مودی اور مودودی – جاوید چودھری
مودی اور مودودی میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے ان مذہبی انتہا پسندوں کا ایک ہی المیہ ہے کہ ہوس اقتدار ان کے دل سے نہیں جاتی ورنہ مذھب کا پرچار کرنے والے دنیا سے کوسوں دور ہوتے ہیں حضرت علی ہجویری ہوں یا شاہ عبدالطیف بھٹائی ،یا بابا فرید پاکپتن والے کیا انہوں نے اپنے لاکھوں مسلمان ہونے والے مریدین کے ذریعے حکومتوں پر قبضہ جمانے کی کوشش کی تھی؟
مودی ایک مذہبی انتہا پسند ہے اور مودودی بھی مذہبی انتہا پسند تھا مودی بھی باریش ہے دونوں نے اپنی اپنی منزل تک پنہچنے کیلئے مذھب کا شارٹ کٹ مارا مودی کامیاب رہا اور مودودی ناکام ، مودی اپنے جلسوں اور تقریروں میں کھلے عام انتہا پسند ہندوازم کا پرچار کرنے والا ہے اس نے دھرم کو سیاست میں اسطرح مکس کردیا ہے کہ ہندو کیلئے ایک مذہبی سیاسی پارٹی سے مفر کرنا ناممکن ہوگیا ہے مودی اور مودودی دونوں اکھنڈ بھارت کا پرچار کرنے والے ہیں مودودی کی یہ مجبوری تھی کہ اس نے ابتدائی ناکامیوں کے بعد اپنا وطن ہی چھوڑ دیا اور حیدرآباد دکن سے پٹھانکوٹ شفٹ ہوگیا جہاں اس نے اکتالیس میں ایک سیاسی مذہبی جماعت کی بنیاد رکھی جس نظریات میں دیوبندیت، وہابیت اور خارجیت کا ملغوبہ تھا
پٹھانکوٹ کے لوگ حیدر آباد دکن کی نسبت بہت پسماندہ اور کم پڑھے لکھے تھے اسلئے یہاں مودودی نے قدم جمانے شروع کر دئے کانگریس اور انگریز کی حمایت بھی اسے حاصل تھی لہذا جماعت اسلامی اقتدار کے خواب کی شرمندہ تعبیر ہوتے دیکھنے لگی کہ اتنے میں قائد اعظم نے علیحدہ اسلامی ملک کا مطالبہ کر کے مودودی کی ساری خواہشات پر پانی پھیر دیا، یہی وجہ تھی کہ مودودی نے پاکستان اور قائد اعظم کی شدید مخالفت میں ایک طوفان برپا کر دیا جب بات نہ بنی تو مودودی نے مذھب کا استعمال کر کے اپنی مخالفت کے تن مردہ میں جان ڈالنے کی کوشش کی جو کسی حد تک پٹھانکوٹ کے ضلع میں کامیاب رہی، یہی وجہ ہے کہ پٹھانکوٹ انڈیا کا حصہ ہے پٹھانکوٹ کے لوگوں نے مودودی کیلئے انڈیا کا حصہ بننے کو ترجیح دی لیکن مودودی انہیں بھی دھوکا دے گیا یعنی انہیں انکے حال پر چھوڑ کر پاکستان منتقل ہوگیا ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جانا اور پچھلے دوستوں کو بھول جانا انکے لئے ایک معمول کا کام تھا
مودودی نے اپنی جماعت کو ایک ہی سبق دیا کہ ووٹ مذھب کے نام پر لینا تاکہ دوسری پارٹیوں کے ذہین ترین اعلی دماغوں کے مقابل تمہارے اوسط درجے کے دماغ مذھب کے لبادے میں چھپ کر انکا مقابلہ کرسکیں، مودودی نے قائد اعظم اور علامہ اقبال جیسے قدآور لیڈرز کا مقابلہ مذھب کی لاٹھی سے اسی لئے کیا کہ اسکے پاس ان کو معتوب کرنے کا کوی دوسرا طریقہ نہیں تھا اگرچہ مودودی بری طرح ناکام ہوا اور شرمندگی کے باوجود پاکستان ہجرت کرنا اس کیلئے مجبوری بن گیا
