پاراچنار : 3 شعبان 11 مئی واقعہ کے حقائق
تین شعبان العظم کو یوم ولادت امام حسینؑ کی مناسبت سے ہر سال مدرسہ آیۃ اللہ خامنہ ای پاراچنار میں ایک عالی شان جلسے کا انعقاد کیا جاتا ہے جس کے لئے مقامی علماء وذاکرین کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخواہ کے علاوہ ملک کے دیگر صوبوں سے بھی شیعہ اور اہلسنت علماء اور نعت خوانوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ چنانچہ اس سال بھی 11 مئی 2016ء کو 3 شعبان کے سلسلے مٰیں جلسے کا انعقاد کیا گیا تھا۔ جسکے لئے لاہور سے اہلسنت عالم دین جناب پیر سید مقدس کاظمی، اور اسلام آباد سے شیعہ عالم دین علامہ اعجاز بہشتی کو دعوت دی گئی تھی۔ جلسے کے لئے ایک خوبصورت پوسٹر چھپوا کر جلسے سے تین دن قبل پورے کرم ایجنسی میں جگہ جگہ چسپاں کیا گیا تھا۔ جس میں مذکورہ علماء کی شرکت کو واضح کایا گیا تھا۔
انتظامیہ کا کردار
2 شعبان (10 مئی 2016) کو مذکورہ علماء پشاور سے پاراچنار کے لئے روانہ ہوئے۔ جب چھپری چیک پوست پر پہنچ گئے تو انتظامیہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے انہیں ایجنسی میں داخل ہونے سے روک دیا۔ 2 گھنٹے تک انہیں پھاٹک پر روکے رکھا۔ اس دوران انہوں نے تحریک حسین کے عہدیداروں کو اپنی مشکل سے آگاہ کردیا۔ تحریک حسینی کے عہدیداروں نے فورا انتظمیہ سے رابطہ کیا لیکن وہ کوئی بات سننے کے لئے تیار نہ تھے۔ رات گئے تک تحریک حسینی کی طرف سے یہی کوشش کی گئی کہ معاملہ کا کوئی حل نکل آئے مگر حکام تھے کہ جنکے کان پر جونک تک نہ رینگی۔ انتظامیہ نے جھوٹا بہانہ بنایا کہ مذکورہ علماء سے ایجنسی میں اشتعال پھیلنے اور امن و امان کو خطرہ ہے۔ اس دوران علماء کو چھپری سے ھنگو واپس کردیا گیا۔
گیارہ مئی کو جلسہ شروع ہونے تک تحریک حسینی کی یہ کوشش رہی کہ کسی طرح علماء کو آنے کی اجازت مل جائے لیکن کوئی کوشش بارآور ثابت نہ ہوسکی۔ جس پر عوام میں شدید غم وغصہ پیدا ہوا خیال رہے کہ اس سے پہلے بھی انتظامیہ خصوصا موجودہ کمانڈٹ ملک عمر کی جانب سے عیدگاہ کے مقام پر ہونے والے دھماکے کے شہداء کے ایصال ثواب کے لئے مجلس علمائے اہلبیت کے دفتر میں انعقاد پذیر قرآن خوانی کو سبوتاژ کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی۔ لہذا عوام نے اس واقعے کے خلاف احتجاج کا فیصلہ کیا اور پاراچنار شہر سے چھ کلومیٹر دور ایک غیر حساس دیہاتی علاقے صدرہ کے مقام پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لئے سڑک پر جمع ہوگئے۔
فورسز کا کردار
