نکلنا گرمی بہت زیادہ ہے، تو کہنے لگا امی گاڑی سے نہیں اتروں گا اب خوش ہوجائیں۔

یہ کہتے ہوئے اُس نے اجازت لی اور اپنے بھائی کے ہمراہ کسی کام سے روانہ ہوگیا، اس دوران میرا دل مستقل گھبرا رہا تھا، دوپہرگھرپرلائٹ نہ ہونے کے سبب پڑوسی نے اطلاع دی کہ امجد کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی ہے اور تھوڑی ہی دیر میں اُس کے انتقال کی خبر ملی تو میں نے خدا سے دعا کی کہ اللہ کرے یہ خبر جھوٹی ہو مگر کچھ ہی دیر میں اس خبر کی تصدیق ہوگئی۔

اس بات کے ساتھ شہید کی والدہ کا بندھن ٹوٹ گیا اور وہ زاروقطار رونے لگیں، جھریوں والے ہاتھوں سے اپنے منہ کو چھپایا اور ہچکیوں کے ساتھ یہ کہا کہ ’’امجد اپنے بابا کے پاس چلا گیا‘‘ ۔ وہ مجھے اکیلا چھوڑ کر چلا گیا اسی اثناء میں کمرے میں بیٹھے ایک بزرگ نے کہا کہ امجد مرا نہیں ہے بلکہ وہ آج سے زندہ ہوا ہے، اب ہر گھر میں امجد کاذکر ہوگا کیونکہ میرا بیٹا شہید ہوا ہے۔

نوٹ: امجد صابری کی والدہ کے یہ تاثرات ان کی رہائش گاہ پر میڈیا سے گفتگو کے دوران قلم بند کیے گئے ہیں۔

Comments

comments