زندان کی چیخ ۔آٹھویں قسط – از حیدر جاوید سید
ایک صبح ناشتہ کر کے فارغ ہوا ہی تھا کہ تفتیشی ٹیم کا بلاوا آگیا۔ فلک شیر اعوان کی ٹیم کا ایک رکن اور دو دوسرے سادہ پوش آئے۔ مجھے ہتھکڑی لگا کر وہیں ہال نما کمرے میں لے گئے۔ فرعونوں کی طرح اکڑ کر بیٹھے تھے سارے میز کے ارد گرد۔قیدی کھڑا کردیا گیا۔کچھ دیر گزری تو فلک شیر بولا۔’’ہا ں بھئی شاہ! کیا سوچا تم نے‘‘؟ ’’کس بارے میں‘‘؟ ’’میں نے تمہیں ایک رات سوچنے کے لئے دی تھی لیکن تین دن بعد بلایا ہے۔
ظاہر ہے بہت وقت تھا سوچ لیا ہوگا‘‘۔ اس نے کہا۔’’میں نے کچھ نہیں سوچا بلکہ سوچنے کی ضرورت ہی نہیں۔ جو مضامین میں نے لکھے یا سکھر اور بہاولپور میں تقریریں کیں ان سے مجھے انکار نہیں۔ البتہ جو آپ لوگ مجھ سے سنناچاہتے ہیں وہ مشکل ہے کیونکہ جو کام کیا ہی نہ ہو اس کا اعتراف کیسے کر لوں‘‘؟ میں نے جواب دیا۔چیختے ہوئے وہ بولا’’بکواس کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں صرف دو سوالوں کا جواب چاہیے۔ تم جو خط بھارت لے کر گئے تھے وہ کس نے اورکس کے نام لکھ کردیا تھا؟ فورٹ عباس میں کس کے پاس رہے؟ سرحد پار کرکے بھارت میں کہاں کہاں گئے اور خط کس کو دیا؟ بھارت میں وہ خط کس نے وصول کیا اور جوابی پیغام کیا تھا۔
کیا وہ پیغام بیگم نصرت بھٹو کے لئے تھا یا کسی اور کے لئے؟ چلو اب صاف صاف شروع ہو جاؤ تمہارے پاس وقت بہت کم ہے۔ صحیح جواب دو گے تو کچھ رعائیت ہو سکتی ہے‘‘۔ ’’رعائیت مانگی کس نے ہے؟ میرا جواب وہی ہے جو پہلے دن دیا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ میرا پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق ہی نہیں میں توصحافی ہوں‘‘۔ ’’تمہاری صحافت کی ماں کو ۔۔۔۔۔۔ کردوں‘‘ اعوان نے گالی دیتے ہوئے کہا۔’’صاف بات کرو تم ہمارے سوالوں کا جواب دینے پر راضی ہو یا ہم اپنے طریقے سے معلوم کرلیں‘‘؟ ’’جیسے آپ کا دل چاہے میرا جواب وہی ہے۔
اعوان نے مجھے کوٹھڑی سے لانے والوں کواشارہ کیا اوروہ مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ کافی دیر تک تو لاتوں، گھونسوں اور بیدوں سے تواضع کرتے رہے۔ پھر انہوں نے بازوؤں میں لاٹھی پھنسا کر مجھے کھڑا رہنے کا حکم دیا۔ بدترین تشدد کے بعد سارا جسم کانپ رہا تھا۔ بڑی مشکل پیش آرہی تھی کھڑا رہنے میں۔ وقفے وقفے سے میں فرش پر گر پڑتا۔جیسے ہی گرتا اہلکار ٹھڈے مارنے لگتے گالیاں دیتے۔ پھرایک اہلکار کہیں سے لوہے کی چارپائی کاخالی فریم لے آیا۔ہتھکڑی کھول کر مجھے اس چارپائی کے فریم کے ساتھ اس طرح باندھا گیا کہ ایک بازو اور ایک ٹانگ ایک طرف اور دوسرا بازو اور دوسری ٹانگ دوسرے جانب کے راڈ سے باندھ دی گئی۔ حالت یہ تھی کہ چارپائی کا فریم تو سیدھا تھا مگر میں اس پر الٹا بندھا ہوا تھا۔