انتظامیہ نے بلا کسی فاصلے کے فوری طور پر ایکشن لیتے ہوئے مظاہرین کو لیوی فورس اور کرم ملیشیاء کی مدد سے محاصرے میں لیا، اور اپر کرم کے اے پی اے شاہد علی خان نے مظاہرین کے عمائدین کو مذاکرات کے بہانے قریب واقع مالی چیک پوسٹ پر بلایا، لیکن انکے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کی بجائے انہیں فوری طور پر سب جیل بھیج دیا۔ اس دوران لوئر کرم کے اے پی اے نصر اللہ بھی موقع پر پہنچ گئے اور ہم نے انکو اپنے مطالبات پیش کیے تو انہوں نے مثبت جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپکے مطالبات بالکل جائز ہیں، میں اپر کرم کی انتظامیہ سے بات کرتا ہوں۔ مگر اپر کرم کے اے پی اے نے مظاہرین کو قیادت اور اہم افراد سے محروم سمجھ کر اپنے کارندہ لیوی صوبیدار میجر علی جنان کے توسط سے بغیر مذاکرات کے اعلان کردیا کہ پانچ منٹ کے اندر اندر روڈ خالی کیا جائے ورنہ سخت کاروائی کی جائے گی۔ اس دوران لوئر کرم کے اے اپی اے نصر اللہ کے علاوہ تحریک حسینی کے سابق صدر مولانا منیر حسین جعفری دونوں نے کمانڈنٹ ملک عمر سے کہا کہ مذاکرات ایک خاص نکتے پر پہنچنے والے ہیں۔ آپ صرف چند منٹ صبر کریں معاملے کو پر امن طریقے سے مذاکرات کے ذریعے حل کرتے ہیں۔ لیکن ملک عمر اور شاہد علی خان نے ایک بھی نہ سنی اور نصر اللہ اور منیر حسین دونوں کو دھکا دیتے ہوئے پیچھے دھکیل دیا اور ملک عمر نے پستول نکال کر خود ہی فائرنگ کا آغاز کردیا اور پھر ملیشیاء کو فائرنگ کا حکم دیا۔ کرم ملیشیاء نیز کرم لیوی فورس نے فائرنگ کرتے ہوئے اپنے ساتھ لائے ہوئے تمام راونڈز نکال دئے۔ فائرنگ سے تین افراد ماسٹر حاجی سید علی اکبر کڑمان، سید یحییٰ حسین علیشاری اور ماسٹر نثار حسین ملانہ موقع پر شہید جبکہ 13 افراد شدید زخمی ہوگئے۔ جن میں ماسٹر رشید علی نستی کوٹ، سید ارشاد حسین گمبیل شدید زخمی ہوگئے نیز وقوعہ پر موجود تمام گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو ڈنڈوں سے زبردست نقصان پہنچا کر اپنی تحویل میں لیا۔
گرفتاریاں
جرگہ کے 7 افراد سمیت کل 48 افراد کو گرفتار کرکے سب جیل بھیج دیا گیا جن میں اکثریت عمر رسیدہ افراد کی تھی۔ اورانکے ساتھ جیل میں نہایت ناروا سلوک روا رکھا گیا۔ جنکے نام یہ ہیں۔
S.N نام ولدیت عمر پیشہ عہدہ
مولانا یوسف حسین حاجی مومن علی 65 سال ریٹائرڈ ماسٹر، صدر تحریک حسینی
محمد تقی 35 سال سابق صدر تحریک حسینی ممبر مذاکراتی کونسل
سید ریاض حسین 50 سال جنرل سیکریٹری تحریک حسینی
حاجی اکبر حسین حاجی علی عسکر 63 سال ممبر مذاکراتی ٹیم
حاجی سید جمیل حسین ممبر مذاکراتی کونسل
حاجی اصغر حسین ممبر مذاکراتی کونسل
حاجی سید گلاب حسین سید گل حسین 55 سال ممبر مذاکراتی کونسل
ملک منور حسین پروفیسر افضل حسین عمر 55 سال ممبر مذاکراتی کونسل
