ملک دشمن عناصر، دہشت گردوں، مذہبی انتہاء پسندوں کے خلاف قلم سے جہاد کرنے والا، مرنے والوں کا مرثیہ لکھنے والا ہمارا، عزیز از جان دوست اور بھائی سید خرم ذکی شہید کر دیا گیا۔
اِنا للہ و اِنا اِلیہ راجعون۔
وہ جس راستے پر چل نکلا تھا، اُس کا انجام اٗسے بخوبی معلوم تھا، وہ کچھ عرصہ اسلام آباد میں بھی رہا لیکن ملاقات نہ ہو پائی، اُسے ہمارے ایک دوست نے بڑا سمجھایا کہ جن عناصر کے خلاف آپ قانونی چارا جوئی کرنا چاہتے ہیں، وہ عناصر ریاست کے پروردہ اور اُسے عزیز ہیں، لیکن وہ بلا کا ضدی تھا، اپنی ویب سائٹ پر میرے کئی ایک سٹیٹس مجھے بتائے بنا لگا دیا کرتا، برادر عمار خان ناصر کی تحریریں بھی اُس کی سائٹ پر موجود ہیں۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ وہ انسان دوست، انتہائی بڑا جرات مند اور مخلص پاکستانی تھا۔
رات اچانک اُس کے زخمی ہونے کی اطلاع پر چونک اُٹھا، بس ذرا دیر بعد معلوم ہوا کہ وہ شہید ہوگئے۔
کافی دیر تک یقین نہیں آرہا تھا، ہاں اب بھی وہ نہیں مرا، وہ زندہ ہے، ہاں قرآن بھی میرا ہم خیال ہے کہ اُسے مردہ نہ کہو، ہاں اب وہ بارگاہِ خداوندی میں موجود ہے، اُس کی آواز کو، اُس کی فکر کو کوئی ختم نہیں کر سکتا۔
افسوس میں اپنے ایک اچھے دوست سے محروم ہوگیا۔
ریاست تو اُس بوڑھی ماں کی طرح ہے جسے اپنے روز مرنے والے بیٹوں کی کوئی پروا ہے نا خبر۔
چھ مئی کو اُس نے ڈیرہ اسماعیل خان میں دن دیہاڑے مارے جانے والوں کے متعلق سٹیٹس ڈالا تھا، لیکن 7 مئی کو وہ خود شہید کر دیئے گئے