یعنی میرا منہ نیچے فرش کی طرف تھا۔ کافی دیر گزر گئی تو میرے کانوں میں اعوان کی آواز پڑی ’’اکبر! اس نے ابھی بولنا شروع نہیں کیا‘‘۔ اعوان کی بات ختم ہوئی تو وہ درندوں کی طرح میری کمر اور کولہوں پر بید برسانے لگے۔تکلیف کی شدت سے برا حال تھا۔ پھر ایک اہلکار نے بید میرے پاؤں کے تلوں پر برسانا شروع کر دیئے۔ تشدد کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ ایک اہلکار کوئلوں کی انگیٹھی لے کر آیا جو اس نے میرے منہ کے پاس کر کے جلتے ہوئے کوئلوں کے اوپر مرچیں ڈال دیں۔ ان لمحوں کا تصور آج بھی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ مرچوں کادھواں میری آنکھوں، ناک اور منہ میں داخل ہو گیا۔
نیم بیہوشی کی حالت میں تھا جب ایک اہلکار نے میرے سر اور جسم پر ٹھنڈا پانی ڈالا۔ وحشیانہ تشدد سے نڈھال جسم پر ٹھنڈا پانی پڑا تو چیخیں روک نہ سکا۔ اسی دوران ایک اہلکار کی آواز سنائی دی۔’’شاہ جی!آلِ رسولﷺ ہو۔ کیوں ہمیں گنہگار کرتے ہو۔ صاف صاف بتا کیوں نہیں دیتے‘‘؟ واہ رے آلِ رسولؐ کا خیال اور گنہگار ہونے کا خوف۔ سب ڈرامہ کر رہے تھے حرام زادے۔ اقتدار کے پالے ہوئے ان جانوروں کو انسان کہنا انسانوں کی توہین تھی۔
مگر ان کے روپ بدلنے میں وقت نہیں لگتا تھا۔کبھی میٹھے انداز میں باتیں کرتے کبھی گالیاں دینے لگتے۔ اب تشدد، مرچوں کی دھونی دینے اور ٹھنڈا پانی ڈالنے کے بعد کہہ رہے تھے شاہ جی آلِ رسولؐ ہوہمیں تشدد پر مجبور کرکے گنہگار نہ کرو۔ گناہ وثواب کا تصور ان مسلمانوں کا عجیب تھا۔اعوان نے حکم دیا ’’اسے کھول دو‘‘۔ اہلکاروں نے مجھے چارپائی کے فریم سے کھول کرہتھکڑی لگائی اور کھڑا ہونے کا حکم دیا۔ میرے پاؤں سوج چکے تھے۔جیسے ہی کھڑاہونے کی کوشش کی دھڑام سے گر پڑا۔ میرا سر لوہے کے فریم سے لگا اور لیجیئے سر ایک بارپھر پھٹ گیا۔ڈسپنسر کو بلا کر پٹی کروائی گئی۔ اس نے پٹی کر دی تو دو اہلکاروں نے بازوؤں سے پکڑ کر اعوان کے سامنے پیش کیا۔’’کرسی پر بٹھاؤ اسے‘‘ ۔
اس نے رعونت سے کہا۔کرسی پر بیٹھتے ہی درد کی شدید لہر جسم میں ڈور گئی۔پاؤں کی طرح کولہے بھی بیدوں سے پڑنے والی مار سے سوجے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر قبل کا وحشی جانور اعوان اب بالکل بدلا ہوا شخص تھا۔ اس کے حکم پر ایک اہلکار نے مجھے چائے کا کپ دیا۔ چائے پی چکا تواعوان بولا’’شاہ جی! تمہیں معلوم ہے نا کہ ہم اعوان حضرت امام حسینؑ کے بھائی حضرت عباسؑ کی اولاد ہیں۔ اس تشدد پر میرا دل آمادہ نہیں تھا۔ لیکن اعلیٰ افسروں کا حکم ہے کہ تمہاری زبان کھلوانی ہے۔ ہر قیمت پر۔ہم سب مجبور ہیں۔ تم مشکل سے ہاتھ آئے ہو۔ سال بھر چھلاوے کی طرح بھاگتے پھرے ہوتم۔ تمہاری بہتری اور زندگی اسی میں ہے کہ کسی کے لئے زندگی داؤ پر نہ لگاؤ۔ سب کچھ صاف صاف بتا دو۔ ورنہ یہ سوچ لو کہ یہ جو تشدد تم پر ہواہے یہ صرف ٹریلر تھا۔ فلم شروع ہوئی تو برداشت نہیں کر سکو گے۔مجھے بھی افسوس ہو گا‘‘۔ بہت مشکل سے میں نے جواب دیا۔ ’’اللہ جانتا ہے جو سوالات آپ لوگ کر رہے ہیں ان کا جواب میرے پاس نہیں ہے‘‘۔ اللہ سے تمہارا کیاتعلق؟ تم تو دہریے ہو‘‘۔
Source:
http://www.qalamkar.pk/the-scream-of-prison-8/