جبکہ انکے علاوہ عام افراد کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
S.N نام ولدیت عمر پیشہ/عہدہ کیفیت
سید جاوید حسین ماسٹرسید ضامن حسین 16 سال طالبعلم فرسٹ ایئر
سید عابد حسین سید حامد حسین 17 سال طالبعلم سیکنڈ ایئر
قیدیوں میں سے روزانہ پانچ پانچ افراد کو سب جیل سے ایف سی کے کورٹل گارڈ بھیج کر ان پر شدید تشدد کیا جاتا رہا اور ان سے زبردستی یہ بیان لینے کی کوشش کی گئی کہ مظاہرین کی ہلاکت خود مظاہرین کی فائرنگ سے ہوئی ہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر مظاہرین کسی قسم کا اقدام کرتے تو سرکاری اہلکاروں کا بھی جانی نقصان ہوجاتا حالانکہ اس سانحے میں کوئی سرکاری اہلکار ہلاک نہیں ہوئے۔ ہاں بیشک لاٹھی چارج کے دوران مظاہرین نے زبردست استقامت دکھاتے ہوئے پولیس والوں کے ساتھ ہاتھا پائی کی، اور اس دوران مظاہرین نے شجاعت کے وہ کارنامے دکھائے جسکی مثال تاریخ میں نہیں ملے گی، چنانچہ مظاہرین نے بعض اہلکاروں کے ڈنڈے اور بندوق تک چھین لیے، مگر پھر بھی انہوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیا۔ اور فائرنگ نہیں کی، حالانکہ قریبی دیہات سے بھی وہ فوری طور پر بندوق منگواسکتے تھے۔ لیکن مظاہرین خصوصا انکے قائدین نے نہایت فراست اور برداشت کا مظاہرہ کیا۔ اس واقعے سمیت کسی بھی واقعے میں پاراچنار کے محب وطن قبائل نے کبھی بھی اسلحہ اتھا کر فورسز کے ساتھ ٹکر لینے کی کوشش نہیں کی۔ اور پھر اس ظلم پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ گرفتار شدہ گان میں سے 28 افراد کو سب جیل پاراچنار سے سنٹرل جیل بنوں بھیج دیا گیا۔
مظاہرین کی تعداد
مظاہرین کی تعداد بمشکل 150 سے لیکر 200 تک ہوگی۔ جسکا پورا ریکارڈ ایف سی کمانڈنٹ کرنل عمر کے پاس موجود ہے۔ کیونکہ پورے مظاہرے کے دوران ایف سی کی جانب سے ویڈیو ریکارڈ ہوتی رہی۔ جسے اس نے پاراچنار کے عمائدین کو بھی دکھایا ہے۔ تاہم انہوں نے اپنی پسند کے کلپس چھوڑ کر باقی کو ڈیلیٹ کیا ہے۔
فورسز کی تعداد
تقریبا 200 کے قریب نہتے مظاہرین کے لئے فی نفر تقریبا 50 مسلح اہلکار موجود تھے، جنکی ویڈیو مظاہرین اور سرکار دونوں کے پاس موجود تھی۔ تاہم مظاہرین سے موبائل چھین کر انکے پورے ریکارڈ کو ضائع کیا جاچکا ہے، جبکہ ایف سی کے پاس واقعے کا پورا ریکارڈ موجود ہے جس میں سے صرف اپنی پسند کا ریکارڈ رکھا گیا ہے جبکہ باقی کو ضائع کیا جاچکا ہے۔
آپریشن میں تقریبا 2000 کے لگ بھگ لیوی اہلکار، 2000 سے زیادہ ایف سی اہلکار، سینکڑوں کی تعداد میں فوجیوں کے علاوہ 200 سے زیادہ (S.O.G) یعنی سپیشل آپریشن فورس کے کمانڈوز نے حصہ لیا۔
فورسز کی جانب سے ایکشن کی نوعیت