ادھر بھارت میں مودی کی حالیہ لینڈ سلائیڈ وکٹری کے پیچھے یہی ایک فلاسفی کارفرما تھی ہندو مت کے نام پر ووٹ مانگے گئے تھے جلسہ گاہوں میں مورتیاں رکھی جاتی تھیں ہندوؤں کی مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکا کر مودی کیلئے انکی حمایت پکی کی جاتی تھی گجرات میں مسلمانوں کو زندہ جلانے جیسے واقعات کے پیچھے مودی کی شیطانی پلاننگ کارفرما تھی
ہندوستان میں کسی کو جرات نہیں تھی کہ اتنے طاقتور مجرم پر ہاتھ ڈالتے لیکن ہیومن رائٹس کی مسلسل رپورٹس کی وجہ سے بالاخرامریکہ نے مودی کے داخلے پر پابندی عائد کردی تھی تب ان ہندو مت کے پیروکاروں نے دل میں یہ بات ٹھان لی کہ انہوں نے مودی کو امریکہ میں بطور ہیڈ آف اسٹیٹ لے کر جانا ہے جسمیں وہ کامیاب بھی ہوگئے، کجا یہ کہ امریکی سفارت خانہ مودی کے پاسپورٹ پر ریفیوزکی اسٹمپ لگا دیتا تھا کجا یہ کہ امریکی صدر کو مودی کا استقبال تالیاں بجا کر کرنا پڑا
جماعت اسلامی نے مذھب کو سیاست میں مکس کر کے ایک نیا تصور پیش کرنے کی کوشش کی جو بقول انکے اپنے بیٹے فاروق مودودی کے دراصل اسلام کو ازم بنانے کی کوشش تھی جو ناکام ہوئی اور معدودے چند ذہنی مریضوں کے کسی نے بھی اس ازم کو پسند نہ کیا لیکن جنرل یحی اور جنرل ضیاء کی مدد سے جماعت اسلامی کو اپنے ارادوں کو پایہ تکمیل تک پنہچانے کیلئے کافی موقع مل گیا درمیان میں بھٹو بھی آگیا جسکو جماعت نے ٹائلٹ پیپر کی طرح استعمال کر کے گٹر میں بہا دیا
مودودی کا فلسفہ فوج میں پڑھانے سے پاکستان میں اسلام کا اصل اور خوبصورت چہرہ چھپ کر رہ گیا اور ہندوؤں کی طرح مسلمانوں کو بھی ایک انتہا پسند قوم بنانے کی کوشش شروع کر دی گئی یہ تجربہ قدرت کے خلاف ہے اسلئے ہمیشہ ناکام ہوتا آیا ہے زار روس ،فرنچ رائل فیملی اور ہٹلر کی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے مذھب کو ذاتی اقتدار کا زریعہ بنانے کی کوشش کی لیکن بری طرح ناکام رہے خود بھی برباد ہوے اور ریاستیں بھی تباہ ہوئیں
مودی بھارت میں کامیاب ہوگیا لیکن پاکستان کے باشعور عوام نے ڈنڈے کے زور سے پاکستانی مودی کو اپنے اوپر حکمرانی کرنے کی اجازت نہیں دی جس سے مودودی کا “مشن ٹو گیٹ گورنمنٹ” بری طرح فیل ہوگیا یہی وجہ ہے کہ مودودی کے دور سے لیکر آج تک جماعت اسلامی کی حالت اور اوقات اس کتے جیسی ہے جسے قصاب اپنے پھٹے سے دو چار چھیچھڑے اٹھا کر ڈال دے تو اسکا پیٹ بھر جاتا ہے ورنہ وہ پھٹے کی نیچے امید و بیم کی کیفیت میں سارا دن بیٹھا رہتا ہے
