تا ریک راہو ں کا ایک اور شہید خرم زکی ۔ تنویر زما ن خان

tft-14-p-1-f-600x400 

اک چراغ اور بجھا انتہاپسندی سے پاک معاشرے کا خواب دیکھنے والا خرم ذکی کراچی میں دہشت گردوں کی گولی کا نشانہ بن گیا۔ دو سال قبل اسی روز ملتان میں راشد ررحمٰن کو شہید کیا گیا ابھی تین ہفتے پیشتر سبین محمود کی پہلی برسی تھی۔ لبرل اور ماڈرن پاکستان کا خواب دیکھنے والے اور اس کے لئے کوشش کرنے والے ایک ایک کرکے بیمار ذہن انتہا پسندوں کے نشانے پر آرہے ہیں۔ خرم ذکی حقوق انسانی کی جنگ لڑنے والا متحرک کارکن تھا۔ جسے اس کے ایک دوست خالد رائو کے ہمراہ ایک کیفے میں چائے پیتے ہوئے نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے آکر گولی کا نشانہ بنادیا۔
خرم ذکی کو اس کے کام کی وجہ سے انتہا پسند حلقوں سے مسلسل دھمکیاں مل رہی تھیں۔ لیکن وہ بہادر اپنے حسین معاشرے کی تعمیر کے خواب کی تعبیر دیکھنے کی کوشش سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھا۔ شہادت سے چند گھنٹے قبل خرم ذکی نے لندن میں صادق خان کے میئر منتخب ہونے پر اپنے بلاگ (Letus build Pakistan) میں لکھا تھا کہ صادق خان کا دنیا کے ایک اہم ترین شہر کا میئر منتخب ہونا برطانیہ کی سیکولر جمہوریت کی دین ہے۔
اپنے تبصرے میں اس نے برطانیہ کا پاکستانی معاشرے سے موازنہ لکھتے ہوتے سوال اٹھایا کہ کیا ہم پاکستان میں کسی مسیحی، ہندو یا احمدی کو وزیراعظم منتخب کرسکتے ہیں۔ خرم ذکی کا یہ سوال دراصل اسی عدم برداشت کا اظہار ہے جس جان لیوا عارضے کا پاکستانی سوسائٹی ناقابل علاج حدوں تک شکار ہوچکی ہے۔ وہ لال مسجد اسلام آباد کے مولانا عبدالعزیز کے خلاف ہیومن رائٹس کے قائدین کی جانب سے درج کرائی جانے والی ایک ایف آئی آر میں دیگر کے ہمراہ ایک مدعی بھی تھا اور کیس کی پیروی بھی کررہا تھا جس کی وجہ سے اُسے لال مسجد والوں کی طرف سے مسلسل دھمکیاں موصول ہورہی تھیں کیونکہ یہ انتہاپسند سمجھتے ہیں کہ ایسی آوازوں کو ختم کردینے سے پبلک کے اندر ان کے خلاف بحث تھم جاتی ہے اور آئندہ اٹھنے والی آواز ان کے سامنے آنے سے پہلے کئی دفعہ سوچتی ہے۔
خرم ذکی ملنے والی دھمکیوں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مسلسل مطلع کرتا رہا۔ تاہم حسب معمول پولیس اور دیگر ادارے لال مسجد اور انتہاپسندوں کے خلاف کی جانے والی شکایات پر کم ہی کان دھرتے ہیں۔ بلکہ ان کی اس کان نہ دھرنے کی پریکٹس نے اس تاثر کو بھی عام کردیا ہے کہ شاید یہ ادارے ان انتہاپسندوں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ خرم ذکی ان تمام دیوار سے لگائی گئی اقلیتوں کے لئے بھی آواز اٹھانا تھا جس کا ذکر پاکستان کے پڑھے لکھے طبقے میں بھی اب بے حسی کی حد تک معیوب سمجھا جانے لگا ہے۔ اقلیتوں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں پر سراپا احتجاج بننا تو اب گنے چنے لوگوں کی ہی ذمہ داری بن کر رہ گئی ہے۔ خرم ذکی ان گنے چنے لوگوں میں سے ہی ایک تھا۔ گزشتہ برس لال مسجد کے باہر سول سوسائٹی کی جانب سے مولانا عزیز اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کرنے کے لئے جو مظاہرے ہوئے تھے۔