فورسز میں سب سے پہلے لیوی فورس نے ایکشن لیا۔ اور انہوں نے بلا کسی مذاکرات یا وقفے کے اے پی اے شاہد علی خان، تحصیلدار نصیر حسین، لیوی صوبیدار میجر علی جنان اور سٹی محرر اشتیاق حسین کی کمان میں ایکشن لیتے ہوئے پہلے آنسو گیس کے گولے داغے اور بلا کسی وقفے کے فائرنگ شروع کی۔ اگرچہ فائرنگ زیادہ تر ہوائی تھی۔ لیکن پھر بھی اسی فائرنگ سے تین افراد زخمی ہوگئے۔
اس دوران ایف سی نے بھی پوزیشن لیا، اور انہوں نے بھی ہزاروں راونڈ چلائے۔ اسکے بعد کمانڈنٹ ملک عمر نے خود ہی بڑھ کر گولی چلاتے ہوئے ایکشن کا حکم دیا۔ اور پھر فورسز نے براہ راست گولی چلانی شروع کی۔ جس سے جانی نقصان ہوگیا۔
سانحے کے دوران شہید ہونے والوں کے نام اور کیفیت
معمول کے خلاف اس مظاہرے میں جوانوں کی نسبت بوڑھوں اور عمررسیدہ افراد کی تعداد کچھ زیادہ تھی چنانچہ تینوں شہداء کی عمریں پچاس سے زیادہ ہیں۔ جنکی تفصیل کچھ یوں ہے۔
S.N نام ولدیت عمر سکونت کیفیت
سید علی اکبر سید نور حسین 65 تا 70سال کڑمان پہلو میں دو گولیاں لگنے سے جان بحق ہوگئے۔
ماسٹر نثار علی علی مدد ساڑھے 59 سال ملانہ سر میں ایک گولی لگی تھی جسکی وجہ سے موقع پر ہی چل بسے۔
سید یحییٰ حسین سید میر عبد اللہ 57 سال علیشاری شلوزان گردن اور ٹانگ پر گولیاں لگنے سے موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔
جبکہ زخمیوں کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
S.N نام ولدیت عمر سکونت کیفیت
سید ارشاد حسین سید ضامن حسین 17 سال گمبیل سر پر ڈنڈے اور ٹانگ میں سنگین سے شدید زخم
رشید علی مرحوم محمد امیر 55 سال نستی کوٹ سر پر شدید زخم، پانچ ٹانکے لگے ہیں۔
سید ابراھیم سید زوار حسین 45 زیڑان شاہ جی خیل پیٹ، پاوں اور مختلف مقامات پر 13 گولیاں لگنے سے نہایت سیریس حالت میں ہیں۔ جسے آپریشن کے لئے لیڈی ریٖڈنگ ہسپتال پہنچایا جاچکا ہے۔ اور متعدد آپریشن ہوچکے ہیں۔
سید اصغر جان
سید کبیر حسین سید عبداللہ 46 زیڑان گولی لگنے سے ٹانگ میں فریکچر آیا ہے۔
احمد علی سلمان علی
سید ولایت حسین سید اصغر حسین 62 سال کڑمان چہرے اور سر پر شدید چوٹیں لگی ہیں۔
سید ضامن حسین سید نور حسین
سید ذاکر حسین سید زوار حسین
کبیر حسین کامل حسین 40 سال بوڑکی ڈنڈہ لگنے سے سر پر شدید چوٹیں آئی ہیں۔ جسے زخمی حالت میں ہسپتال سے سب جیل اور دو دن بعد بنوں جیل بھیج دیا گیا ہے۔
سید سردار حسین سید محمد حسن 66 سال علیشاری سر پر شدید چوٹیں آئیں ہیں، اور زخمی حالت میں بنوں جیل بھیجا جاچکا ہے۔
انکے علاوہ باقی چار افراد کو معمولی چوٹیں آئی تھیں۔ اور ہسپتال میں مرحم پٹی کے بعد انہیں فوری طور پر فارغ کردیا گیا۔