اقتدار کی خواہش میں کبھی یہ جماعت آئ جے آئ اور دفاع پاکستان کونسل کا حصہ بنتی ہے تو کبھی مشرف لیگ کا اور کبھی ایم ایم اے کا تو کبھی بھٹو کے خلاف اتحاد کا ، حمید گل جیسا اوسط درجے کا جرنیل انکو انگلیوں پر نچاتا ہے جہاں چاہے انکو گھسیڑ کر ذلیل کروا دیتا ہے – یہ بد بخت جماعت امن پسند سواد اعظم اہلسنت کو انتہا پسند دیوبندی، وہابی اور سلفی بن کر طالبان، القاعدہ، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ اور داعش میں بھرتی کرتی ہے – اسی جماعت کے دہشت گرد کبھی لشکر جھنگوی کے روپ دھارتے ہیں اور کبھی جند الله کی شکل میں پاکستانی عوام اور فوج کا قتل عام کرتے ہیں – اسی جماعت کے سعد عزیز دیوبندی نے سبین محمود کا قتل کیا اور اسی جماعت کے شمس الدین امجد نے سماجی رہنما خرم زکی کو قتل کیا – اسی جماعت کے لیڈر منور حسن حکیم الله محسود کو شہید کہتا ہے جبکہ طالبان اور سپاہ صحابہ کے خوارج سے لڑنے والے پاک فوج کے مجاہدین کو شہید ماننے سے انکار کرتا ہے، اسی ملک دشمن جماعت کا لیڈر سراج الحق طالبان کے دہشت گردوں فقیر اللہ و دیگر کے جنازے پڑھاتا ہے اور کالعدم دہشت گرد گروہ لشرک جھنگوی سپاہ صحابہ کے ہمراہ جلسے کرتا ہے
اس بد بخت جماعت کی نیت اسلام کا نام استعمال کر کے دیوبندی اور وہابی اقتدار کا حصول رہی ہیں اسلئے یہ جہاں بھی ہاتھ ڈالتے ہیں سارا تالاب گندہ کر دیتے ہیں جہاں جہاں انہوں نے فوج کی بظاہر حمایت کرنے کی کوشش کی وہاں وہاں فوج کو ناکامی اور ہزیمت دیکھنا پڑی، وجہ وہی نیت کی خرابی
انہوں نے کشمیر میں فوج کی مدد کرنے کی کوشش کی تو اپنی غلیظ حرکات، فرقہ واریت اور دہشت گردی کی کی وجہ سے کشمیریوں کو پاکستان سے بیزار کر بیٹھے نتیجہ پاکستانی فوج کو وہاں بھی لوکل اور عالمی حمایت سے محروم ہونا پڑا ..بھارتی فوج کو بیٹھے بٹھاۓ مدد مل گئی انہیں اور کیا چاہئے تھا
بنگلہ دیش میں فوج کی مدد کی کوشش کی تو لوکل شہریوں کے خلاف ایسے بھیانک جرائم کیے کہ ملک ہی دو لخت کروا دیا،، وجہ وہی نیت کا فتور
پاکستان میں فوج کی مدد اسطرح کی کے طالبان کے سفیر بن کر فوج سے انکے لئے فری زون اور دیگر ناقابل یقین رعایتیں مانگتے رہے،ٹی ٹی کے قاتلوں کو چھڑواتے رہے لیکن بم دھماکے رکوانے سے انہیں کوی دلچسپی نہیں تھی بلکہ ہر خودکش حملے کے فوری بعد مذاکرات کے متاثر نہ ہونے کی نوید سنا دیتے
ہندومودی کو طاقتور تو بنا بیٹھے ہیں لیکن وہ انتہا پسند پارٹی کو اقتدار دینے کی بھاری قیمت جلد ادا کریں گے مذھب کے نام پر سیاست کی قیمت انہیں اپنے خون سے چکانی پڑے گی لیکن شکر ہے کہ مسلمانوں نے اپنے درمیان ایسی کسی پارٹی کواقتدار نہیں دلوایا
مسلمانوں نے سب سے پہلے قائد اعظم کی قیادت میں مودودی کے نام نہاد فلسفہ کو اسکی جماعت سمیت ٹھکرا دیا اور مودودی و نہرو کا اکھنڈ بھارت کا خواب ٹھکرا کر پاکستان چلے آئے ، پھر پاکستان کے ہر ہر انتخاب میں جماعت اسلامی کو مسترد کرکے یہ ثابت کیا کہ ہماری قوم کو ہندوازم کی طرز پر بنائی گئی کسی جماعت کو فالو نہیں کرنا ہے انشااللہ