تکفیری اور فرقہ پرست ملاوں اور خوارج بارے علامہ اقبال کے خیالات
دین حق از کافری رسوا تر است
زانکہ ملا مؤمن کافر گر است
کم نگاہ و کور ذوق و ہرزہ گرد
ملت از قال و اقولش فرد فرد
مکتب و ملا و اسرارِ کتاب
کورِ مادر زاد و نورِ آفتاب
دین کافر فکر و تدبیر و جہاد
دین ملا فی سبیل اللہ فساد
ترجمہ
آج دینِ حق کفارکے دین سے زیادہ رسوا ہے
کیونکہ ہمارا ملا مومنوں کو کافر بنانے پر لگا ہوا ہے
یہ کم نگاہ، کم سمجھ اور ہرزہ گرد ہے
جسکی وجہ سے آج ملت فرد فرد میں بٹ گئی ہے
مکتب، ملا اور اسرار قرآن کا تعلق ایسا ہی ہے
جو کسی پیدائشی اندھے کا سورج کی روشنی سے ہوتا ہے
آج کافر کا دین فکراور تدبیرِجہاد(جہد مسلسل) ہے
جبکہ ملا کا دین فی سبیل اللہ فساد ہے
اقبال نے دار العلوم دیوبند میں در آنے والے تکفیری اور خارجی رجحانات کی بھی شدید مزاحمت کی اور لکھا کہ
تکفیر کے فتووں سے خوارج کا گماں ہے
دیوبند کا مدرسہ نہیں، تخریب جہاں ہے
پاکستان کے خلاف کانگریس اور اس سے کے اتحادی دیوبندی علماء کی طرف سے وطن پرستی کا نعرہ استعمال کیا جارہا تھا – دیوبندی مولوی حسین احمد مدنی کہتے تھے کہ ہندوستان ہمارا وطن ہے اور اس میں بسنے والے سب ایک قوم ہیں – اس کا جواب دیتے ہوۓ علامہ اقبال نے لکھا
عجم ہنوز نہ داند رموز دیں ورنہ
ز دیوبند حسین احمد این چہ بوالعجبی است
سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر ز مقامِ محمد عربی است
ترجمہ:
عجم ابھی تک دین کی رمز سے آشنا نہیں ہوا
دیوبند سے حسین احمد نے کیا عجیب حرکت کی ہے
وہ منبر پر بیٹھ کر کہتا ہے کہ ملت وطن سے ہے
وہ مقام محمد عربی سے کتنا بے خبر ہے
علامہ کا یہ قطعہ جب شائع ہوا تو علمائے دیوبند نے مولانا حسین احمد کی حمایت میں وطن پرستی پر مبنی اشعار کا اور نظموں کا انبار لگا دیا اور ہندو کانگریس کے ہاتھ مظبوط کیے