سوال کی حرمت کا سوال ہے – فرنود عالم
بنی نوع انسان کی تاریخ ہمیں یہ تو بتاتی ہے کہ سوال اٹھانے والوں پہ عرصہ حیات تنگ کیا گیا، مگر تاریخ ایسی ایک بھی مثال دینے سے عاجز ہے جس میں سوال کو گلا گھونٹ کے ماردیا گیا ہو۔
بات یہ ہے کہ۔!!
وہ میزائل ابھی ایجاد نہیں ہوا جو سوال تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ وہ گولی ابھی تخلیق ہونا رہتی ہے جو سوال کے بھیجے میں اتر سکے۔ خنجر کی وہ دھار اب تک مجہول ہے جو سوال کی شہہ رگ کاٹ سکے۔ سوال ایتھنز کا سقراط نہیں ہے کہ جس کو زہر کا پیالہ پکڑا دیا جائے اور سوال امام احمد کی پشت بھی نہیں ہے کہ اس پہ کوڑے برسائے جائیں۔ سوال اٹلی کا گلیلیو نہیں ہے کہ تذلیل کی جائے۔ سوال قرطبہ کا ابنِ رشد بھی نہیں ہے کہ اول اسے قید کیا جائے اور پھر جامع مسجد کے ستون سے باندھ کر باری باری اس کے چہرے پہ تھوکا جائے۔ سوال کوئی یعقوب الکندی کا کتب خانہ نہیں ہے کہ اس کو جلا دیا جائے اور سوال اس ساٹھ سالہ مفکر کی خمیدہ کمر بھی نہیں کہ اس پہ تازیانے برسائے جائیں۔ سوال تو زکریا رازی کا سر بھی نہیں ہے کہ بادشاہ اس کی کتاب اسی کے سر پہ مسلسل اس طرح مارنے کا حکم دے کہ یا سر پھٹے یا کتاب پھٹے، اور سوال اس دانشور کی آنکھ بھی نہیں ہے جو سر پہ لگنے والی چوٹوں کے سبب بینائی کھودے۔ سوال راشد رحمان نہیں ہے کہ مار دیا جائے، سوال ایبٹ آباد کی عنبرین نہیں ہے کہ جلا کر راکھ کر دی جائے۔
سوال تو خوشبو ہے۔ جلا کر خاستر کیے گئے علوم وفنون کی خوشبو ہے۔ یہ ہونے کا احساس دلاتی ہے، پکڑائی نہیں دیتی۔
سوال توروح ہے۔ دار پہ کھینچے گئے مفکروں کی روح ہے۔ یہ جسم کے پنجرے میں قید ہو تو محدود ہوتی ہے، پنجرہ ٹوٹتا ہے تو لامحدود ہوجاتی ہے۔
سوال تو انا ہے۔ مسلسل جس کی تذلیل کی گئی اس شعور کی انا ہے۔ اس کے صبر کو جبر مات نہیں دے سکتا، مگر اس کا برتاؤ بہت بے رحم ہے۔ خاموش مگر دیرپا۔ صبر طلب مگر یقینی۔
سوال تو بانکپن ہے۔ غرور عشق کا بانکپن ہے۔ یہ سمٹتا ہے تو من کی دنیا میں گم ہوجانے والا ذرہ بن جاتا ہے، پھیلتا ہے تو زمانے بھر کو لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
سوال کسی سرحد کا پابند نہیں ہے، اس نے گزرنا ہوتا ہے، گزر جاتا ہے۔ سوال کبھی رستہ نہیں مانگتا، سوال اپنا رستہ آپ بناتا ہے۔ وہ جمود کی ہر فصیل کو پھلانگ کر گزر جاتا ہے۔ سوال کسی کی تائید بھی نہیں مانگتا۔ وہ روایت کی مضبوط دیوار میں شگاف ڈال کے گزرتا ہے۔ یہ زبان و بیان کی بھیک بھی نہیں مانگتا۔ یہ صفحہ و سطر پہ انحصار بھی نہیں کرتا۔ یہ کسی منظر میں ڈھل کے کبھی سامنے سے گزرجاتا ہے اور کچھ گہرے نقش چھوڑ کر اشاروں کی ہوا میں دور تک پھیل جاتا ہے ۔ یہ حادثہ بن کر رونما ہوجاتا ہے اور تجربہ بن کر وقت کے پردوں میں گم ہوجاتا ہے۔ یہ واقعہ بن کر نمودار ہوتا ہے اور مشاہدہ بن کر یادوں میں پناہ لے لیتا ہے۔ سوال تو پانی کیس مسلسل ٹپکتی ہوئی بوند ہے، جو ایک دن چٹان کا سینہ بھی چیر کے رکھ دیتا ہے۔
کیونکہ۔!
سوال کبھی مرنے کے لیے جنم نہیں لیتا صاحب۔ سوال یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ ہوتا ہے تو پھر محدود بھی نہیں ہوتا۔ سوال کبھی غلط بھی نہیں ہوتا۔ سوال متعلقہ یا غیر متعلقہ ہوسکتا ہے، سوال کبھی غلط نہیں ہوسکتا۔ غلط صرف جواب ہوسکتا ہے۔ سوال کی زندگی کبھی ختم نہیں ہوسکتی، سوال کی صرف بے قراری ختم ہوسکتی ہے۔ یہ بے قراری ختم کرنے کی طاقت بندوق میں ہے نہ آئینِ زباں بندی میں۔ سوال کی بے قراری ختم کرنے کی طاقت اگر کسی میں ہے تو وہ صرف ’’جواب‘‘ ہے۔ جواب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ صرف علم پہ مہربان ہوتا ہے، جذبات سے وہ ایک گونہ فاصلے پہ رہتا ہے۔ سوال ایک نئے دور کی آواز ہوتا ہے اور جواب اس آواز کا احترام ہوتا ہے۔ سوال کی تذلیل کیجیے تو بھی ذرا دیر سے سہی جواب نکل ہی آتا ہے، مگر احترام کیجیے تو علم کو رستہ مل جاتا ہے۔ تعمیر کا سفر تیز تر ہوجاتا ہے۔ صدیوں کی مسافت برسوں میں طے ہوتی ہے۔
صد شکر کہ!
ہم ان میں سے نہیں تھے جو سوال پہ عائد ہونے والی بندشوں پر جشن مناتے ہیں۔ ہمیں ان میں سے مت رکھیو جو جواب کی مکالماتی ثقافت کے در پے ہیں۔
سو۔!
اے بندگانِ باصفا و پارسا۔! الزام نہ دیجیئے، جواب دیجیئے۔ دھونس مت جمایئے، دھاک بٹھایئے۔ علم کی دنیا جلاو گھیراؤ کی دنیا نہیں، یہ فروغ اور پھیلاؤ کی دنیا ہے۔ رات کی تاریکی بہت پھیل چکی، مگر وقت کا گواہ جاگ رہا ہے۔ جواب دیں گے تو ہمت کی داد پائیں گے، دھمکی دیں گے تو اعترافِ شکست کے اس قابل رحم انداز پہ ہماری ہمدردیاں اپنے ساتھ پائیں گے۔
ہم سے بہتر کون جاتا ہے کہ!!
دلیل کے پٹ جانے کا صدمہ بہت ہوتا ہے، اور اس صدمے کو برداشت کرنا ہی اخلاقی جرات کا بنیادی ثبوت ہے۔