طالبان کے امیر ملا آختر منصور کے قتل میں گلبدین حکمتیار کا کردار – تجزیہ جاوید چودھری
ملا اختر منصور نے کابل میں صدر اشرف غنی کی حکومت کو تسلیم کرنے اور اس سے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا تھا – گزشتہ چند ماہ میں ملا منصور نے مشرقی اور جنوبی افغانستان میں دہشت گری کی بہت سی کاروائیوں کی قیادت کی جن میں سینکڑوں افغان جاں بحق ہوئے – یہ امر افغان حکومت کے علاوہ امریکہ کے لئے بھی تشویش کا باعث تھا کیونکہ امریکہ اپنی فوجوں کے نکالے جانے کے بعد افغانستان میں طالبان کا تسلط نہیں دیکھنا چاہتا
یہاں پر امریکہ کے ڈالروں کی ریل پیل کام آئی اور افغان جہاد میں ایک اہم سعودی امریکی مہرہ کام آیا جس کا نام گلبدین حکمتیار ہے – حکمتیار کا تعلق حزب اسلامی افغانستان سے ہے اور اس کے ترکی کے صدر اردوگان اور پاکستان کی جماعت اسلامی سے قریبی تعلقات ہیں – اردوگان کے کہنے پر جماعت اسلامی کے ایک اہم لیڈر نے گلبدین حکمتیار کو آمادہ کیا کہ صدر اشرف غنی کی حکومت کو تسلیم کر کے ان سے امن مزاکرات کییے جائیں – اس کے عوض اردوگان کو امریکہ او یورپ نے یہ لالچ دیا کہ ترکی کو یورپ میں ویزا فری داخلہ دیا جائے گا –
لیکن بعد میں امریکہ نے اور شرائط بھی ملحق کر دیں جیسا کہ داعش اور النصرہ کو حمایت سے اردوگان کو باز رکھنا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی – حکمتیار گروپ نے ملا منصور کی لوکیشن امریکہ کو بتا دی اور یوں ڈرون حملے کا نشانہ بنا – اردوگان کے ہاتھ کچھ نہ آیا البتہ جماعت اسلامی والوں کے پاس ڈالروں کے نئے بکسے ضرور آ گئے، افغان جہاد کی یاد تازہ ہو گئی