خرم ذکی ان میں شامل تھا اور گرفتار کرلیا گیا تھا۔ ذکی یوں تو شیعہ مسلک سے تعلق رکھتا تھا تاہم شیعہ اور سنی دونوں کی انتہا پسند سوچ کے خاتمے کا علم بلند کئے ہوئے تھا اور کسی مذہبی گروپ یا تنظیم کا رکن نہیں تھا نہ ہی ان کے لئے کام کرتا تھا۔ گوکہ آج کراچی میں کچھ شیعہ گروپ اس کی انسان دوست Humanist جدوجہد کو Caitalize کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کے لئے اس حوالے سے ہی مشعل بردار جلوس نکال رہے ہیں اور اسے شیعہ رہنما ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس کی شہادت کو شیعہ سنی تضاد کے طو رپر نمایاں کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو کہ ان تنظیموں کا حقائق پر مبنی رویہ نہیں ہے۔
خرم اس لئے مارا گیا کہ وہ طالبانی ذہنیت اور اس کے بڑھتے ہوئے اثر کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ وہ ابھی شہادت سے چند روز قبل مولانا عزیز کے خلاف شیعہ منافرت پھیلانے اور لوگوں کو اہل تشیع کے خلاف اکسانے پر ایک اور کیس درج کرانا چاہتا تھا جس کے ثبوت میں اس کے پاس مولانا عزیز کی ایک ویڈیو تھی جو عدالت میں رجوع کرنے کے باوجود درج نہیں کی گئی۔ اس کے برعکس مولانا عزیز کی جانب سے خرم ذکی کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کرلی گئی تھی جس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان جیسے ملک ہی حقوق انسانی کی آواز اٹھانا اور مذہبی جنونیت کے لڑائی لڑنا اور اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنا کتنا مشکل کام بن چکاہے۔ ایسا اس لئے بھی ہے کہ ریاستی ادارے انتہاپسندوں کے ڈریا نرم گوشے کی وجہ سے ہاتھ ڈالنے سے گریز کرتے ہیں جبکہ ان کی جرأت دیکھئے کہ 7 مئی کو شہید کئے گئے خرم ذکی کے قتل کی ذمہ داری ایک طالبان گروہ نے قبول کرلی ہے۔
اسی طرح بے کار صحافیوں اور حقوق انسانی کی آواز اٹھانے والوں کو اغوا کرلیا جاتا ہےتشدد کیا جاتا ہے، قتل کردیاجاتا ہے کچھ بازیاب ہوجاتے ہیں۔ لیکن بیشتر کی لاشیں کسی نہ کسی سڑک یا پارک میں پڑی ایک انتقامی نوٹ کے ساتھ مل جاتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ان حقیقی سماجی تبدیل کی آواز اٹھانے والوںکے حق میں ہفتے میں چار چار جلسے کرنے والی سیاسی پارٹیاں بھی ایک فقرہ بھی کہنے کو تیار نہیں ہوتیں۔ اور ریاستی ادارے بھی خرم ذکی جیسے قیمتی قومی خزانے کے کھونے پر چپ سادہ لیتے ہیں۔ خرم اکثر کہتا تھا کہ میں ایسا پاکستان دیکھنا چاہتا ہوں جہاں ہم اختلافات کے باوجود مل جل کر رہ سکیں۔ خرم ذکی کا پیغام جاری ہے۔
بقول فیض:
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
جسم و زبان کی موت سے پہلے
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
Source:

Comments

comments